عبدالکریم شاد
میرے خونِ جگر میں سنی انگلیاں
کیسے دیکھوں وہ مہندی بھری انگلیاں
…
جان آ آ کے اٹکی حلق میں مرے
کتنی مشکل سے چھوٹیں تری انگلیاں
…
وقتِ رخصت چھڑا کر میں آیا جنھیں
یاد آتی ہیں وہ آج بھی انگلیاں
…
چار بیوی ہیں اور ایک معشوق بھی
یعنی ڈوبی ہیں گھی میں سبھی انگلیاں
…
گود میں اس کی میں سو گیا پر سکون
اور وہ سر پر پھراتی رہی انگلیاں
…
وہ کھلاتی ہے جب روٹیاں پیار سے
دیکھتا ہوں میں اس کی جلی انگلیاں
…
جن کو اب تک پکڑ کر تو چلتا رہا
بار ہونے لگیں اب وہی انگلیاں!
…
اب شرافت کی بھاشا ہوئی بے اثر
گھی نکالو نہ کر کے کھڑی انگلیاں
…
تو مرے سب مسائل میں انگلی نہ کر
توڑ دوں گا زمانے! تری انگلیاں
…
ایک انگلی اٹھاتا ہے میری طرف
تیری جانب ہیں باقی سبھی انگلیاں
…
حشر میں دیں گواہی نہ تیرے خلاف
اٹھ نہ جائیں تجھی پر تری انگلیاں
…
ان سے مٹھی بنا لو انھیں موڑ کر
ٹوٹ جائیں گی تنہا کھڑی انگلیاں
…
اختلافاتِ عالَم سے ہے اعتدال
ہاتھ میں جیسے چھوٹی بڑی انگلیاں
…
ویسے قانون کے ہاتھ لمبے تو ہیں
فائدہ کیا ہے جب ہوں بندھی انگلیاں
…
دیکھنے میں تو لگتی ہیں چھوٹی مگر
شاد جی! ہیں بڑے کام کی انگلیاں
تبصرے بند ہیں۔