میرے وطن کی عدالت کاحال مت پوچھو!

ڈاکٹر سلیم خان

ہمارے ملک میں قانون شریعت کو کالعدم کرنے کے لیے بار بار ہندو احیاء پرستوں کو یکساں سول کوڈ کا درد ستاتا ہے لیکن مویشیوں کی خریدو فروخت پر مختلف عدالتوں کے بھانت بھانت کے فیصلوں نے یہ ثابت کردیا کہ یہ نعرہ لگانا تو آسان ہے لیکن نفاذ ناممکن ہی ہے۔ اس معاملے میں کیرالہ کی عدالت کا موقف ہے کہ اس قانون میں  کوئی خرابی نہیں ہے اس لیے کہ یہ مویشی کے ذبیحہ یا اس کا گوشت استعمال کرنے پر روک نہیں لگاتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر طلب زیادہ اور رسد کم ہو نیزاس کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر صوبوں سے مویشی  لائے نہ جائیں تو ذبیحہ ہوگا کیسے ؟ اور لوگ کھائیں گے کیا؟ حد تو یہ ہے اس احمقانہ  قانون کو نافذ کرنے سے قبل  نہ تومتعلقہ صوبائی حکومتوں سے نہ رائے مشورہ کیا جاتا اور نہ اعتماد میں لینے کی زحمت گوارہ کی جاتی ہے۔حیرت کی بات  ہے کہ اس طرح دفاقی  ڈھانچے کا دن دہاڑے دھجیاں اڑایا جانا عدالت کو نظر نہیں آتا ۔مغربی بنگال کی ممتا بنرجی  نے تو اس ضابطے پر روک لگادی ہے ۔ اروناچل پردیش کے بی جے پی وزیراعلیٰ  پیما کھنڈو نے تو یہ اعتراف کیاکہ وہ شمال مشرقی صوبوں کے قبائلی عوام کی طرح بیف کھاتے ہیں اور اس کوبرانہیں سمجھتے سنگھ پریوار نےپیما کھنڈو کو سزا  دینا تو درکنار استعفیٰ تک نہ لے سکاجو ان کی منافقت اور ابن الوقتی کا زندہ ثبوت ہے۔

کیرالہ  کے برعکس پڑوسی ریاست میں  مدراس ہائی کورٹ نے اس قانون پر 4 ہفتوں کے لیے روک لگادی۔ ہائی کورٹ نے اس عرصے میں  صوبائی اور مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ عدالت عالیہ میں داخل قضیہ میں کہا گیا ہے کہ کسے کیا کھانا ہے یہ طے کرنا ہر فرد کا حق ہے اور اس میں کوئی اورشخص دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ہائی کورٹ کے اس موقف کی تائید میں  آئی آئی ٹی مدراس کے تقریباً 75 طلباء نے ایک بیف فیسٹ کا اہتمام کیا۔ گئوماتا کے بھکتوں میں یہ جرأت تو نہیں ہوئی کہ انہیں روکتے لیکن دودن  بعد سورج نامی ایک طالبعلم کو تنہا پاکر 8 بزدل اس پر  ٹوٹ پڑے اور زخمی کردیا۔گئو کشی کے معاملے میں اپنی سبکدوشی کے چند گھنٹے پہلے راجستھان ہائی کورٹ کے جج مہیش چندر شرما نے گائے کو قومی جانور بنانے کا مطالبہ کرڈالا۔ اچھا ہوتا کہ وہ جاتے جاتے یہ بھی بتاتے کہ بنگال کے چیتے کا کیا کریں گے جو فی الحال  ہندوستان کا قومی جانور ہے۔ اسے برخواست کردیا جائے  یا چیتے کے بغل میں گائے کو بیٹھا دیاجائے یا باری باری سے وہ دونوں قومی جانور بنتے رہنے کا موقع دیا جائے؟

مہیش چندرشرماہنگونیا گئو شالہ کے قضیے کی سماعت فرما رہے تھے جہاں پچھلے سال سیکڑوں گایوں کے موت کی خبر ذرائع اطلاغ میں سامنے آئی تھی۔اس گئوشالہ میں 8000 سے زیادہ گائیں ہیں 14 ڈاکٹر ، 24 نائب اور 200 کا عملہ ہے۔ اس گئوشالہ پر پچھلے سال 78ء10 کروڈ روپئے کا بجٹ تھا اس کے باوجود گایوں کی خستہ حالی میں  موت  گئو بھکتوں کی بدعنوانی  کا  غماز ہے ۔ جج صاحب نےاس کا بلاواسطہ اعتراف کرتے ہوئے ہر تین ماہ بدعنوانی مخالف افسران کو دورہ کرکے رپورٹ داخل کرنے کا حکم دیا لیکن گئو کشی پر عمرقید کی سزا کا مطالبہ کرنے والے   قاضی نے زیربحث قضیہ میں گائے کی اموات پر متعلقہ افسران  میں سے کسی کو سزا نہیں سنائی۔  ویسے آج کل جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی زحمت نہیں دی جاتی  شتربے مہار بھیڑ کے ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں قانون ہوتا ہے۔ پہلو خان کے قتل کے بعد ابھی حال میں راجستھان کے اندر چار سکھ مذہبی رہنماوں کو بھیڑ نے بچوں کو اغواء کرنے کا الزام لگا کر پیٹ دیا۔ پولس موجود تھی اس نے کہا  سر بچا کراور مارو۔ چھتیس گڑھ میں 12 لوگوں کو قتل کیا گیا اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ایسے میں عدالت کی ضرورت ہی کیا ہے؟

ہندوستانی عدالت کی تاریخ کا سب سے دلچسپ مقدمہ فی الحال اترپردیش کے اندر چل رہا ہے، جس میں سابق نائب وزیراعظم، سابق وزیرانسانی وسائل اور حالیہ وزیر گنگا صفائی کے علاوہ بڑے بڑے  ہندوتوادوادی رہنما ماخوذ ہیں۔ یہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں  زندہ ہوگیا ہے جبکہ بی جےپی کو پارلیمان میں اکثریت حاصل ہے اور اترپردیش میں اس کو زبردست کامیابی سے نوازہ جاچکا ہے۔ بابری مسجدانہدام کے اس معاملےمیں مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی ) کی خصوصی عدالت میں  پہلی بار لال کرشن اڈوانی،مرلی منوہرجوشی اوراومابھارتی سمیت 12ملزمان کوبنفسِ نفیس  حاضر ہونا پڑا اور 50 ۔50 ہزارروپے کے ذاتی مچلکے پرضمانت لینے کے بعد ہی ان کی  گھرواپسی ممکن ہوسکی۔ ضمانت  حاصل کرنے کے بعد ان کے وکیل نے انہیں  بری کرنے کی درخواست دی جسے عدالت نےخلافِ روایت  مسترد کردیا ۔ اب ان لوگوں کےخلاف تعزیرات ہند کی دفعہ153، 153اے،295، 295اے،120 بی اور 505 کےتحت الزام طے کئےجائیں گے۔

ایک ایسے دور میں جبکہ این آئی اے عدالت سے کہتی ہے کہ  اس کو اسیمانند کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ وہ  شواہد کی عدم موجودگی کا بہانہ بناکر  سادھوی پرگیہ کو ضمانت دیئے جانے  کی مخالفت نہیں کرتی اور اقبالیہ ملزم جیل سے باہر آجاتے ہیں سی بی آئی کا اڈوانی وغیرہ پر مقدمہ چلانے پر اصرار شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ 25 سال قبل  بابری مسجد کی شہادت کے بعد  کارسیوکوں کے خلاف ایک مقدمہ درج ہوا اور اسٹیج پر بیٹھے رہنماوں کے خلاف ساز ش رچنے کا الزام لگایا گیا۔ 2001 میں جب لال کرشن اڈوانی وزیرداخلہ تھے سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی ، جوشی اور اوما وغیرہ تکنیکی بنیادوں پر بری کردیا۔ سی بی آئی نے اس فیصلے کے خلاف الہ باد ہائی  کورٹ پہنچ گئی مگر اس نے بھی فیصلہ برقرار رکھا ۔

کانگریس کے دورِ اقتدار  میں سنگھ پریوار کے ڈر سے  یہ معاملہ ٹھنڈے بستے کی نذر کردیا ۔ فی زمانہ  اڈوانی جی کا ایک چیلا وزیراعظم اور دوسرا وزیراداخلہ ہے  اس کے باوجودان کے تحت کام کرنے والی سی بی آئی نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دے دی  حالانکہ وہ خاموش رہ سکتی تھی۔ سپریم کورٹ بھی الہ باد ہائی کورٹ کی طرح سی بی آئی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرسکتی تھی، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔  سپریم کورٹ نے ان حضرات کے خلاف ایک مہینے کے اندر مقدمہ شروع کرکے دوسال کے اندر فیصلہ سنانے کا حکم صادر فرما دیا گیا اور یہ شرط بھی لگا دی کہ درمیان میں جج نہ تبدیل کیا جائے۔ اس سے یقیناً رام بھکت ناراض ہوئے ہوں گے جن کو بے وقوف بنانے  کے لیے دوسرے ہی دن یوگی ادیتیہ ناتھ ایودھیا پہنچ گئے۔

کانگریس کے دورمیں اگر ایسا ہوتاتو اسے اقلیتوں کی منہ بھرائی اوربدلے کی کارروائی قراردیا جاسکتا تھا لیکن اب کون انتقام لے رہاہے؟ اور کیوں لے رہا ہے اس سوال کا جواب ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔  کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن  فیصلہ آتا ہے امیت شاہ اور سرسنگھ چالک ساتھ میں  ناگپور کا سفر کرتے ہیں اور بھیاجی کے ساتھ بند کمرے میں گفتگو ہوتی ہے؟ یہ بات کون نہیں جانتا کہ آرایس ایس اڈوانی کے ساتھ ہونے والے برے سلوک سے ناخوش ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اڈوانی جیآخری میں عمر راشٹرپتی بھون کے اندر عیش کریں  لیکن جس طرح پہلے 75 کی قید لگا کر ان کا پتہّ کاٹا گیا اب پسماندہ یا قبائلی صدر کا شوشہ چھوڑ کر تھاور چند جین یا دروپدی مرمر ُکا نام اچھالا جارہا ہے۔ حوالہ معاملے میں جب  اڈوانی جی کا نام آیا تھا تو انہوں پارلیمانی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ انہیں چاہیے کہ پھر ایک بار استعفیٰ دے کر اس  خوف کے عالم سے نکلیں اور اپنا بلاگ لکھنا شروع کردیں جس کو ڈر کے مارے بند کررکھاہے لیکنعمرکے اس حصے  میں بھلا جیل جانے کا خطرہ  کون  مول لے سکتا ہے؟ ایسے میں سلیم کوثر کا یہ ترمیم شدہ شعر اڈوانی جی نذر ہے؎

اس نے جب تم سے انتقام لیا

تم نے کیا سوچ کر سیاست کی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔