میں اپنی قوم سے شکایت نہیں کروں گا

عبدالعزیز

        کل میں ’’امن و انسانیت‘‘ کی مہم کی گول میز کانفرنس میں شریک تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک صاحب نے کلکتہ سے شائع ہونے والا پندرہ روزہ ’’استقلال‘‘ کا تازہ شمارہ مجھے پڑھنے کیلئے دیا۔ میں ورق گردانی کرنے لگا۔ صفحہ آخر پر ایک مشہور و معروف عالم دین کا قول پڑھا۔ پڑھ کر بیحد افسوس ہوا جس میں ایک عالم دین کی مسلم قوم سے شکایت درج تھی۔ شکایت ذرا پڑھئے:

        ’’آج کی دنیا میں اسلام کے نام پر دوسروں سے نفرت کرنے والے بہت ہیں مگر اسلام کے نام پر دوسروں سے محبت کرنے والا کوئی نہیں، اسلام کیلئے جھنڈا اٹھانے والے بے شمار ہیں لیکن اللہ کاکوئی  بندہ ایسا نہیں جو اسلام کیلئے اپنا جھنڈا نیچا کرلے، اسلام کیلئے دوسروں سے لڑنے والے ہر طرف دکھائی دیں گے مگر اسلام کیلئے دوسروں سے صلح کرنے والا کوئی نہیں، اسلام کیلئے بولنے والوں سے خدا کی زمین بھر گئی ہے لیکن وہ انسان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا جو اسلام کی خاطر چپ ہوگیا ہو، اسلام کی خاطر لوگوں کو پیروں تلے روندنے والے بہت ہیں مگر اللہ کا وہ بندہ کہیں دکھائی نہیں دیتا جو اسلام کی خاطر لوگوں کو سینے سے لگا لے!‘‘… مولانا وحید الدین خان (استقلال:16-31 اگست 2016ء)

        اس تحریر سے ہر کوئی یہی تاثر قائم کرے گا کہ اسلام کے نام پر نفرت کرنے والے، بلا وجہ جھنڈا اٹھانے والے، پیروں تلے انسانوں کو کچلنے والے بہت ہیں مگر اللہ کا کوئی بندہ کہیں دکھائی نہیں دیتا جو اسلام کی خاطر لوگوں کو سینے سے لگا لے اورصلح جوئی سے کام لے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی یہ تصویر کشی انتہائی غلط ہے۔ ہر محلہ، ہر بستی، ہر شہر اور ہر ملک میں بے شمار مسلمان ہیں جو اچھے کام میں منہمک ہیں۔ لوگوں کے درد و غم میں شریک ہیں۔ آج مسلمانوں کے خلاف جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کا پروپیگنڈہ ہے وہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ عراق پر امریکہ نے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں پندرہ لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے۔ اس میں بچے، بوڑھے، عورت مرد سب تھے۔ جس ملک پر کوئی ملک قبضہ کرلے، حملے کرے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، آخر وہ ہتھیار نہیں اٹھائے گا تو کیا کرے گا؟ فلسطین پر اسرائیلی حکومت کی یلغار، افغانستان پر امریکی حکومت کا حملہ اور قبضہ یہ سب کیا ہے؟ یہ دہشت گردی نہیں تو کیا ہے؟ روس میں کمیونزم کے خاتمہ کے بعد اب مغربی دنیا اسلام اور مسلمانوں کو بدقسمتی سے اپنا دشمن تصور کرلیا ہے اور اپنے پروپیگنڈہ کے ذریعہ پوری دنیا کو ہندستان کے سنگھ پریوار یا برہمن لابی کی طرح یہ باور کرا رہا ہے کہ مسلمان سب کے سب دہشت گرد ہوگئے ہیں۔

        مہاراشٹر پولس کے سابق آئی جی ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب اور اپنی تقریروں میں دلائل اور ثبوتوں سے پیش کیا ہے کہ آر ایس ایس ہندستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے۔ سترہ سے زیادہ بم دھماکوں میں اس کے افراد ملوث ہیں اور ہندستان کی سترہ سے زائد عدالتوں میں آر ایس ایس کے کارکنوں اور لیڈروں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ آج پورے ملک میں گئو رکھشک دلتوں اور مسلمانوں پر جو مظالم ڈھا رہے ہیں یہ جگ ظاہر ہے مگر ان سب حقائق کے باوجود مسلمان کی تصویر لڑاکو، جنگجو اور دہشت گرد کی حیثیت سے پیش کی جارہی ہے۔ یہ انتہائی لغو و غلط اور خلاف حق ہے۔ اس کی کاٹ کیلئے مسلمانوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔

        اس میں کوئی شک نہیں کہ سپر پاور یا سامراجیت نے مسلم نوجوانوں کی ایک تعداد کو گمراہ کردیا ہے اور انھیں آئی ایس یا دیگر ناموں کے ذریعہ ورغلاکر یا ڈر دکھاکر غلط راستے پر ڈال دیا ہے۔ اس کی ذمہ داری مسلم قوم پر نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک اور امریکہ پر ہے۔

        مولانا صاحب کے نزدیک اسلام کے نام پر محبت کرنے والا کوئی نہیں، یہ بات صریحاً غلط ہے۔ مولانا کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اسلام کیلئے اپنا جھنڈا نیچا کرنے والا کوئی نہیں۔ اسلام کا دوسرا نام حق ہے۔ اگر کوئی حق کی خاطر جھنڈا اٹھاتا ہے تو کیا مولانا کو پسند ہے کہ وہ حق کا پرچم بلند کرنے کے بجائے نیچے گرالے؟

        مولانا موصوف فرماتے ہیں کہ اسلام کیلئے دوسروں سے لڑنے والے ہر طرف دکھائی دیتے ہیں مگر اسلام کیلئے صلح کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ بات بھی درست نہیں۔ آج پوری دنیا کی بات چھوڑ دیجئے۔ اسی ہندستان میں بابری مسجد کی پانچ سو سالہ عمارت جس سنگھ پریوار نے گرائی اس کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کا فیصلہ نہیں مانیں گے مگر پورے ہندستان کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی مسلمان اس کو ماننے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ مولانائے محترم مسلمانوں کا یہ صلح کی طرف قدم ہے یا لڑائی کی طرف‘‘۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں ’’اسلام کیلئے بولنے والوں کی زمین بھر گئی ہے اور وہ انسان ڈھونڈنے سے نہیں ملتا جو چپ ہوگیا ہو‘‘۔

        مولانا صاحب! اسلام کی خاطر بولنے والے سے کہیں زیادہ اسلام کے خلاف بولنے والے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو گھر سے بے گھر کر دیا جائے۔ انھیں مارا پیٹا جائے اور وہ منہ تک نہ کھولیں۔ چپ رہیں۔ خاموش رہیں۔ آہ بھی نہ کریں ؟مظلوم کو تو آہ کرنے کا، آواز اٹھانے کا حق دیا گیا ہے۔ اس سے بھی انھیں محروم کرنا کیا عدل و انصاف ہوگا؟

        آپ فرما رہے ہیں کہ لوگ اسلام کی خاطر لوگوں کو پیروں تلے روند رہے ہیں۔ اگر معصوم اور بے گناہ لوگوں کو کوئی پیروں تلے روندتا ہے تو وہ اسلام کی خاطر نہیں اپنی خاطر۔ اپنی دنیا کی خاطر، دھن اور دولت کی خاطر روندتا ہے۔ اسلام کی خاطر لوگ روندتے نہیں بلکہ اسلام کی خاطر لوگ دوسروں کو سینے سے لگاتے ہیں اور وہ راہ راست پر آجاتے ہیں۔ مولانا دہلی کے نسیم غازی سے واقف ہیں۔ وہ غازی آباد کے غیر مسلم خاندان کے ایک چشم و چراغ تھے۔ ایک مسلمان نے انھیں سینے سے لگایا اور اپنی جوانی کے عالم میں وہ مسلمان ہوگئے۔ آج وہ ساٹھ ستر کتابوں کے مصنف ہیں۔ عالم دین ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا پورا خاندان ان کی کوششوں سے مسلمان ہوگیا۔ مولانا نسیم غازی نے بہتوں کو سینے سے لگایا اور انھیں سہارا دیا اور وہ راہ راست پر آگئے۔ مولانا سے میری گزارش ہے کہ نسیم غازی کو اپنے یہاں وہ بلالیں۔ وہ بیسیوں واقعات بتائیں گے کہ اسلام کی خاطر انھوں نے جن جن کو قریب کیا یا سینے سے لگایا وہ راہ مستقیم پر آگئے۔

        دہلی کے سیل ٹیکس آفس کا ایک چپراسی جو مسلمان تھا۔ کس طرح اپنے غیر مسلم ڈپٹی کمشنر سیل ٹیکس کے ایک احسان کی وجہ سے محبت کرتا ہے اور کس طرح اس کی زندگی بدل دیتا ہے۔ نسیم غازی صاحب کی زبانی سنئے:

        ’’صبح دس بجے کا وقت تھا، ایک صاحب ہمارے آفس میں تشریف لائے اور آتے ہی انھوں نے بڑے اضطراب کے ساتھ مولانا محمد فاروق خان صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ہم نے انھیں بٹھایا اور ان سے اپنا تعارف پیش کرنے کی گزارش کی۔ انھوں نے بتایا کہ ’’ میں فلاں جگہ کا رہنے والا ہوں، جلد ہی ڈپٹی کمشنر سیل ٹیکس کے عہدے سے ریٹائر ہوا ہوں، جس وقت میں اپنی سروس میں تھا میرا چپراسی ایک مسلمان شخص تھا۔ میں نے اس کے کاموں سے خوش ہوکر اسے ترقی دے دی۔ وہ مسلمان ملازم بہت خوش ہوا اور اس نے خیال کیا کہ میں نے اس کا پرموشن کرکے اس پر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس نے ارادہ کیاکہ اسے میرا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور ساتھ ہی کوئی قیمتی تحفہ بھی پیش کردینا چاہئے۔ تحفہ میں دینے کیلئے اس مسلم ملازم نے بہت سی چیزوں پر غور کیا مگر کسی چیز کو بھی میرے شایان شان نہ سمجھا۔ وہ کوئی ایسا تحفہ دینا چاہتا تھا جو دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ ہو۔ وہ برابر سوچتا رہا اور آخر کار مجھے دینے کیلئے اس نے ایک قیمتی اور بے مثال تحفہ تلاش کرہی لیا۔

        ایک دن وہ مسلم ملازم صاف ستھرے کاغذ میں پیک کرکے وہ تحفہ لے کر میرے گھر حاضر ہوا اور بولا ’’کمشنر صاحب! آپ نے پرموشن دے کر مجھ غریب پر بڑا احسان کیا ہے میں آپ کے احسان کا بدلہ تو کیا شکریہ بھی ادا نہیں کرسکتا۔ میں آپ کی خدمت میں ایک تحفہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ صاحب یقین جانئے ؛ میرے نزدیک آپ کو پیش کرنے کیلئے اس سے زیادہ قیمتی تحفہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے وہ پیکٹ میری طرف بڑھا دیا۔ وہ اتنا خوش تھا کہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ میں نے وہ پیکٹ لے کر ایک طرف رکھ دیا اور اس کی ہلکی پھلکی تواضع کے بعد اسے رخصت کیا۔

        اس ملازم کے چلے جانے کے بعد میں نے اس پیکٹ کو کھولا تو وہ ہندی کا قرآن مجید تھا۔ میں یہ دیکھ کر مسکرایا اور بغیر کچھ اہمیت دیئے اسے الماری میں رکھ دیا۔

        رات کو حسب معمول جب میں اپنے بستر پر سونے کیلئے لیٹا تو میرے دماغ میں اس مسلم ملازم کے یہ الفاظ برابر گونجنے لگے ’’صاحب! یقین جانئے؛میرے نزدیک آپ کو پیش کرنے کیلئے اس سے زیادہ قیمتی تحفہ کوئی اور نہیں ہوسکتا‘‘۔ میری نیند اڑ گئی اور رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ مجبوراً رات میں چار بجے بستر سے اٹھا، لائٹ جلائی اور قرآن مجید کے اس ہندی ترجمہ کو پڑھنے کیلئے بیٹھ گیا۔ جیسے ہی اسے کھولا تو پہلے ہی صفحہ پر لکھا تھا: ’’اس عظیم کتاب کو پاک صاف ہوکر پڑھیں ‘‘۔ یہ دیکھ کر یکلخت چونکا اور پھر فوراً ہی قرآن مجید کو الماری میں رکھ کر غسل کرنے چلا گیا۔ نہا دھوکر واپس آیا۔ قرآن مجید کو اٹھایا اور خاموشی سے پڑھنا شروع کردیا۔ جیسے جیسے اسے پڑھتا جاتا اس کا اثر میرے دل و دماغ پر پڑتا جاتا۔ میں نے بہت سے صفحات ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے۔ اس کے سلیس، معیاری اور موثر زبان اور اعلیٰ تعلیمات نے مجھے اتنا متاثر کر دیا کہ میں پکار اٹھا… یہ کلام انسانی کلام نہیں ہوسکتا یہ تو خدائی کلام ہی ہوسکتا ہے‘‘۔

        میں نے مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کوئی بھی کتاب قرآن مجید کے مقابل کی نہیں۔ میرے دل نے یہ گواہی دی اور میں سوچنے لگا کہ میں نے اپنے مسلم ملازم کو پرموشن دے کر اس پر احسان نہیں کیا بلکہ حقیقت میں کلام الٰہی کا یہ بے مثال تحفہ مجھے دے کر اس ملازم نے مجھ پر احسان عظیم کیا ہے۔

        اب تو میرا روز کا یہ معمول ہوگیا کہ چار بجے اٹھتا، غسل کرتا اور پھر اس عظیم کتاب کو لے کر اس کا مطالعہ شروع کر دیتا۔ دوران مطالعہ بارہا ایسا ہوتا کہ میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پاتا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ مجھے اپنی سابقہ زندگی پر افسوس اور ندامت ہوتی اور میں اپنے اندر یہ عزم پیدا کرنے کی کوشش کرتا کہ آئندہ کی زندگی رب العالمین کے اس ہدایت نامے کے مطابق ہی بسر کرنی ہے۔ میں نے قرآن سے متاثر ہوکر بفضلہ تعالیٰ رشوت لینی چھوڑ دی، شراب نوشی چھوڑ دی اور دیگر برائیوں سے توبہ کی نیز بھلائیوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ ساتھ ہی اپنے غیر مسلم احباب اور دوستوں کو قرآن مجید کی اس عظمت سے واقف کرانا شروع کردیا۔

        کمشنر صاحب یہ بیان کرنے کے بعد چند لمحے خاموش رہے اور پھر بولے کہ میں اس وقت لئے حاضر ہوا ہوں کہ مترجم قرآن مولانا محمد فاروق خان صاحب سے ملاقات کرکے پوری ہندی دنیا کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کروں۔ کیونکہ انھوں نے کلام الٰہی قرآن مجید کا ہندی ترجمہ کرکے عربی نہ جاننے والے کروڑوں انسانوں کو رب کے پیغام اور ہدایات سے روشناس کرایا ہے اور اس طرح ان پر احسان عظیم کیا ہے۔ میں اپنے جذبات کی تکمیل کیلئے اپنے محسن مولانا موصوف کے احترام میں آج روزہ رکھ کر حاضر ہوا ہوں اور ریلوے اسٹیشن سے پیدل ہی آیا ہوں۔ شاید اس طرح میں عقیدت و محبت اور شکریہ کا حقیر نذرانہ ان کی خدمت میں پیش کرسکوں ‘‘۔

         محترم خان صاحب نے مولانا محمد فاروق خان صاحب سے بھی ناواقف نہیں ہیں۔ مولانا کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ رشتہ ختم ہونے کے باوجود مولانا فاروق خان موصوف سے تعلق بنائے رکھنے کے حق میں ہیں۔ مولانا! کیا یہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو گلے سے لگائے رکھنے کا ثبوت نہیں ہے؟

        اس وقت مجھے نپولین کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جسے میں ہر اس مسلمان کو بتانا چاہتا ہوں جو مسلمانوں کو ان کی جہالت اور غربت پر کوستا رہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فرانس کا ایک شخص نپولین کے پاس آیا اور کہاکہ فرانسیسی قوم میں جہالت حد سے زیادہ ہے۔ اسے تعلیم کی ضرورت ہے۔ نپولین نے اس شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’آج سے تم پڑھنا لکھنا شروع کردو۔ میری قوم میں ایک جاہل کم ہوجائے گا‘‘۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں یہ کمی ہے وہ کمی ہے تو اس کمی کو ہمیں سب سے پہلے دور کرنا چاہئے، کیونکہ ہم دوسروں کو نصیحت کر رہے ہیں۔

        یقینا مسلمان بیمار بھی ہیں، صحت مند بھی ہیں۔ کمزور بھی ہیں، طاقتور بھی ہیں۔ امیر بھی ہیں، غریب بھی ہیں۔ اچھے بھی ہیں، برے بھی ہیں، لیکن بیمار آنکھوں میں سارے مسلمان بیمار دکھائی دیتے ہیں۔ کمزور آنکھوں سے سارے مسلمان کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ بری اور بدتر آنکھوں سے سارے مسلمان برے اور بدتر دکھائی دیتے ہیں۔ ’’لیکن میں اپنی قوم سے شکایت نہ کروں گا۔ وہی مقلّب القلوب ہے کہ مسلمانوں کے دل کو پھیر دے گا۔ جب ان کے دل پھریں گے تو انشاء اللہ دن بھی پھریں گے‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔