میرے خونِ جگر میں سنی انگلیاں

عبدالکریم شاد

میرے خونِ جگر میں سنی انگلیاں

کیسے دیکھوں وہ مہندی بھری انگلیاں

جان آ آ کے اٹکی حلق میں مرے

کتنی مشکل سے چھوٹیں تری انگلیاں

وقتِ رخصت چھڑا کر میں آیا جنھیں

یاد آتی ہیں وہ آج بھی انگلیاں

چار بیوی ہیں اور ایک معشوق بھی

یعنی ڈوبی ہیں گھی میں سبھی انگلیاں

گود میں اس کی میں سو گیا پر سکون

اور وہ سر پر پھراتی رہی انگلیاں

وہ کھلاتی ہے جب روٹیاں پیار سے

دیکھتا ہوں میں اس کی جلی انگلیاں

جن کو اب تک پکڑ کر تو چلتا رہا

بار ہونے لگیں اب وہی انگلیاں!

اب شرافت کی بھاشا ہوئی بے اثر

گھی نکالو نہ کر کے کھڑی انگلیاں

تو مرے سب مسائل میں انگلی نہ کر

توڑ دوں گا زمانے! تری انگلیاں

ایک انگلی اٹھاتا ہے میری طرف

تیری جانب ہیں باقی سبھی انگلیاں

حشر میں دیں گواہی نہ تیرے خلاف

اٹھ نہ جائیں تجھی پر تری انگلیاں

ان سے مٹھی بنا لو انھیں موڑ کر

ٹوٹ جائیں گی تنہا کھڑی انگلیاں

اختلافاتِ عالَم سے ہے اعتدال

ہاتھ میں جیسے چھوٹی بڑی انگلیاں

ویسے قانون کے ہاتھ لمبے تو ہیں

فائدہ کیا ہے جب ہوں بندھی انگلیاں

دیکھنے میں تو لگتی ہیں چھوٹی مگر

شاد جی! ہیں بڑے کام کی انگلیاں

تبصرے بند ہیں۔