مہاراشٹر میں مسلمان بے یارومددگار: حکومت کی مسائل سے بے رخی

جاوید جمال الدين

 مہاراشٹر میں تقریباسوادوسال قبل  ہونے والے اسمبلی الیکشن کےنتائج کے بعد سیاسی حالات  اچانک بدل گئے اور قومی سیاست پربھی ان حالات کا گہرااثر پڑا،دراصل شیوسینا نے اپنی تیس سال پرانی حلیف بی جے پی سے  شیوسینا کے وزیراعلی کامطالبہ کردیااور شیوسینالیڈرشپ کا کہنا تھاکہ بی جے پی لیڈر شپ نے اقتدار میں آنے پروعدہ کیا تھاکہ شیوسینا کی نشستیں کم بھی آنے پر اسے وزارت اعلی کاعہدہ سونپ دیاجائے گا،لیکن بی جے پی نے ایسا کرنے سے صاف انکار دیااور دونوں جاتیں دہائی پرانااتحاد ختم ہوگیا۔

حال میں ادھو ٹھاکرے نے اقتدار کے سوادوسال مکمل کرلیے ہیں،اس دوران سیاسی مبصرین کاعام خیال ہے ادھو ایک منجھے ہوئے  سیاستدان کی طرح ابھرے تھے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا حال  اس دوران کھسیانی بلی کھمبا نوچے جیسا ہوگیا۔ادھو کوحکومت کا کوئی تجربہ نہیں تھا،لیکن شردپوار اور دیگر پارٹیوں کے سنئیر لیڈروں سے مشورے نے انہیں ایک بہتر پوزیشن عطا کردی تھی۔

بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے شیوسینا نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے قائد شردپوار کی قربت حاصل کی اور ان کی سیاسی حکمت عملی اور مشترکہ پروگرام کے تحت مہاوکاس اگھاڑی کی تشکیل (ایم وی اے) عمل میں آئی اور اس طرح شیوسینا،این سی اور کانگریس کی قیادت میں حکومت بن گئی ،یہ پہلی بار ہوا ،کہ کانگریس نے حکومت سازی کے لیے شیوسینا سے ہاتھ ملایاتھا ۔البتہ اکثر لوکل باڈیز اور میونسپل کارپوریشن میں دونوں پارٹیاں ساتھ ساتھ آچکی تھیں۔

بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے سے سیکولر لوگوں نے مسرت کااظہار کیا،ظاہر بات ہے کہ اقلیتوں اور خصوصا مسلمانوں کا خوش ہونا لازمی تھا،انہوں نے دیویندر فڑنویس کے پانچ سالہ دور میں جوبھگتا تھا،اس لیے انہوں نے اس نیم سیکولر حکومت سے زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔حالانکہ انہیں اس بات کا علم رہا ہے،کہ شیوسیناکے بانی اور ادھوٹھاکرے نے 1970 کے عشرے سے مسلم دشمنی کا بیچ بو دیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی ان کا بہترین مشغلہ رہا تھا،ویسے وہ کہتے تھے کہ "ہم ملک دشمن مسلمانوں کے خلاف ہیں۔” اس طرح اپنا بچاؤ کرلیتے تھے۔بی جے پی سے ہاتھ ملانے کے بعد تواقلیتی فرقے کے خلاف زیادہ اشتعال انگیزی ہونے لگی تھی۔فڑنویس حکومت اقلیتی فرقے کے حقوق سلب کر دیئے گیے،ریاستی اقلیتی کمیشن ،مولاناآزاد مالیاتی کمیشن،ریاستی حج کمیٹی اور اردوساہتیہ اکیڈمی کی جانب دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیاگیا،2019 کے ریاستی اسمبلی  انتخابات سے چھ مہینے قبل سیاسی مفادات کے مدنظر ان کی تشکیل پارٹی کے مسلم چہروں کو عہدے دے کر کی گئی اور 2019 میں ایم وی اے نے انہیں دوبارہ اقتدار تک پہنچنے نہیں دیا،حالانکہ مرکزی لیڈرشپ نے اس کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا،ایک موقعہ پر اجیت پوار کوبہلاپھسلا کر چندگھنٹوں کے لیے فڑنویس نے اقتدار حاصل کرلیا،لیکن انہیں جلد ہی استعفی دیناپڑاتھاکیونکہ وہ ایم وی اے میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہے تھے۔

سابقہ بی جے پی محاذ سرکار میں اقلیتوں  کے مسائل حل کرنے کے معاملہ میں جس طرح کی چشم پوشی برتی جارہی تھی،بالکل موجودہ ادھو ٹھاکرے حکومت پر بھی یہی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ دوسال کے عرصے میں حکومت نے اردواکیڈمی،اقلیتی کمیشن،مولانا آزاد کارپوریشن اورریاستی حج کمیٹی کی تشکیل نو میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ بلکہ خالی عہدوں پر تقرری نہیں ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کے لیڈر اور ایم ایل اے رئیس شیخ نے ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایاہے کہ مہاراشٹر میں اقلیتوں  کے مسائل حل کرنے کے معاملہ میں بی جے پی اور موجودہ ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں  مہاوکاس اگاڑی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، ادھو سرکار نے اقلیتی فرقہ کے امور میں ان سوا دوسال میں کسی طرح کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اس عرصے میں ان کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کی تشکیل ہی نہیں کی گئی بلکہ  وزیراعلی ادھو ٹھاکرے نے  اس پورے عرصے میں اقلیتی امور پر ایک بار بھی غور و خوض کرنے کے لیے  کوئی میٹنگ طلب نہیں کی گئی اور نہ ہی مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کے بارے میں سوچانہیں گیا۔

اس لیے یہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ اقلیتی فرقے کی ترقی وفلاح وبہبود کے تعلق سے دونوں بی جے پی اور ادھوحکومت  کا رویہ یکساں ہے اور خصوصا مسلمانوں کے معاملات سے چشم پوشی برتی جارہی ہے اور ان کے معاملات اور مسائل کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیاگیا ہے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے،کوویڈ19کے آغاز میں مرکز کی بی جے پی حکومت نے تبلیغ جماعت پر وباء پھیلانے کا الزام عائد کیا،اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادھوحکومت کی انتظامیہ اور پولیس نے وہی سب کچھ کیاہے،جومرکزی حکومت کررہی تھی،بے قصوروں کی گرفتاری، جن میں غیر ملکی بھی شامل رہے ،جنھیں بعد میں عدالتوں نے پولیس کو پھٹکارنے کے بعد رہا کردیاہے۔

پرتھوی چوہان کی کانگریس حکومت نے مراٹھا کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی پانچ فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیاتھا،عدالت نے مراٹھاریزرویشن کو منسوخ کردیاتھا،لیکن مسلمانوں کو تعلیم میں 5،فیصدریزرویشن کے فیصلے کو برقرار رکھاتھا،فڑنویس حکومت نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی تھی،لیکن مراٹھاریزرویشن کے لیے ان کادرد جھلکتا تھا۔اسی طرح ادھو حکومت نے مراٹھاریزرویشن کے تعلق سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود عدالت سے دوبارہ رجوع کیااور ایوان میں قدآور لیڈروں نے طویل بحث میں حصہ لیا ،لیکن مسلمان ریزرویشن کے معاملہ میں صرف دس منٹ ہی بحث کی گئی ،اور صرف کابینہ میں ایک مسلم چہرے نواب ملک نے ہی بحث میں حصہ لیا۔ سیکولر لیڈر نے بھی کسی طرح کی دلچسپی نہیں دکھائی تھی،حالانکہ بمبئی ہائی کورٹ نے مسلمانوں کو تعلیم میں 5فیصد ریزرویشن کے فیصلہ کو برقرار رکھا ہے۔

 مہاراشٹر میں مہاوکاس اگاڑی کواقتدار میں دوسال ہوچکے ہیں،اس عرصے میں وزیراعلی نے اقلیتی امور پر ایک  باربھی میٹنگ نہیں طلب کی ہے۔تاکہ اقلیتی فرقے کی ترقی اور فلاح وبہبود کے تعلق سے منصوبہ بندی کی جاسکے۔ اس عمل کے سبب موجودہ سرکار کی نیت کاپتہ چلتا ہے۔ موجودہ حکومت نےسابقہ بی جے پی حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سوا دوسال گزرجانے کے باوجود اقلیتی کمیشن،مولاناآزاد مالیاتی کارپوریشن ،ریاستی حج کمیٹی اور اردوساہتیہ اکیڈمی کی تشکیل نہیں کی ہے۔حالانکہ ادھو حکومت نے وعدہ کیا تھاکہ اقلیتیوں کی فلاح وبہبود اور بہتری کے لیے پالیسی بنائی جائے گی،لیکن اس پرکوئی عمل نہیں کیا گیا ہے۔

گزشتہ دوبرس سے اس ضمن میں یاددہانی کرائی جارہی ہے،لیکن ادھو ٹھاکرے اور ان کے وزیروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے،صرف یہ کہہ دیاجاتا ہے کہ اتحادی سرکار میں کئی امور کاخیال رکھا جاتا ہے،حالانکہ سرکاری امور اوراقلیتی کمیٹیوں اور کارپوریشن کوچھوڑ کر دیگرکمیٹیوں اور کارپوریشنوں کی تشکیل حسب معمول ہوچکی ہے اور ان کاکام کاج بھی جاری ہے۔

مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت بننے کے بعد مسلمان ہی سب سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا تھے،لیکن  ان کے تعلق سے چشم پوشی برتی جارہی ہے اور یہ ایک افسوس ناک امر ہے،وزیراعلی ادھوٹھاکرے کو خصوصی طورپر اقلیتی فرقہ کا اعتماد حاصل کرنا ہوگااور ان کے مسائل اور امور پر توجہ دینا ہوگی ،جوانہیں ایک عرصہ سے درپیش ہیں۔کانگریس اور این سی پی لیڈرشپ کوبھی توجہ دینا چاہیئے ،وہ خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے ہیں۔ورنہ مہاراشٹر میں جلد ہی ہونے والے میونسپل کارپوریشن اور بلدیاتی انتخابات میں انہیں نتائج سے بھگتنا پڑسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔