مہدی عاکف شہید!

عالم نقوی

فرعون وقت السیسی  کے عقوبت خانے میں ایک اور مجاہد حق  نے آج آخری سانس لی لیکن آخری وقت تک ظالم حکومت کو تسلیم کر کے طوق منافقت اپنے گلے میں ڈال کرآزاد  ہونا قبول نہیں کیا۔ 21 جولائی 1928 کو اس دار فانی میں آنکھ کھولنے والے اخوان ا لمسلمون کے سابق مرشد عام  نے 23 ستمبر 2017 کوجیل ہی میں اپنی قیمتی  جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔

محمد مہدی عاکف نے 9 جنوری 2004 کو  جب اخوان ا لمسلمون کے ساتویں مرشد عام کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو اسوقت تک یہ عہدہ حیاتی ہوا کرتا تھا یعنی منتخب ہونے والا تا حیات اِس عہدہ جلیلہ پر قائم رہتا تھا لیکن اُن کی رائے شروع ہی سے یہ تھی کہ مرشد عام کے لیے بھی  محدود میقات ِکار کا تعین  ہونا چاہیے اس لیے پانچ سال بعد انہوں نے بصد اِصرار یہ منصب  اَز خود کسی اور کے لیے خالی کر دیا۔برادر محی ا لدین غازی کے لفظوں میں ’’وہ بچپن ہی سے بڑے آدمی تھے بارہ سال کی عمر میں جو جوش اور جذبہ پیدا ہوا تھا اسے نوے سال کی عمر تک بیدار اور توانا رکھا۔ اخوان ا لمسلمون کے چھے مرشد عام ان کی وفاداری اور مددگاری کی داد دیتے رہے، ساتویں مرشد عام وہ خود بنے تو تنظیم میں زبر دست اصلاحات کیں لیکن  مستعفی ہو کر خود ہی آٹھویں مرشد عام کے نہایت فعال اور مخلص  دست و بازو بن گئے۔ عام طور پر لوگ سسٹم میں اصلاحات کی باتیں کسی عہدہ جلیلہ پر منتخب ہونے سے پہلے کرتے ہیں یا معزول ہونے کے بعد لیکن یہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور خلوص تھا مزید اصلاحات کے لیے خود اپنے منصب اعلیٰ سے دست بردار ہو گئے۔

ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی نے اپنی کتاب ’اخوان ا لمسلمون : تزکیہ، ادب، شہادت (2011 ص 57) میں لکھا ہے ان کی پیدائش مصری ڈیلٹا کے دقہلیہ قصبے میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے منصورہ میں حاصل کی اور 1940 کی دہائی میں اپنے والدین  کے ساتھ قاہرہ منتقل ہو گئے 1950 میں انہوں نے فزیکل ہیلتھ ایجوکیشن کالج سے گریجوئیشن کیا۔ عربی کے علاوہ وہ انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے اور جرمن بھی جانتے تھے۔ محی الدین غازی کے لفظوں میں :کالج کی تعلیم نےاگر انہیں جسمانی تربیت کا  کوچ  بنایا تو امام حسن البنا، شیخ عبد الکریم خطیب اور ان کے عظیم ساتھیوں کی تربیت نے انہیں ایک زبردست روحانی مربی بھی بنادیا اس طرح وہ ایک ہمہ جہت اور کامل مربی ہو گئےاور’ اُستاذ‘اُن کے نام کا حصہ بن گیا ۔ انہوں نے اپنی سبھی  تربیتی مہارتوں کا بہترین استعمال کیااور اپنی ساری توانائی تحریکی نوجوانوں کو ہر طرح سے تربیت یافتہ، طاقت ور اور بڑے کاموں کا اَہل بنانے میں صرف کردی۔ زندگی کا بڑا حصہ دنیا بھر میں تحریکی نوجوانوں کی ہمہ جہت تربیت کرتے ہوئے گزارا اور ایک بڑا حصہ مصر کے ظالم  فرعون حکمرانوں  کی جیلوں میں خود اپنی تربیت کرتے ہوئے گزار دیا۔ مصر میں رہے تو ملک کے نوجوانوں کی تربیت کرتے رہے اور جلا وطن ہوئے تو بہت سے ملکوں میں اپنے تربیتی کیمپوں کے نقش قائم کر دیے۔

عبید اللہ فہد فلاحی نے لکھا ہے کہ ’’تنظیم کے اہم کاموں میں اُن کی فَعَّال شرکت، قومی اور بین ا لا قوامی مسائل میں اِخوان کے مؤقف کی بھر پور تائید اور دعوتی، رفاہی اور جہادی منصوبوں کی تنفیذ میں اُن کی بے خوف اور دلیرانہ  اِقدامِیَت نے اُنہیں اِخوان کے صف ِاَوَّل کے اَہم رہنماؤں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کی سرگرمیاں ہوں یا فلسطین میں صہیونیوں کے خلاف جہاد، محمد مہدی عاکف ہر جگہ جاں فروشی اور اطاعت و تسلیم کا پیکر ثابت ہوئے۔   مرشد عام منتخب ہونے کے بعد ہفت روزہ عربی اخبار  ’اَل مجتمع ‘کویت کے نامہ نگار نے جولائی 2004 میں  ان سے سوال کیا کہ آیا اخوان المسلمون کی مجاہدانہ شناخت پھر قائم ہوگی اور اُس کی جہادی پہچان کی بازیافت ہوگی؟کیونکہ برطانوی استعمار کے خلاف معرکہ سؤئز میں اور اسرائل کے خلاف فلسطین میں وہ خود  جہادی سرگرمیوں کی قیادت کر چکے ہیں ؟مرشد مہدی عاکف نے جواب دیا کہ ’’اس طرح کی تشویش ظاہر کرنے والے نادان ہیں۔ ہم ماضی میں  بھی ہمیشہ ہتھیار بند رہتے تھے۔ وزیر اعظم علی ماہر پاشا سے ملاقات کرتے وقت بھی میری جیب میں پستول رہتا تھا۔ جمال عبد ا لناصر کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی میں نے نہیں سنا کہ کسی اخوانی کارکن نے  ظالم و غاصب یہودیوں اور انگریزوں کے سوا کسی پر بھی کبھی گولی چلائی ہو۔ ہم بندوقوں کے ساتھ عوام کے درمیان  رہےلیکن کبھی اپنے اندرونی اور بدترین دشمنوں پر بھی ہم نے گولی نہیں چلائی۔ یہ الزامات وہ لوگ لگا رہے ہیں جو ذرا بھی اللہ کا خوف نہیں رکھتے ان بدبختوں کو جہاد کی عظیم ا لشان تاریخ میں تحریف کرنے کی خدمت سونپی گئی ہے (المجتمع 31 جولائی تا ۶ اگست 2004 ص 36)

فلسطین میں جاری مزاحمت اور اور جہاد کومرشد مہدی عاکف ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے واحد حل قرار دیتے رہے۔ ان کا واضح مؤقف یہی تھا کہ صرف اسی طریقہ کار سے مقامات مقدسہ کی باز یافت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزاحمتی تحریک (حماس وغیرہ ) کے رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ غیر مسلح ہونے کی کسی تجویز کو ہرگز قبول نہ کریں کیونکہ صہیونیوں نے فلسطینی عوام کے خلاف جس  درندگی کو جائز کر رکھا ہے اس کا مقابلہ مسلح مزاحمت کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ (اخوان ا لمسلمون، عبد اللہ فہد فلاحی 2001 ص 60)

 یہ انہی کی غیر معمولی اور انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ 2005   کے پارلیمانی انتخابات میں اخوان کے  ایک سو پچاس سیاسی کارکنوں نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا کیونکہ اخوان کا نام بھی استعمال کرنے پر پابندی عائد تھی، اورحیرت انگیز طور پر 88 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے عرب صہیون دوست بادشاہوں اور مغرب کے جمہوری شہنشاہوں دونوں کو خوف زدہ کر دیا جبکہ صدر حُسنی کی ’نامبارک ‘ حکومت نے ظلم، دھاندلی، تشدد اور بربریت کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا تھا۔ اسی  کامیابی سے  چند سال بعد ہی حسنی کی نامبارک حکومت کے خاتمے اور محمد مورسی کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی لیکن   سال بھر کے اندر ہی دنیا بھر کے یزیدوں، فرعونوں، نمرودوں اور قارونوں نے مل کر اِس کاروان ِاِسلام کو پھر  لوٹ لیا اور اس کے سبھی بہترین دماغ یا تو قتل کر دیے گئے یا  مصر کے نئے فرعونوں کے عقوبت خانوں میں ڈال دئے  گئے جنہیں ’ اہل ایمان کے دائمی دشمنوں ‘(المائدہ 84) ہی کی نہیں اُن منافقوں کی حمایت بھی حاصل تھی کہ قرآن آج بھی جن کے حلق میں  اٹکا ہوا ہے، سینوں میں نہیں اُتر سکا ہے !  بقول نعیم صدیقی مرحوم۔: پھر ایک  کارواں لُٹا۔ کنار نیل چھا گئی پھر ایک بار شام غم۔ پھر ایک حادثہ ہوا۔ پھر ایک کارواں لُٹا۔ خود اُس کے پاسبان تھے، وہ جن کے درمیاں لُٹا۔ بدستِ دُشمناں نہیں، بہ دستِ دوستاں لُٹا۔ ہر ایک دورِ وقت کا، خود اپنا اِک یزید ہے۔ ہر ایک دور کا حُسَین بے گنہ شہید ہے۔ ۔لیکن۔ ۔ابھی تو ایسے کارواں کئی ہزار آئیں گے۔ اُٹھیں گے چار سمت سے وہ باربار آئیں گے۔ بچو بچو کہ یک بہ یک دمِ حساب آئے گا۔ جو راج ظلم کیش ہے، وہ راج ڈول جائے گا۔ گرے گا تاج فَرق سے، یہ تخت ڈگمگائے گا۔ ۔انشااللہ۔ ۔ کیونکہ۔۔

اخوان ہمارے بھائی ہیں۔ اسلام کے جو شیدائی ہیں۔ اس دین کے دشمن قرنوں سے صہیونی اور عیسائی ہیں۔ اراکان سے نیل کے ساحل تک۔ سب مسلم بھائی بھائی ہیں۔ اے خون شہیداں تیری قسم۔ ہر ظلم کا بدلہ لیں گے ہم۔ باطل کو مٹاکر دم لیں گے پیچھے نہ ہٹے گا کوئی قدم۔ اخوان کی صف آرائی ہے۔ طاغوت پہ ہیبت چھائی ہے۔ ۔اس لیے کہ۔ ۔اب  چشم مسلماں پہ ہے واضح یہ حقیقت۔ دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت۔ ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ۔ ۔ فھل من مدکر ؟

تبصرے بند ہیں۔