می ٹو: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

ممتاز میر

  الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمار اایمان ہے کہ اسلام اس دنیا کے لئے مکمل(perfect )نظام حیات ہے جو اس پر جتنا عمل کرے گا اتنا فائدہ پائے گا اور جس قدر اس سے رو گردانی کرے گااتنانقصان اٹھائے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ غیر مسلمین کو اس سے کیا لینا دینا۔ ہم کہیں گے کہ پھر بیچ بیچ میں اسلامی سزاؤں سے جو کہ اسلامی نظام حیات کا سب سے خوفناک پہلو ہے پیار کے نعرے کیوں بلند ہوتے ہیں۔ کیا یہ اس بات کا اشارہ نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے خامی کہیں ہمارے اندر ہے۔ ۔ ۔ ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ مختصر ہے اور اصلی زندگی تو اس کے بعد شروع ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم عشق الٰہی میں نیک کام کرتے مگر ہم اللہ کے نا لائق بندے ہیں، خوف الٰہی کے تحت اچھے کام کرتے ہیں اور برے کاموں سے رکتے ہیں۔ اب اس تناظر میں می ٹو مہم کو دیکھئے۔

   غزالہ وہاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک مسلمان گھرانے کی لڑکی ہیں۔ شرم و حیا، عزت و عصمت سب سے زیادہ اسلام میں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عورتوں کو پردے کا حکم اور مردوں کو غض بصر کا حکم نہ ہوتا۔ مرد و زن کی مخلوط محفلوں کی ممانعت نہ ہوتی۔ خدائے بزرگ و برتر نے مرد اور عورت کا الگ الگ دائرہء کار مقرر نہ کیا ہوتا۔ کیا کیا لکھیں وہ صحافی ہیں یہ ممکن ہی نہیں کہ انھیں اس نظام حیات کا علم نہ ہوجس میں وہ پیدا ہوئیں۔ اپنی آپ بیتی میں وہ خود کہہ رہی ہیں کہ ان کے والدین کی مرضی کے خلاف انھوں نے میدان صحافت چنا تھا۔ اپنے والدین کی مرضی کے خلاف وہ نوکری کے لئے گھر سے باہر نکلی تھیں۔ ان کی آپ بیتی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ان کے نزدیک اہمیت کیرئر کی تھی عصمت و عفت کی نہیں۔ ورنہ وہ پہلے انکاؤنٹر میں ہی سمجھ لیتیں کہ ان کے والدان کے گھر سے قدم باہر نکالنے کے خلاف تھے تو صحیح تھے یا غلط؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب برسوں بعد یہ گڑے مردے اکھاڑنے کا فائدہ کیا؟اس کا درست جواب تو محترمہ ہی دے سکتی ہیں ہم تو بس قیاسات کے گھوڑے ہی دوڑا سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس پوری مہم کا تعلق عصمت عفت سے ہے ہی نہیں۔ (ایک آدھ کیس ایسا ہوبھی سکتا ہے)یہ سارا چکر کسی نہ کسی قسم کے مفادات کا ہے۔ کیرئر بنانے کا یا نہ بننے کا بدلہ لینے کا۔ کیونکہ عصمت گنوا کر بھی کام بن ہی جائے گا اس کی کیا گارنٹی؟ممکن ہے سستی شہرت کا حصول بھی ایک فیکٹر ہو؟وہ جن کے لئے اپنی عزت اپنی عصمت اہم ہوتی ہے وہ ایک نگاہ غلط انداز سے بھی پانی پانی ہو جاتی ہیں گھر کو ہی اپنا دربار سمجھ لیتی ہیں۔ مگر نا سمجھ کہہ سکتی ہیں کہ ہم بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنا چاہتی ہیں۔ ہم بھی مردوں کی طرح دنیا فتح کرنا چاہتی ہیں۔ ہم مساوات مردوزن کی قائل ہیں۔ ہم کہیں گے پھر مساوات انسان و حیوان کا بھی قائل ہونا چاہئے۔ حیوان بھی تو اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ مگر مساوات کے قائل درندوں کو اپنی حدود پھلانگ کر آبادیوں میں گھس آنے پر یا تو گولی ماردیتے ہیں یا پنجروں میں قید کرکے تماشہ بنادیتے ہیں۔ انھیں بھی عورتوں کی طرح من مانی کرنے کی اجازت کیوں نہیں ؟حالانکہ کے عورتوں کے ساتھ بھی سلوک تو جانوروں والا ہی ہو رہا ہے بس فرق اتنا ہے کہ وہ خود ہی خوشی خوشی تماشہ بن رہی ہیں۔ یہ مرد کی ہنر مندی ہے کہ خواتین کو اس کا شعور تک نہیں۔

   می ٹو کا قافلہ پچھلے سال ہالی وڈ سے روانہ ہوا تھا۔ ایک سال بعد اپنے یہاں پہونچا۔ سب سے پہلے ہالی وڈ کی کچھ اداکاراؤں نے وہ بھی بڑی اداکاراؤں نے ہالی وڈ کے ایک بڑے پروڈیوسر ڈائریکٹر ہاروے وینسٹین کے خلاف جنسی ہراسانی کا الزام لگایاتھا۔ ہاروے وینسٹین وہ پروڈیوسر ڈائریکٹر ہے جس کی درجنوں فلموں نے دنیائے فلم کا سب سے بڑا ایوارڈ آسکر ایوارڈ جیتا ہے۔ ایسے ڈائریکٹر کے ساتھ سوچئے کون سونا پسند نہ کرے گا۔ گلیمر کی دنیا پر جان لٹانے والوں میں کیا اتنی مزاحمت ہو سکتی ہے ؟چند ٹکڑوں کے لئے جو اپنے جسم کے پوشیدہ حصے ساری دنیا کے سامنے کھول دینا پسند کرتی ہوں وہ بند کمروں میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے کیا نہیں کرتی ہونگی؟اس لئے یہ یقین نہیں ہوتا کہ ہاروے پر الزام سازش کے تحت نہیں اخلاص نیت کے ساتھ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ الزام اسلئے نہیں لگائے گئے کہ متاثرین کو اپنی عصمت و عفت کی فکر ہے بلکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عصمتیں گنوانے کے بعد بھی پروڈیوسر ڈائرکٹر سے وابستہ ان کی توقعات پوری نہیں ہوئی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسٹر ہاروے کو اب نوخیز بدن میسر آرہے ہوں اسلئے انھوں نے ان بوڑھی گھوڑیوں کو ٹھینگا دکھا دیا ہوَ۔ اورجس ماحول میں پورن اسٹار بھی Celebrity کی حیثیت رکھتے ہوں وہاں بوقت ضرورت کسی کا بستر گرم کردینا کونسی بڑی بات ہے۔

  اب آئیے بالی وڈکی طرف۔ کون نہین جانتا کے وہاں خواتین کا جنسی استحصال معمول کی بات ہے۔ چند سال پہلے شکتی کپور کی زبانی بہتکچھ سطح پر آیا تھا۔ ہم نے می ٹو پر درجنوں مضامین پڑھ لئے کسی بھی مضمون میں بالی وڈ کی بڑی ہیروئنوں کا ذکر نہیں۔ کیا سب دودھ کی دھلی ہیں ؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ پہلی بار مشرق نے مغرب کے مقابلے میں عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ورنہ اب تک کی روایت تو یہی ہے کہ ہم آنکھ بند کرکے مغرب سے آنے والی ہر چیز کی نقل کرتے ہیں۔ ہماری بڑی ہیروئنوں نے چپ سادھ لی ہے۔ کیوں ؟ اس لئے جو کچھ ہو رہا ہے برسوں سے ہورہا ہے۔ اور کسی مائی کے لال میں ہمت نہیں کے سسٹم کو توڑ سکے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں۔ سارے قصے کہانیاں پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں آتے رہتے ہیں۔ سوال یہ کہ پھر ایسی گلیوں میں کمزور ہستیاں قدم کیوں رکھتی ہیں ؟چچا غالب کا ایک مصرعہ ہے۔ ’’جس کو ہو جان ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں ؟‘‘حالانکہ چچا کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ان کا پیشہء آبا سپہ گری ہے۔ مگر وہ اس گلی میں جانے سے منع کر رہے ہیں جہاں جان ودل خطرے میں ہوں۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دو ڈھائی صدیوں پہلے کی ہمت تھی اور یہ آج کی ہمت ہے۔ ہم کہیں گے کہ اس وقت کے اخلاق و اقدار الگ تھے آج کے اخلاق و اقدار الگ ہیں۔

   جس طرح مین اسٹریم میڈیا مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی دوڑمیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے مگراردو میڈیا حق کی طرف داری کرتا ہے بالکل اسی طرح اس موقع پر بھی اردو والوں کا رویہ ہونا چاہئے۔ ہم ہوا یا دریا کے ساتھ بہنے والےلوگ نہیں۔ ہم نفس کے بندے یا دنیا کے غلام نہیں۔ ہم تو دنیا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھنے والی قوم ہیں۔ ہم بھی کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے کرنے لگیں تو پھر وہی مزید ہوگا جو ہورہا ہے۔ سینکڑون مثالیں ہیں کہ دنیا کی بڑی بڑی سیلیبریٹی خواتین نے جب اسلام قبول کیا تو عام لوگوں کی طرح جینے لگیں۔ کچھ اس کے بعد بھی سیلیبریٹی رہیں مگر اتنی عزت و وقار کے ساتھ کہ ان تک پہونچنے کے لئے فرشتوں کے پر بھی جلیں۔ یہ آپ کی اپنی چوائس ہوتی ہے کہ آپ کس طرح زندہ رہنا پسند کرتی ہیں۔ می ٹو تحریکات کا کبھی خاتمہ ہونا ممکن نہیں الاّ یہ کہ آپ بنیادوں کو درست کریں۔ سعودی عرب میں جنسی جرائم کبھی تھے ہی نہیں کیونکہ وہاں عورت صرف گھر میں دکھائی دیتی تھی اب وہاں بھی جنسی جرائم بڑھیں گے۔

  بہرحال ہمارے نزدیک مسئلے کا حل یہ نہیں ہے۔ مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کیا واقعتاً کوئی مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔