کلچرڈ امریکہ اور دہشت گرد طالبان

ممتاز میر

  اس سے پہلے کہ ہم لکھنا شروع کرتے ایک شعر یاد آگیا۔ آپ بھی سن لیجئے۔ ۔ یارو ہمارے ساتھ عجب سانحہ ہوا ؍ ہم رہ گئے۔ ہمارا زمانہ گزر گیا۔ ۔ اور یہ سانحہ سرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہم جیسے اور بھی لوگوں کے ساتھ ہوا اورہوتارہیگا۔ ہم ماضی پرست ہیں اور ماضی میںجیتے ہیں۔ اپنے اسلاف کو پسند کرتے ہیں۔ ہم اپنی ترقی اس بات میں سمجھتے ہیں کہ پیچھے ہٹتے ہٹتے نبی کریمﷺ اور صحابہؓ کرام کے دور سے جا کر مل جائیں۔ ۔ ہم تو اپنے بچپن کے اس دور کو بھی اچھا سمجھتے ہیں جب ذرائع آمد ورفت کے نام پر بیل گاڑی ،تانگہ یا بھاپ کا انجن ہوا کرتا تھا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے مگرموٹر سائکلیں ہیں اور ان کا پیٹ بھرنے کے لئے وہ ذکٰوۃ خیرات سبجائز کر لیتے ہیں۔ موبائل ہیں مگر ٹاوروں پر اتنا بوجھ ہے کہ دن میں دس بار کال لگتے نہیں یا بات ہو نہیں پاتی۔ ہر شخص ہیلو ہیلو کہہ کہہ کر باؤلا  ہو رہا ہے۔ خیر جب بات نکلتی ہے تو دور تلک جاتی ہے اور بعض اوقات واپسی کا راستہ بھی بند کر دیتی ہے۔ اسلئے بہتریہ ہے کہ ہم اپنے مطلب پر آجائیں۔ تو صاحب ،ماضی پرست ہونے کی وجہ سے ہمیں تاریخ سے بچپن ہی سے دلچسپی رہی ہے۔ تاریخ میں ہم نے دیکھا کہ جب دو ملکوں یا بادشاہوں کے درمیان جنگ ہوتی تھی تو بالکل واضح طور پر ایک فاتح اور دوسرا مفتوح ہوتا تھا۔ ہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ جنگ سے پہلے کبھی کبھی صلح بھی ہوجاتی۔ مگر اس میں بھی یہ واضح ہوتا کہ کون سیر ہے اور کون سوا سیر۔ صلح جو کو دب کر صلح  کرنا پڑتی۔ سوا  سیر کی شرائط مان کر صلح کرنی پڑتی۔ مگر جدید ترقی نے سن کچھ غیر واضح کردیا ہے۔ میڈیائی پروپگنڈے نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا ہے۔ اب تو لوگوں کو بے وقوف بنانے کی بھی تعلیم دی جارہی ہے اور اسمیں ماہر ہونے والے کو سند دی جاتی ہے۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس میں جھوٹ بولنے کے ماہر کو سند دی جاتی ہے۔ بڑی ستم ظریفی ہے یہ۔ اور اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اب حالت  یہ ہے کہ حضرت انسان تمام تر دعووں کے باوجود ،کیمرے اور سیٹلائٹ کے باوجود کالی رات میں کالے پہاڑ کی کالی چیونٹی کو دیکھ لینے کے دعووں کے باوجود جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا اور جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

   کچھ ایسا ہی گڑ بڑ حال امریکہ اور افغان طالبان مزاکرات کا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اور کچھ ہو بھی رہا ہے  یا نہیں۔ بس زلمے خلیل زاد اور ملا عبد الغنی برادر کا نا م اخبارات میں آتا ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ بس ایک آدھ ہفتے میں امریکہ اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردے گا۔ کبھی لگتا ہے بیل منڈھے نہیں چڑھے گی اور افغانیوں کو ابھی کچھ اور سال جنگ کی بھٹی میں  بھننا پڑے گا۔ کوئی بھی قطعیت کے ساتھ  یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے نتائج کیا نکلیں گے؟سوئے اتفاق کے اس وقت امریکہ کا جو صدرہے اسے ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ ناقابل اعتبار حکمراں ،اخلاق و کردار سے عاری سربراہ مملکت ، جس پر مواخذے کی تلوار بھی لٹکتی رہتی ہے۔ مگر اس میں تعجب کی بات کیا؟خود امریکی قوم کا امیج بھی تو آج ایسا ہی ہے۔ پھر یہ بات تو بڑی مشہور ہے کہ جیسا راجہ ویسی پرجا۔ ۔ یا جیسی پرجا ویسا راجہ۔ سپر پاور ہونا ایک بات ہے اور اس حیثیت کو ہضم کرنا دوسری بات۔ امریکہ کی سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ایک بدمعاش ملک اور بدمعاش قوم ہے۔ وہ اپنی حیثیت کی قے کرتا رہا ہے۔ اب جب کہ اس کی یہ حیثیت ہی داؤں پر لگی ہوئی ہے تو وہ جو نہ کرے کم ہے۔ اب افغانستان کی جنگ میں اسے جو نقصان ہو رہا ہے۔ ایک طرف وہ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے تو دوسری طرف یہ بھی پیش نظر ہے کہ اس کی اخلاقی ساکھ کو ،سپر پاور کی ساکھ کو بھی دھکا نہ لگے۔ اس لئے مذاکرات کم کررہا ہے  اور طوائفوں کی طرح نخرے زیادہ دکھا رہا ہے۔ بی بی سی نیوز کہہ رہی ہے کہ واشنگٹن اب اس۱۸ سالہ بے فیض جنگ سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے   مگر دوسری طرف اس کے مفادات بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کبھی اللہ تعالیٰ اس طرح بھی سزا دیتا ہے کہ قوت  فیصلہ سلب کرلی جاتی ہے اور یہ دنیا کے عام آدمی کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور دنیا کے سب سے خاص آدمی کے ساتھ بھی۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ یہودیوں کے ’’سارے‘‘ دوست گدھے ہیں۔ خیر۔ امریکہ کبھی کہتا ہے کہ طالبان اس کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ ایڈجسٹ ہوجائیں۔ اتنا پٹنے کے باوجود کبھی کہتا ہے اس کے ۱۰ ھزار فوجی افغانستان میں رہیں گے۔ ظاہر ہے جب دنیا بھر کے لاکھوں فوجی طالبان کاکچھ نہیں بگاڑ پائے تو یہ دس ھزارطالبان کا کیا کرلیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صلح کے ذریعے انخلا کے بعد بھی امریکہ دس ھزار فوجی  افغانستان میں کیوں رکھنا چاہتا ہے ؟ہنسی کی بات ہے۔ طالبان کی حفاظت کے لئے یااپنی کٹھ پتلی کی حفاظت کے لئے۔ دونوں ہی باتوں   پرہنسی آتی ہے۔ ممکن ہے امریکہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کو نجیب اللہ کے انجام سے بچانا چاہتا ہومگر سوال پھر یہی ہے کہ کیا یہ دس ھزار طالبان کے سامنے ٹک سکیں گے ؟ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ہو سکتا ٹرمپ انھیں امریکہ لے ہی نہ جانا چاہتا ہو۔ امریکی معیشت کا جنازہ نکل رہا ہے ورنہ چین سے،جو امریکہ کو سب سے زیادہ قرض دیتا ہے ،لڑائی مول لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور امریکہ کے پاس اتنے پیسے ہی نہ ہوں کے وہ اتنے سارے لوگوں کو سارے فوجی تام جھام کے ساتھ واپس لے جا سکے۔ تو اخراجات میں کفایت کا ایک طریقہ یہ  بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں یہیں کٹوا دیا جائے۔ آخر Twin Towers میں بھی تو ھزاروں کو مروایا گیا تھا۔ ایک اور شرط اور سب سے اہم شرط جو ہمارے نزدیک حیرت انگیز ہے اور جسے طالبان نے مان بھی لیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ یک طرفہ شرط ہے۔ اسے اس طرح ہونا تھا کہ جواباً  امریکہ یا کسی اور ملک کی سرزمین یا سمندر یا فضا کسی  غریب یاکمزور ملک کے خلاف یا کم از کم افغانستان کے خلاف استعمال نہین کی جائے گی۔ ویسے ان بدمعاشوں کی گارنٹی کے کوئی معنی نہیں۔

یہ Weapons of Mass Destructionعراق میں ایجاد کر سکتے ہیں تو کہیں اور بھی ایجاد کر سکتے ہیں۔ یہ ضرورت پڑنے پر  افغانستان پر دوبارہ حملے کے لئے پھر کوئی بہانہ گھڑ سکتے ہیں۔ امریکہ اکثر اپنے مخالف ممالک پر دہشت گردی پھیلانے کے جھوٹے الزامات رکھتا ہے۔ سوال یہ کہ امریکہ نے آج تک جو کچھ مسلم یا غیر مسلم ممالک کے ساتھ کیا ہے وہ دہشت گردی کی تعریف میں نہیں آتا؟

آج امریکہ جو کچھ ایران کے ساتھ کر رہا ہے(اس کے باوجود کے ہم ایران کو دودھ کا دھلا نہیں سمجھتے)کیا دہشت گردی نہیں ہے؟امریکہ نے جس طرح جوھری معاہدے کو ٹھکرایا ہے اوراب جو ایران کے ساتھ اس کا رویہ ہے۔ طالبان اگر دب کر ڈر کر یا اپنی کسی کمزور کی بنا پر صلح نہیں کر رہے ہیں تو انھیں امریکہ سے کہنا چاہئے کہ ممکن ہے کل تم ہمارے ساتھ ہونے والے معاہدے سے بھی پھر جاؤ۔ انھیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ جوہری ٹیکنالوجی سے صرف شمالی کوریا کیوں دستبردار ہو۔ امریکہ اور دیگر جوھری ممالک کو یہ ہتھیار رکھنے کا حق کیوں ہو؟ترکی کو روس سے S-400خریدنے کا حق کیوں نہ ہو ؟امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اب تک کی تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے تعلق سے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر چکا ہے تو سب سے پہلے اسے جوہری ہتھیار تلف کر دینے چاہئیں۔ مگر یہ کتنی بْڑی ستم ظریفی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد ملک کو دنیا کے سب سے غیر ذمے دار ملک کو کسی نے یہ نہیں کہا کہ سب سے پہلے تمھیں اپنے  Weapons of Mass Destructionنکال پھینکنے چاہئے۔ یعنی جتنے بزدل ڈر پوک ایشیائی ممالک ہیں اتنے ہی بزدل ڈرپوک یورپی بھی ہیں۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم طالبان جیسے کمزوروں کے سامنے یہ مطالبہ کیوں رکھ رہے ہیں ؟مشہور بات ہے کہ طاقت بازوؤں یا ہتھیاروں میں نہیں دل اور دماغ میں ہوتی ہے۔ گزشتہ ۴۰ سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہجڑوں کی اس دنیا میں (یہ ہجڑوں کی جبلت ہے کے کسی پر حملہ کرنے کے لئے متحد ہو جاتے ہیں )فی الوقت افغان ہی مرد ہیں۔ امریکہ کا ہاتھ طالبان کے نیچے دبا ہوا ہے۔ اس حد تک کہ کبھی مسلمان جارح قوتوں سے التجا کرتے تھے کہ رمضان میں جنگ بندی کی جائے۔ اس بار امریکہ طالبان کے سامنے رویا گڑگڑایا تھا کہ کم سے کم رمضان میں تو ہمیں دم لینے دو۔ اور ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی تھی کہ روزہ داروں نیاس التجا کو ٹھکرادیا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔