اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

 ماہ ِ رمضان المبارک کی آمد ہوئی اور پہلا عشرہ بھی گزر چکا،رمضان المبارک کا ہر لمحہ رحمتوں اور برکتوں کا ہے ۔ہر آن ،ہر گھڑی اللہ تعالی کی طرف سے انوار وبرکات کی بارشیں ہوتی رہتی ہیں ۔جو بندہ رمضان المبارک کو صحیح گزارنے کی فکر میں رہتا ہے اور اس کے لیل ونہار ،صبح وشام کی قدر کرتے ہوئے اپنے اوقات کو استعمال کرتا ہے تو وہ ان شاء اللہ رحمتوں اور برکتوں سے ضرور حصہ پائے گا ۔

 رمضان المبارک کے تین عشروں کی تقسیم خود نبی کریم ﷺ سے منقول ہے ۔آپ ﷺ نے امت کو رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے اور رحمت ِ الہی سے فیض یاب ہونے کے لئے ایک آسانی ترتیب بتائی کہ جس کے ذریعہ بندہ رب سے بہت کچھ مانگ سکتا ہے اور اپنے دامن کو بھر سکتا ہے۔حضرت سلمان ؓ سے مروی طویل حدیث میں ہے :وھو شھر اولہ رحمۃ ،اوسطہ مغفرۃ ،واٰخرہ عتق من النار۔( صحیح ابن خزیمہ:1785) آپﷺ نے فرمایا کہ اس مبارک مہینہ کا پہلا حصہ رحمت ہے ، درمیانی حصہ مغفرت ہے،اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے ۔اب چوں کہ ہم رمضان کے دوسرے عشرے سے گزررہے ہیں جو کہ ’’عشرہ ٔ مغفرت‘‘ ہے ۔تو آئیے اس سلسلہ میں چند آیات واحادیث کوملاحظہ کرتے ہیں جن مغفرت کا وعدہ پروردگارِ عالم نے کیسے کیسے فرمایا ،اور کس طرح ہم رمضان کو مغفرت کا ذریعہ بناسکتے ہیں ۔

 رمضان میں مغفرت کا اعلان:

  رمضان المبارک ایمان والوں کو معافی دلانے کے لئے آتا ہے اور رمضان کی ہر رات میں بند گان ِ خدا کو معاف کیا جاتا ہے ،مغفرت کا اعلان ہوتا ہے اور بخشش کے مژدے سنائے جاتے ہیں ،اور خیر و برکت کو حاصل کرنے اور نافرمانی و سرکشی سے باز آنے کی صدا لگائی جاتی ہے ۔چناں چہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ :اذا کان اول لیلۃ من شھر رمضان صفدت الشیاطین ومردۃ الجن وغلقت ابواب النار فلم یفتح منھاباب وفتحت ابواب الجنۃ فلم یغلق منھا باب وینادی مناد یاباغی الخیر اقبل ،ویاباغی الشر اقصر،وللہ عتقاء من النار وذلک کل لیلۃ۔ ( ترمذی :حدیث نمبر :617) کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین و جنات جکڑدئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں ۔ان میں سے کوئی دروازہ بھی نہیں کھلا رہتا ۔اور جنت کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ،اس کا کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا ،اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب آگے بڑھ،اور اے اور شر کے طلب کر نے والے رک جا،اور اللہ کی طرف سے بہت سے ( گنہ گار) بندوں کو دوزخ سے رہا ئی دی جاتی ہے ( یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے )اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا رہتا ہے ۔اور بعض روایتوں میں یہ بھی ہے:وابصر ھل من مستغفر نغفرلہ،ھل من تائب نتوب علیہ ،ھل من نستجیب لہ ،ھل من سائل تعطی سؤلہ ۔( بیہقی:3327)کہ : اور دیکھ کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا ،جس کی ہم مغفرت کریں ،ہے کوئی توبہ کرنے والا ،جس کی توبہ ہم قبول کریں ،ہے کوئی دعا کرنے والا ،جس کی ہم دعاقبول کریں ،ہے کوئی مانگنے والا ،جس کو ہم مانگی ہوئی چیزعطاکریں ۔

رمضان کی آمد ہی مغفرت کے لئے ہے:

رمضا ن المبارک کی آمد ہی انسانوں کو نوازنے اور عطاکرنے اورمغفرت کا پروانہ دینے کے لئے ہے ۔اگر اس عظیم مہینہ میں بھی مسلمان محروم رہے تو واقعی اس بڑھ کرمحرومی اور کیا ہوسکتی ہے ؟۔اللہ تعالی کے خزانوں کے دہانے کھلے ہوں ،اور منادی اعلان کررہا ہو ،نوازنے اور عطاکرنے کے وعدے سچے پروردگار کی جانب سے ہو اور انسان اس میں بھی غفلت کا شکار رہے اور اپنی نجات اور مغفرت کا سامان نہ کرلے تو بلاشبہ بہت بڑا حرماں نصیب ہو گا ۔لیکن اس سے بڑھ کر خطرناک بات یہ ہے کہ ایسے محروموں کے لئے خود جبرئیل امین نے بد دعافرمائی اور نبی کریم ﷺ نے اس بددعا پر آمین کہی ۔چناں مشہور روایت ہے کہ :ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم رکھا اور امین کہا،دوسرے پر قدم رکھا تو آمین کہا،اسی طرح تیسرے پر قدم رکھا اور آمین کہا صحابہ کو بڑی تشویش ہوئی کہ آج خلاف ِ معمول نبی کریم ﷺنے منبر پر قدم رکھ آمین کہا ،خطبہ سے فراغت کے بعد صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جبرئیل میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے تین لوگوں کے حق میں بددعا کی اور میں نے اس پر آمین کہا جن میں ایک وہ شخص جو رمضان المبارک کے بابر کت مہینہ کو پائے اورپھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی ہو۔(مستدک للحاکمؒ:7321)حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے :رغم انف رجل ذکرت عندہ فلم یصل علی ورغم رجل دخل علیہ رمضان ثم انسلخ قبل ان یغفرلہ ورغم انف رجل ادرک عندہ ابواہ الکبر فلم یدخلاہ الجنۃ۔( ترمذی:3545)  آپ ﷺ نے فرمایا:ذلیل و خوار ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا گیا ہو اور پھر اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا ،ذلیل و خوار ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان کے مہینہ کی نعمت حاصل ہو ئی اوررمضان گزرگیا مگر اس نے اپنی مغفرت کا سامان نہیں کیا اور ذلیل وخوار ہو وہ شخص جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پڑھاپے میں پایا لیکن وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں ۔

طلب ِ مغفرت کا حکم اورآیت ِ قرآنی:

 یہ بات واضح ہے کہ رمضان المبارک کی آمد انسانوں کی مغفرت وبخشش کے لئے ہوئی ہے ،اور اللہ تعالی اس مہینہ کی برکت سے اپنے بندوں کو معاف کرنا چاہتے ہیں ،ان کے گناہوں کو صاف کرنا چاہتے ہیں اور ان کے رشتہ ٔ عبدیت کو مضبوط کرناچاہتے ہیں ۔اب ایسے میں بندوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مغفرت ِ خداوندی کے عظیم وعدہ کو اپنے حق میں پورا کرنے اور بخشے ہوئے بندوں میں شامل ہونے کے لئے مغفرت کی دعا اور التجا کرتے رہیں ،اس سلسلہ میں چند آیات ذکر کی جارہی ہیں جن میں مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا گیااور گناہ گاروں کو اس بات کے ذریعہ تسلی دی گئی کہ اگر تم اللہ سے معانی مانگ لوگے تو اللہ معاف فرمادے گا۔قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑیں اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔چناں چہ ارشا د ہے:وسارعواالی مغفرۃ من ربکم وجنۃ ۔( اٰل عمران:133)اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور جنت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ۔ایک جگہ ارشاد ہے:قل یاعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لاتقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحیم۔(الزمر:53)کہہ دو کہ :’’اے میرے و ہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے ،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے ۔یقینا وہ بہت بخشنے والا،بڑا مہربان ہے۔

ایک جگہ ارشاد ِ خداوندی ہے:والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکر اللہ فاستغفروالذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون۔(اٰل عمران:135)اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھتے ہیں یا ( کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کرگزرتے ہیں تو فورا ً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے؟اور یہ اپنے کئے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔قرآن کریم بھرا پڑا ہوا ہے مغفرت کے وعدوں سے اور گناہ گاروں کو مغفرت طلب کرنے کے حکم سے ۔ہم نے یہ اختصار کے ساتھ ان دو تین آیتوں کو ذکر کیا تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اللہ تعالی نے کس طرح مغفرت طلب کرنے کاحکم دیا اور انسانوں کو معافی مانگنے کی تلقین فرمائی۔

طلب ِ مغفرت کا حکم اور احادیث ِ نبویﷺ:

نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے مختلف ارشادات میں اس جانب متوجہ فرمایا کہ انسا ن اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتا رہے ،معافی مانگتا رہے ۔مختلف انداز میں آپ ﷺ نے اس بات کی تعلیم دی کہ کسی بھی وقت گناہ ہوجائے تو فوری اللہ کی طرف رجوع کیا جائے وہی گناہوں کو معاف کرنے والا اور بخشش عطاکرنے والا ہے۔اس سلسلہ میں بہت سی احادیث آپﷺ سے مروی ہیں جن میں سے ایک دو یہاں نقل کی جارہی ہیں ۔آ پ ﷺ سے مروی حدیث قدسی ہے:یا عبادی انکم تخطئون باللیل والنھار ،انااغفر الذنوب جمیعا ،فاستغفرونی اغفرلکم ۔( مسلم :4680)کہ اے میرے بندو!تم دن رات گناہ کرتے ہواور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہیں بخش دوں گا۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے:یاابن ادم انک ما دعوتنی ورجوتنی الا غفرت لک علی ماکان منک ولاابالی،یاابن ادم لو بلغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرتنی غفرت لک ولاابالی ،یاابن ادم انک اتیتنی بقراب الارض خطایاثم لقیتنی لاتشرک باللہ لاتیتک بقرابھا مغفرۃ۔( ترمذی:3491)کہ اے ابن آدم ! تو نے مجھے پکارا،مجھ سے امید رکھی ،لہذا میں نے جو کچھ بھی تجھ سے سرزد ہوا اسے معاف کردیا،مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔اے ابن آدم !تیرے گناہ آسمان کے افق تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے معافی کا طلب گار ہو تو میں تجھے معاف کردوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ،اے ابن آدم ! اگر تو زمین کے برابر خطائیں لے کر آئے گا اور اس حال میں مجھ سے ملاقات کرے گا کہ مجھ سے کسی کوشریک نہ ٹھہرایاہوگا تو میں تجھے زمین کی وسعت کے برابر بخشش عطا کروں گا۔

 مغفرتِ رب کی طرف دوڑنے کی ضرورت:

    گناہ انسان سے سرزد ہوتا ہے ،خطائیں اور غلطیوں کا ارتکاب بھی انسان ہی کرتا ہے ،لیکن اپنے گناہوں کو مٹانے اور خطاؤں کو دور کرنے کے لئے کریم پروردگار نے معافی مانگنے اور مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا،سال بھر بندہ رب سے وابستہ ہوسکتا ہے اوربالخصوص اس کے لئے ایک پورا مہینہ رمضان المبارک کا رکھا تاکہ بندہ اس میں رب سے خوب معافی مانگے اور اس میں دس دنوں کو خاص کیا کہ اس میں رب کی مغفرت خوب ہوتی رہتی ہے ،اور وہ انسانوں کے گناہوں کومعاف فرمادیتا ہے،لہذا ان دنوں کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔ایسے میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم رمضان المبارک کے اس عشرہ کی بھی قدردانی کریں اور جی بھر کے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے ۔اور دن رات اپنے دامن کو پھیلاکر مغفرت کی بھیک طلب کرتے رہیں ۔

      عام طور پر ہمارے معاشرہ میں جب پہلا عشرہ ختم ہوجاتا ہے تو پھر دوسرے عشرہ میں غفلت اور سستی شروع ہوجاتی ہے اور تیسرے عشرہ کو لوگوں نے خرید وفروخت اور بازار کی چکروں کا عشرہ بنادیا ہے۔یہ حرکت یقینا ناقدری والی ہے ،اس سے باز آنے کی سخت ضرورت ہے اور رمضان المبارک کے اس دوسرے عشرہ کو بھی اہتمام سے گزارتے ہوئے ،عبادتوں کے ساتھ بالخصوص مغفرت کے طلب کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے،استغفار کا ورد بھی جاری رہنا چاہیے۔ہمارے نبی سروردوعالم ﷺ نے ایسے بہت سے اعمال بھی بتلائیں ہیں کہ جن کو انجام دینے کی وجہ سے بندہ مغفرت ِ رب کا مستحق بنتا ہے ،بظاہر چھوٹے چھوٹے نظر آنے والے اعمال بڑے بڑے فیصلے کروانے کی طاقت رکھتے ہیں ،اس سے متعلق علماء کرام نے مختلف کتابیں بھی لکھیں ہیں جن میں ان اعمال کو جمع کیا گیا ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ کی مغفرت کردی جاتی ہے۔نیکی کا کوئی عمل بھی چھوٹا نہیں ہوتا اس لئے اس کو انجام دینے میں لاپرواہی نہیں کرنی چاہیے کیا پتہ اللہ کو کوئی ایک ادا ہی پسند آجائے اور وہی مغفرت ونجات کا ذریعہ بن جائے ۔

تاریخ میں ایسے بے شمار واقعا ت میں ہیں کہ بڑے بڑے گناہ گاروں کو اللہ تعالی نے معاف کیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ ہدایت دی کہ اگرکسی وجہ سے تم سے بھی کوئی غلطی ہوجائے تو مایو س مت ہو بلکہ میرے سامنے اپنی غلطی کا اقرارکرلو اور معافی مانگ لو میں معاف کردوں گا۔دنیا کے کاروبار میں ترقی کے لئے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی دھن میں انسان بھاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے ،رمضان کا یہ عشرہ اور پورا ماہ ِ رمضان ہمیں نیکیوں میں دوڑلگانے اور اعمال ِ صالحہ کو انجام دینے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے،دنیا کی دوڑدھوپ وقتی اور عارضی ہے ،یہاں دولت اور مال کے تگ ودو ایک دن ختم ہوجائے گی ،لیکن آخرت کے لئے فکر مند ہونا اور اس کے لئے کوشش و جستجو کرتے رہنا انسان کے لئے دین ودنیا میں سعادت کا ذریعہ بنے گا ،وہ دنیا میں کامیاب رہے گا اور آخرت میں بھی نجات پانے والوں میں سے ہوگا۔اس لئے اس بات کو بطور ِ خاص ملحوظ رکھنا چاہیے کہ رمضان کے تمام عشروں کی قدرکریں گے ،اور عشرۂ مغفرت کا بھرپور اہتما م کرتے ہوئے رمضان کے باقی ایام کو غنیمت جانتے ہوئے گزاریں گے اور استغفار وغیرہ کا اہتمام کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔