میں اسے طلاق دے دوں گا

محمد حسن

ماجد صاحب ایک عالم دین تھے اور عالم دین بھی ایسا کہ بستی میں ان کے علم کا کوئی ثانی تھا  اور نہ ہی  مقابلے کا  کوئی  طالب علم، لمبا قد، گورا اور صاف چہرا، اس پر اُگی لمبی کالی داڑھیاں ایسا لگتا کہ فرشتہ خود انسان کی شکل میں چل پھر رہا ہو، بستی سے باہر جہاں بھی رہتے لوگ ان سے رابطہ بنائے رکھتے اور فون پر حال واحوال دریافت کرنے کے ساتھ ضرورت پڑنے پر درپیش مسائل کے فتوے اور حل بھی پوچھتے رہتے وہیں جب گھر پر موجود ہوتےان کے پاس لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی، جب راستہ چلتے لوگ کھڑے ہوکر سلام کا نذرانہ پیش کرتے اور کچھ لوگ تو اپنا کام چھوڑ کر ان کے ساتھ  ہی ہو لیتے، ماجد صاحب نے عرجی جامعہ سے عالم فاضل کی ڈگری حاصل کرنے بعد مزید علمی رسوخ کے لئے مدینہ یونیورسیٹی سے کلیہ اور ماجستر کی سند بھی اپنے نام کرا لی تھی، ان کی باتوں میں کمال کی فصاحت وبلاغت تھی، جہاں اپنے ان کے گرویدہ رہتے وہیں اغیار بہت جلد ان کی شخصیت سے متاثر ہوجاتے، ان سے مل کر اور ان کی باتیں سن کر‘إن من البيان لسحرا’(باتوں میں جادو) کی عمدہ مثال دیکھی جاسکتی تھی، جب بستی میں تشریف لاتے جمعہ تو جمعہ ہر فرض نماز کے بعد وعظ ونصیحت کا اہتمام کرتے اور لوگ ان کی باتیں سن کر جذبات کی لو میں بہتے چلے جاتے، ایک عجیب سا سماں بندھ جاتا اورسب کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں، نیکی کے حصول کی باتیں اور برائی سے بچنے کا بیان، نماز، روزے کی پابندی، حلال وحرام کا فرق، ظلم سے اجنتناب اور مصیبتوں پر صبر کی ترغیب اس انداز میں دلاتے کہ ‘أستغفرالله ربي من كل ذنب’ (اللہ میرے گناہوں کو معاف کرے) کی بلند آوازیں آتی سنائی دینے لگتیں اور کتنے رخسار اشک سے بھینگ جاتے، معمولات کے مطابق پورا دن اپنی جھوپڑی میں جس کے سامنے محل بھی ہیچ تھا، لائبریری میں پڑی کتابوں اور شہر سے موصول اخبارات پر نظرپھیرتے رہتے اور شام کو عصر کی نماز کے بعد بستی سے تھوڑی دور جہاں بسوں اور سواریوں کی آمد ورفت کا عام سڑک تھی وہاں کی دکانوں تک سیر کرتے اور چائے کی چسکی سے لطف اندوز ہوتے، ان کے پاس ہیمشہ دس بیس لوگوں کا ہجوم رہتا، میانہ چال چلتے اور سب سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرتے۔ ضروت مندوں اور مسکینوں کا ایسا خیال رکھتے کہ اپنے آشیانے کی جگہ ان کا گھرہی پختہ کرا ڈالتے۔

ماجد صاحب بیرون ملک حکومت کے کسی شعبے میں ترجمان تھے، ان کا پریوار بھی ان کے ساتھ وہیں رہتا، ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے، بیٹی کی عمر پانچ سال اور وہ سب سے بڑی تھی، دفتر میں ان کا کام بہت کم رہتا، دوچار گھنٹے میں واپس رہائش گاہ چلے جاتے اور پھرحسب ضرورت باہر لوگوں سے ملاقات اور پروگراموں میں شرکت کرتے جس میں کافی وقت لگ جاتا کیوں کہ یہ اجتماع بزنس کے تعلق سے ہوتا اوروہ ان کی نوکری کا ایک حصہ تھا، ایک شام جب وہ گھر لوٹے کھانے پینے کے بعد گھر کے ہال میں رکھے صوفے پر بیٹھے اپنا موبائل فون استعمال کررہے تھے کہ ان کے کانٹکٹ لسٹ میں ایک نام ابھرا اور وہ حیران ہوگئے، ان کے ماتھے پر شکن پڑگئے، وہ تذبذب کی دنیا میں چلے گئے اور ان کی تڑپ بڑھنے لگی، اس کو فون کئے لیکن اس کا نمبر بند تھا، اپنی بیوی سے اس کے گھر کے کسی نمبر کے بارے میں سوال کیا لیکن ان کا جواب نفی میں آیا، بستی میں ایک دو جگہ فون لگا کر اس کے بارے میں پوچھ تاچھ کی لیکن سب کا جواب نا میں ہی آیا، ایک آدمی جس کا گھر اس کے قریب تھا اس کو فون کرنے پرمعلوم ہواکہ وہ گاؤں چھوڑ کرشہر چلا گیا ہے، اس کی وہاں پرانی جگہ تھی جس پر دوکان بنا کر کاروبار میں لگا ہوا ہے، ان کو بجائے اطمینان ہونے کے پریشانی اور بڑھ گئ، بے چین سے ہوگئے، سانسیں تڑپنے لگیں اور بے قراری کا موسم چھا گیا کیوں کہ جب وہ گاؤں سےآرہے تھے تو وہ ایئرپورٹ تک ان کو چھوڑنے آیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ ان کی سمجھائی ہوئی باتوں کو یاد رکھے گا اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے اس کا مستقبل تاریک ہواوراس کے بچوں کی زندگی پریشانیوں کے بوجھ تلےدب کر رہ جائے، ان کی نیند اچٹ گئ، رات کو سونے میں کوئی راحت ملی اور نہ ہی ذہن تروتازہ ہوا، ان کے واپس آئے دو مہینہ ہوگئے تھے، اس بیچ میں اس کا خیال تک بھی نہ رہا اور اچانک جب یاد آئی تو اس قدر بے چینی بڑھ گئی کہ بے تحاشہ فکر مند ہوگئے، صبح دفتر جانے کے لئے تیارتو ہوئے لیکن من چاہا کہ واپس گاؤں جاکر اس کا حال خبر دریافت کریں، ٹکٹ ایجنسی کو فون لگائے تو اس دن کے لئے کوئی فلائٹ موجود نہ تھی، ان کی بیوی کو ان کی بے چینی کا احساس ہوچکا تھا، انہوں نے جب یہ کیفیت دیکھی تو پوچھے بنا رہ نہ سکیں، وہ بہت کوشش کیں  معاملہ کو جاننے کی اور حقیقت حال معلوم کرنے کی لیکن ماجد صاحب اس لفظ کو ادا کرنے کی جرأت نہ رکھتے تھے جو اس معاملہ کی گتھی کو سلجھا سکتا تھا، انہوں نے اسے اطمینان بخش جواب دے کر، شانت کر دیا اور پھر دفتر کے لئے روانہ ہوگئے، دن بھر ان کا من اسی فکر میں ڈوبا رہا اور کوئی کام کر نہ پائے، اجتماع رد کردیا اور گھر جلدی آکر بستر پر آرام کے لئے لیٹ گئے، تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ایک اور آدمی کو فون لگایا جو اس معاملہ کی تازہ خبر دے سکتا تھا اور ان کی پریشانی ختم ہوسکتی تھی، اس کو فون لگا کر ابھی سلام کلام کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ موبائل اسکرین پر ایک نمبرابھرتا دکھائی دیا جوکہ اجنبی تھا، پہلی بارانہوں نے رد کردیا، دوسری بار میں بھی رد کردیا کیوں کہ اس سے گفتگو میں خلل پیدا ہورہی تھی لیکن جب تیسری بارپھر سےوہی نمبر اسکرین پر دکھائی دیا تو انہوں نے جاری فون منقطع کرکے اس کا جواب دیا اور کیا تھا ان کے پیروں کے نیچے سے زمین سرک گئی اور آسمان سے بجلی ٹوٹ کر ان کے سر پر گر پڑی کیوں کہ وہاں مسلسل کسی کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی جس کی آہ اور سسکیاں ان کے کانوں کو بوری طرح مجروح کررہی تھیں اور دل ودماغ پر اپنا اثر بنا رہی تھیں، وہ لڑکھڑاہٹ سے سنبھلتے ہوئے پوچھنا شروع کردئے، کیا ہوا ہے؟ کون ہیں آپ؟ کیا بات ہے؟ بولئے! اس طرح کیوں رورہی ہیں آپ؟ اور وہیں پر بچوں کے رونے کی بھی خوب تیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں، جو بنا کچھ کہے روئے جارہے تھے، معاملہ ان کی سمجھ سے بالکل باہر تھا، وہ حیران اور پریشان تھے، ایک تو رات کی بے خوابی، دن بھرکی بے چینی اور پھر ابھی کا یہ دل دہلادینے والا حادثہ، ان کے ہوش پوری طرح اڑ گئے تھے کیا ہورہا تھا، کیا ہونے والا تھا سب کچھ سمجھ سے باہر تھا پھر تھوڑی دیر بعد سسکیوں کے بیچ ایک دبی سی سست آواز آئی، وہ نہیں رہے۔۔۔۔۔اور ان کی خواہش تھی کہ آپ شرکت کریں۔۔۔۔۔۔ابھی ان کے سوالوں کا طوفان اٹھنے ہی والا تھا کہ رابطہ ختم ہوگیا، ان کا سرچکرا گیا اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، ان کی بیوی پاس ٹھہری سارا ماجرا دیکھ اور سمجھ رہی تھی، ان کی چُھٹی میں اس شخص کا جو معاملہ پیش آیا تھا  انہوں نے اچھی طرح دیکھا اور سنا تھا، ماجد صاحب نے اپنی بیوی کو مخاطب کرکے کہا دیکھئے! زندگی کا کیا بھروسہ کب ساتھ چھوڑ دے اور ان سانسوں کا کیا یقیں کب تھم جائیں، ایک لمحے کی زندگی ہنسی خوشی اور چین وسکون سے جی لیں، بدظن ہوں نہ نفرت کریں، آپسی ان بن کو پیار سےحل کریں، صبر وشکر سے کام لیں اور بھلائی کے راستے پر لگے رہیں، دو مہینہ پہلے جوشخص رشتہ توڑنے پربضد تھا، آپسی لڑائی سے باز آ چکا تھا، مسائل سے اکتا چکا تھا، پریشانیوں سے گھبرا اور معاملات سے تنگ آگیا تھا وہ میرا ایک دوست تھا جسےمیں بارہا سمجھاتا تھا چند دنوں کی زندگی ہے ساتھ نہ چھوڑو، اپنے بچوں کی فکر کرو، اپنے مستقبل کی سوچو، اپنی موجودہ زندگی کو ہی خوشنما بنانے کی کوشش کرو لیکن وہ ہر بات پر کہتا تھا میں اسکا ساتھ چھوڑ دوں گا، میں اس کے ساتھ اب اور نہیں رہ پاؤں گا، آج اُس کی دنیا بھی سن اور اِس کی دنیا بھی تباہ اور بچے مایوسی کی دلدل میں پھنس کر رہ گئے کیوں کہ وہ زندگی کے کرب سے بہت دور جا چکا تھا، ان کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور کہ رہے تھے ایک ساتھ رہنے پر اچھا برا دور آتا ہی ہے،رشتے نفسیاتی سوجھ بوجھ سے اچھی طرح نبھائے جاسکتے ہیں، تھوڑا ہلکا ہو کر تھوڑا برداشت کرکے اس طرح سے ہماری خوشی کا خون تو نہیں ہوگا اور باقی کے ایام بھی مزے میں کٹ جائیں گے، اب وہ رہا اور نہ اس کا ‘میں اسے طلاق دے دوں گا’۔

تبصرے بند ہیں۔