میری سنو! جو گوش نصیحت نیوش ہے۔۔۔

میری سنو! جو گوش نصیحت نیوش ہے۔۔۔

کوئی زمانہ تھاکہ حق گوئی اور بے باکی جواں مردوں کا آئین اور قلندروں کا طریق سمجھی جاتی تھی ؛مگر میری رائے میں فی زماننا جرئت ِگفتار سےزیادہ ہمت ِبرداشت ،مردان خردمند اور جوانان ہوش مند کا طرہ امتیاز ہے۔
قوت برداشت ان اعلیٰ صفات میں سے ہے ؛جو افراد کیلئے انفرادی طور پر اور اقوام کیلئے اجتماعی طور پر فوزو فلاح،کامیابی وکامرانی ،عزت و عظمت اور ترقی وسر بلندی کا ذریعہ بنتی ہے۔
تحمل وہ دولت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی حالت میں انسان پر قوت غضب کو غالب نہیں آنے دیتی۔
دین و شریعت میں حق پر ہوتے ہوئے مصائب سہنا ، مظالم برداشت کرنا،تکالیف انگیز کرنا تو اخلاق کا اونچا معیار اور انسانیت کی بڑی معراج ہے۔والحق احق ان یتبع ؛مگرخودساختہ مزعومات اور من مانی نظریات پر اصرار کرنا ،زبردستی انہیں تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ،خلاف ورزی پر مشتعل وبرانگیختہ ہونا پرلے درجہ کی حماقت اور نچلے درجہ کی جہالت ہے۔
یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ قومیں اور افراد،جب اقبال مند ہوتے ہیں تو اپنا احتساب خود کرتے ہیں ،اپنے خیالات و نظریات کو مستند سمجھ کر،مطمئن نہیں ہوجاتے ؛بل کہ ہر وقت جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ کہیں اِن میں کوئی کھوٹ تو نہیں ؟ خلاف عقل و شرع کوئی بات تو نہیں ؟
لیکن افسوس صد افسوس کہ عصر حاضر میں جو جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ،جو خمار ذہن و دماغ پہ چھایا ہوا ہےاور جو سودا سروں میں سمایا ہوا ہے ،بے لاگ انداز میں ،بغیر کسی ہچکچاہٹ کے،بلاخوف لومۃلائم لکھاجائے تو وہ ہے— حکم رانی کا جنوں — اور—بڑائی جتلانے کا فسوں— وہ بھی قوت برداشت کے بغیر
آج ہر کوئی کنویں کے مینڈک کی طرح خود کو حاکم اعلی اور عقل کل سمجھتا ہے ، چار لوگ کیا معاون بن گئے خود کو متبوع و مخدوم گمان کرنےلگتاہے۔بعض بعض تو ایساحاکمانہ؛بل کہ آمرانہ مزاج رکھتے ہیں کہ تلاش کرنے پر بھی عاجزی،انکساری اورفروتنی؛بل کہ اِن کی ادنی چنگاری بھی ان میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ خود بھی اس طلسم سے باہر نہیں آنا چاہتے اور خودی کی خدائی میں اتنے مصروف و مگن اور انا کی خول میں اس طرح مقید و بندہوجاتے ہیں کہ انجام کار اوقات فراموش بن بیٹھتے ہیں۔
ایسے افراد کا جب احتساب کیا جاتاہے ،انہیں دیانتاََ کوئی اہم پہلو بتلایا جاتا ہے تو بیدار مغزی کا ثبوت دینے اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرنے کے بجائےکینےاور حسد کو پالنے،بغض و عناد کو راہ دینے اورزندگی بھر کی دشمنی مول لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
انسانی دل کی اہم ترین خواہش یہ ہوتی ہےکہ سننے سے زیادہ سنایاجائے ،ماننے سے زیادہ منوایاجائے ۔ چنانچہ زیادہ تر لوگ اس نیت سے نہیں سنتے کہ اگلے کی بات کو سمجھیں بلکہ وہ اس لئے سنتے ہیں کہ اُنہیں جواب دینا ہوتا ہے ۔ بیشتر لوگ یا تو بول رہے ہوتے ہیں اور یا پھر بولنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کاموں کو کرتے ہوئے دوسرے کی بات کو بھر پور توجہ سے سننا اور اُس کو صیح معنوں میں سمجھنا ممکن نہیں رہتا ۔
اور یہی صبر و ضبط حضور پر نورﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ؛بل کہ ان کی تعلیمات کا پہلا درس ہی قوت برداشت ہے کہ ہم اپنے آئینہ دل کو اس حد تک ستھرا رکھیں کہ زمانے کے دئیے ہوئے صدمات ، دکھ اور اذیتیں اسے گرد آلود نہ کرسکیں ؛کیونکہ دل کی صفائی اور روشنی ہی وہ صفائی اور روشنی ہے جس میں ہم روز قیامت اپنے رب کا دیدار کرسکیں گے۔
جہاں تک ہم نے اپنے اکابر کو پڑھا اور دیکھا تو یہی سمجھا کہ ان کو اپنی اصلاح کی بڑی فکر تھی، اگر کوئی ان کو ان کی غلطی بتاتا تو وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ غلطی بتانے والاکون ہے ؟اس کا انداز کیسا ہے؟ وہ ہمارا مخالف ہے یا موافق؟؛بلکہ اگر غلطی معلوم ہوجاتی تو تسلیم کرلیتے، البتہ دوسروں کو ان کی غلطی بتانے میں حکمت اور حدود کا خیال رکھتے۔
دار العلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث اور صدر مدرس حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی ؒجنھیں ان کے علوم کی وسعت اور گہرائی کی وجہ سے شاہ عبد العزیز ثانی کہا جاتا تھا ،ان کے تلمیذ ارشد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے بار بار بیان کیا ہے کہ جب کوئی انھیں ان کی کسی غلطی پر تنبیہ کر دیتا تھا تو نہایت شکر گزاری سے بار بار اس کا اعتراف کرتے تھے اور غالبا اسی کا اثر تھا کہ حضرت تھانوی ؒ نے (جو کہ نہایت کثیر التصانیف بزرگ ہیں )اپنے یہاں ایک مستقل سلسلہ ترجیح الراجح کا قائم کر رکھا تھا اور کہیں سے کوئی بھی کسی چیز پر گرفت کرتا تھا تو اسے بغور ملاحظہ فرماتے اور اس کی رائے کو درست پاتے تو بے تکلف اس کا اعتراف کرکے اپنے سابق قول سے رجوع فرمالیتے۔
حضرت سید سلیمان ندویؒ نے بھی رجوع واعتراف کے نام سے ایک مضمون تحریر فرمایا تھا جس میں اپنی متعددرایوں سے برملا رجو ع کیا۔
اہل حق کا ہمیشہ یہی شعار رہا ہے ، غلطی کے اعتراف سے آدمی کو بلندی ملتی ہے ۔
یادرکھنا چاہئے کہ ہمارا صبر و تحمل، ہماری قوت برداشت اور جبر ذات ہمارے لئے ہمیشہ خیر اور اجر کا سبب بنتی ہے، دانشوروں کا ماننا ہے کہ ہر معاشرے میں انتشار و خلفشار کی بنیادی وجہ قوت برداشت کی کمی ہے اگر انسان اسی بنیادی خامی بلکہ کمزوری کے خلاف نبر د آزما رہے تو یہ دنیا رہنے کیلئے ایک پر سکون جگہ بن سکے گی اور سکون سے بڑھ کر انسان کو اور کس دولت کی ضرورت ہوسکتی ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔