نبیؐ بحیثیت ایک مدبّر اور ماہر سیاست (آخری قسط)

تحریر: مولانا امین احسن اصلاحی … ترتیب: عبدالعزیز

        حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضورؐ کے تدبر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب ایسے ملک کے ایک ایک گوشہ میں امن و عدل کی حکومت قایم کی۔ کفار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقع پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کر دیا۔ رومیوں کی سرکوبی کیلئے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپ نے کر ڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی یہ شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید ان نفوس کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوگی، جو اس ساری جدوجہد کے دوران میں حضورؐ کے ساتھیوں میں شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے مارے گئے۔

        پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس تہذیب و تمدن کے زمانہ میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ فاتح ملک کی فوجوں نے مفتوح ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام نسل سے بھر دی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اربابِ سیاست اس صورت حالات پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے اس کو انقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔

        اہل سیاست کیلئے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور اور نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کیلئے اٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بیگانوں پر اپنی سطوت جمنے اور اپنی اہمیت قایم کرنے کیلئے اختیار کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح کے مقاصد کے پیش نظر جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ ظاہر ہوتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں۔ جہاں وہ اترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کئے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کر جاتے ہیں تو ان کیلئے قصر اور دیوان خانے آراستہ کئے جاتے ہیں۔ ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں۔ ان کیلئے بری، بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔ جب وہ کسی خاص سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کیلئے بند کر دی جاتی ہے۔

        اس زمانہ میں ان چیزوں کے بغیر کسی صاحب سیاست کا تصور بھی نہ دوسرے لوگ کرتے ہیں اور نہ کوئی صاحب سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی وجود تصور کرتا ہے، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دنیا کے تمام اہل سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب سے پیچھے چلیں۔ مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں۔ آپؐ کھانا کھانے کیلئے بیٹھتے تو دو زانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے اسی طرح میں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضورؐ کے بارے میں اس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضورؐ کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اسی طرح سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا میں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے پاس کوئی خاص سواری تھی نہ کوئی خاص قصر دیوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اسی میں شب استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی وفود اور سفراء سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے فرماتے۔

        یہ خیال نہ فرمائیے کہ اس زمانہ کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹھ باٹھ سے آشنا نہیں ہوئی تھی جس طمطراق اور ٹھاٹھ باٹھ کی اب وہ عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہل سیاست کی تانا شاہی ہمیشہ یہی رہی۔ فرق اگر ہوا ہے تو محض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرو فر کے بجائے خلافتِ الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کی جگہ خدمت اور محبت کا جلال تھا، لیکن اس سادگی اور فقر و درویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوہ کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔

        نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیات مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی بہت بڑی جماعت بھی تربیت کرکے تیار کردی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروئے کار لانے کیلئے پوری طرح اہل تھے، چنانچہ اس تاریخی حیثیت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضورؐ کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھا اور دیکھتے دیکھتے اس کرۂ ارضی کے تین بر اعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں، لیکن اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کیلئے موزوں اشخاص کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ میں نے جن تین بر اعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل نہیں تھے بلکہ وقت کی نہایت ترقی یافتہ، جبار و قہار حکومتیں تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی موجوں نے جزیرۂ عرب سے اٹھ کر ان کو ان کی جڑوں سے اس طرح اکھاڑ پھینکا گویا زمین میں ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور ان کے ظلم و جور کی جگہ ہر گوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلادیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔

        دنیا کے تمام مدبرین اور اہل سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجئے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی نظر نہیں آتا جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہو جو اس کے فکر و فلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے عالم و عامل ہزاروں صحابہؓ تھے۔

        آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپؐ نبی خاتم اور پیغمبر عالم ہیں۔ سیاست اور تدبر اس مرتبہ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیلدار کی زندگی کے زاویہ سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہر سیاست یا ایک مدبر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔ نبوت اور رسالت ایک عظیم عطیہ الٰہی ہے، جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو بخشتا ہے، تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے۔ پھر حضورؐ تو صرف نبیؐ ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سید المرسل صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ صرف اہل عرب ہی کیلئے نہیں تھے بلکہ تمام عالم کیلئے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کیلئے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی اور یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی دین رہبانیت کے داعی بن کر نہیں آئے تھے بلکہ ایک ایسے دین کے مدعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم !

تبصرے بند ہیں۔