میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں

احمد علی برقی اعظمی

جینے کا ابھی حوصلہ ہارا تو نہیں ہوں

میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں

قدرت نے عطا کی ہے مجھے چشم بصیرت

میں تیری طرح عقل کا اندھا تو نہیں ہوں

کرسکتا ہوں میں تجزیہ گردش حالات

از فضل خدا گونگا و بہرہ تو نہیں ہوں

حالات کے مارے ہیں مری طرح کئی اور

اس بحر حوادث میں میں تنہا تو نہیں ہوں

میں خوب سمجھتا ہوں کنکھیوں کے اشارے

بالغ ہوں جہاں دیدہ ہوں بچہ تو نہیں ہوں

آنکھوں میں میں رہ رہ کے کھٹکتا ہوں تری کیوں

گل ہوں اسی گلشن کا میں کانٹا تو نہیں ہوں

اظہار ندامت ہے مجھے اپنی خطا پر

انسان ہوں میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں

جی چاہے گا جو میرا کروں گا وہی برقی

اک تیرے میں شطرنج کا مہرا تو نہیں ہوں

1 تبصرہ
  1. مولوی اقبال کہتے ہیں

    قابلِ تحسین کاوش!

تبصرے بند ہیں۔