میں مر مٹا ہوں آہ ترے سرخ ہونٹ پر

افتخار راغبؔ

میں مر مٹا ہوں آہ ترے سرخ ہونٹ پر

اک بوسہٴ نگاہ ترے سرخ ہونٹ پر

آیاتِ حسن حرفِ مقدّس کی ہے چمک

اے دشمنِ گناہ ترے سرخ ہونٹ پر

تیری نصیحتوں پہ ہوا دل فریفتہ

کیسی ہے درس گاہ ترے سرخ ہونٹ پر

چہرے پہ لگ رہا ہے کہ دو آفتاب ہیں

ٹکتی نہیں نگاہ ترے سرخ ہونٹ پر

کس کی محبتوں سے منوّر ہے تیرا دل

جھلمل ہے کس کی چاہ ترے سرخ ہونٹ پر

کس کس کا تیری سرخیِ لب نے کیا ہے خون

ہے عکسِ قتل گاہ ترے سرخ ہونٹ پر

ایسا لگا کہ میں تو دل و جان سے گیا

آیا دلِ تباہ ترے سرخ ہونٹ پر

ایسا نہ ہو کہ تیرے تغافل سے آکے تنگ

لکھ دوں میں لب سے آہ ترے سرخ ہونٹ پر

ہو جائے معتبر ترے راغبؔ  کی اِک غزل

آجائے واہ واہ ترے سرخ ہونٹ پر

تبصرے بند ہیں۔