مگر کہی کوئی قیامت نہیں اترتی!

ذوالقرنین احمد

افغانستان کے صوبے قندوز میں مدرسے میں جاری جلسہ دستار بندی پر امریکی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے سو سے زائد حفاظ شہید کردیے گئے یہ خبر نے دل کو چیر کر رکھ دیا ہے عجیب کیفیت طاری ہو گئی

"تو پرندے ماردے کر و صنوبر مار دے "

"تیری مرضی تو جس کو دہشت گرد کہ کر ماردے”

"اب اسکے چاہنے والوں سے تیرا پالا پڑھ گیا”

"پرندے بھیج کر جو لشکر کے لشکر مار دے”

 کیا جرم تھا ان طلباء کا جو اللہ کا کلام سینےمیں محفوظ کر چکے تھے آج انھیں برسوں کی محنت کا نتیجہ ملنے والا تھا کتنے خوش تھے سبھی طلباء جنکی دستار بندی کی جارہی تھی انھیں کچھ خبر بھی نہیں تھی کے آج یہ اللہ کے دربار میں حاضر ہوگے اور فرشتے ان کے قدموں میں فرش تا ارش اپنے نورانی پر بچھأے انکا استقبال کر رہے ہوگے ارش بری ان کیلئے سجایا گیا ہے اور جنت کے پھولوں سے نورانی پگڑیوں سے انکی دستار بندی کی جاینگی اور جنت ان کیلئے سجأی گٔی ہوگی، اور اکدم سے عالمی دہشت گرد امریکہ اپنی حکومت اور سپر پاور ایٹمی طاقت کے نشے میں جلسہ دستار بندی پر جہاں حفاظ کرام و طلباء اساتذہ اور والدین سیکڑوں کی تعداد میں موجود تھے ان پر بم برسا کر چیتھڑے کر دیے اور پھر وہ شہدا جن کا جنت انتظار کر رہی تھی حفاظ کرام کی آمد سے جھوم اٹھی جسکی انہیں خبر بھی نہیں تھی کے دستار بندی اللہ کے عرش پر ہونے والی ہے۔

 اگر یہی حملہ کسی اسکول کالج یونیورسٹی کے طلباء پر ہوتا اور حملہ آور مسلمان کے حلیے میں دہشت گردانہ حملہ کرتے تو اب تک عالم میڈیا میں بھونچال آگیا ہوتا اور چیخ چیخ کر کہتے کے مسلمانوں دہشت گردوں نے  اتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا ہے اور انکے حلیے کی وجہ سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کؤی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر افسوس یہ شہداء مدرسے کے طلباء تھے کاش کے بچے کسی امریکی حکمران کے ہوتے کاش کے یہ بچے اسرائیلی وزیر اعظم کے ہوتے کاش کے یہ بچے یہودی حکمران کے ہوتے تو ابتک ساری دنیا میں کینڈل مارچ ہوتے ،عوام سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتی، اور عالمی امن کے الم بردار فوری میٹنگ طلب کرتے اور اس حملہ آور کو دہشت گرد تسلیم کرتے پر عالمی امن کے الم بردار صرف اس وجہ سے خاموش ہے کہ مرنے والے مدرسے کے طلباء تھے اور حملہ آور دہشتگرد امریکہ ہے ،نا ابتک او آٔی سی نے کوئی میٹنگ طلب کی نا نام نہاد انصاف مہیا کرنے والا عالمی ادارہ اقوام متحدہ نے کوءی میٹنگ کی نا پریس کانفرنس کے ذریعے کوئی مزمتی بیان جاری کیا۔

کیا انسانیت صرف چرچ مندر اور نأیٹ کلب میں مرنے والوں کیلئے آواز اٹھانے کیلئے بچی ہے پشاور پبلک اسکول پر جب دہشتگردانہ حملہ ہوا تب پوری دنیا تڑپ اٹھی کینڈل مارچ نکالے گئے سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ کیے گے مگر یہ میڈیا امریکہ اور اسرائیل کی پیداوار ہے جو انکے ٹکڑوں پر پلتا ہے جنہیں ناچنے والے اداکاروں کے بچوں کے کھیلونا گم ہوجانے پر بچوں کے رونے کی آواز کو بڑے پیمانے پر دیکھایا جاتا ہے وہ نا مرد میڈیا آج خاموش تماشائی بنا ہوا ہے سو سے زائد حفاظ شہید کردیے گئے اور دو سوکے قریب اساتذہ قاری و سرپرست زخمی ہوگئے ہے پوری دنیا میں حقوق انسانی کی دٔھایاں دینے والے خاموش ہے پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہے شام میں کشمیر میں برما میں فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور اسلامی حکومتیں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آج یہ کھل کر اعلان کرنا چاہیے کے دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ ہے اور جہاں پر بھی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری ہیں وہ امریکہ اور اسرائیل کی پیداوار ہے۔

جس طرح فرعون نے اپنا اقتدار بچانے کیلے بچوں کو قتل کر نا شروع کر دیا تھا اسی طرح آج ظالم حکمران دنیا بھر میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہے انھیں اس بات کا ڈر ہے کے انکی نسل سے پھر کوئی صلاح الدین ایوبی رح ،خالد بن ولید رض پیدا نہ ہو جائے جو ظالم حکمرانوں اور انکی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیے اور وہ دین دور نہیں۔

ظلم جب حد سے گزرتا ہے فنا ہوتا ہے

فرعون کا سر جب اٹھتا ہے موسیٰ کوئی پیدا ہوتا ہے 

یہ ظالمانہ حکومتی نظام اب ہمیں یہ پیغام دیتا ہے یہ معصوم جانوں کا خون ہماری غیرت ایمانی کو جھنجھوڑ تا ہے کہ اب اسلام کی تبلیغ کے ساتھ قرآن کے دستور حیات جو انصاف پسند عالمی برادری کیلئے دونوں جہاں میں کامیابی کا ضامن ہے اسکے نفاذ کیلئے مثبوت و منظم طریقہ سے اقدامات کرنے کیلے متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ظالم طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر منہ توڈ جواب دیں سکے اور دنیا کے سامنے انکا حقیقی چہرہ پیش کیا جاءے کہ کون اصل دہشت گرد ہے کون امن و انصاف کے دشمن ہے۔

میں تمام انصاف پسند لوگوی کی طرف سے جلسے میں شہید ہونے والے شہداء کو اس کلام سے خراج تحسین پیش کرتا ہو اور اس دہشتگردانہ حملے کی مزمت کرتا ہو۔

سرخی جو افق پر چھانے لگی

مقتل سے صدا پھر آنے لگی

پھر ظلم کے شعلے بھڑک اٹھے

دھرتی کے ذرے سلگ اٹھے

ایسے میں جبر کے نیزے نے

ممتا کا کلیجہ کاٹ دیا

پھر حق کے ٹھیکیداروں نے

پھر حق کا دریا پاٹ دیا

یہ جہل ہوا کیوں اے لوگوں

وہ قتل ہوا کیوں اے لوگوں

سچائی سے چاہت جرم ہے کیا

حق گوئی کی دعوت جرم ہے کیا

گر جرم کہو گے تم اس کو

تو مجرم گننے مشکل ہیں

ہیں خنجر تو محدود بہت

ہاں سینے گننے مشکل ہیں

دو چار نہیں دس بارہ نہیں

یہاں شہداء گننے مشکل ہیں

جذبوں کے چراغوں سے روشن

ہمیں اپنے آپ کو رکھنا ہے

ہے رات کی تاریکی تو کیا

ہمیں صبح کی چاہت رکھنا ہے

جس صبح کی خاطر ہم لوگوں

جسموں کو گھلائے جائیں گے

اس صبح پہ مر مٹنے کے لیے

سو شہداء اور بھی آئیں گے

اس صبح پہ مر مٹنے کے لیے

سو شہداء اور بھی آئیں گے

تبصرے بند ہیں۔