نبی اکرم ﷺ کا معصوم بچپن اور بے داغ جوانی

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

اللہ عزوجل نے اپنی خاص حکمت کے پیش نظر نبی اکرم ﷺ کو بشری عنصر تو عطا کیا لیکن آپ ﷺکو ایسی خصوصیات وکمالات سے نوازا جن سے آپ کی ذات اور آپ کی زندگی ہر پہلو سے ممتاز ہوگئی، اورچونکہ آپ ﷺ پر انسانی رہبری کے لئے وحی الہی کا نزول ہونا تھا اورآپ کے ذریعہ لوگوں تک ہدایت پہونچاکر آپ ﷺ کو امام ومقتدا اور آپ کی سیرت طیبہ کو اسوہ بنانا تھا اس لئے اللہ عزوجل نےآپﷺ کی زندگی کو ہر برائی سے پاک رکھا اور قدم قدم پر آپﷺ کی حفاظت کا اہتمام کیا۔ اس لئے نبوت کے بعد ہی نہیں بلکہ نبوت سے پہلے بھی بچپن اور جوانی دونوں میں گناہ ومعصیت اور انسانی شخصیت کو داغدار کرنے والے گھٹیا قسم کے اعمال وافعال سے آپ محفوظ ومعصوم رہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ جس معاشرہ میں پروان چڑھے اور جس میں آپ ﷺ نے اپنے بچپن اور جوانی کا وقت گزارا اس میں زنا کاری، فحاشی، شراب نوشی، سود وقمار، ناچ گانا اور دیگر ہر قسم کی برائیاں عروج پر تھیں، بلکہ بہت سی برائیاں لوگوں کی شرافت وتہذیب کی علامت بن چکی تھیں، ایسے معاشرہ میں تمام تر برائیوں سے محفوظ رہنا اور کسی معمولی سے معمولی برے عمل سے اپنی سیرت کو داغدار نہ ہونے دینا یہ بڑے کمال کی بات ہے ؛ کونکہ عام انسانی فطرت ہے کہ انسان جس معاشرہ میں آنکھیں کھولتا ہے، اورپروان چڑھتا ہے اس معاشرہ سے ضرور متأثر ہوتا ہےاور اس کی رائج اور عام برائیوں سے نہیں بچ پاتاہے۔ یہی وجہ سے کہ ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہونے کے باوجود اپنے اطراف کے ماحول سے متأثر ہوکربے راہ روی اور بددینی میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور اس پر اس کا اتنا گہرا رنگ چڑھتا ہے کہ وہ پوری زندگی اسی باطل دین کی پیروی میں گزار دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ (بخاری: ۱۳۵۸)

’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں ‘‘

اس عام انسانی عادت کے برخلاف اللہ نے اپنے نبی کو معاشرہ میں رائج ہر قسم کی برائی سے محفوظ رکھا، اور آپ ﷺ کو معصیت سے مکمل محفوظ رکھنے کی خاطر بچپن میں ہی شق صدر کراکر مادہ ٔمعصیت کو دل سے نکلوادیا تاکہ ارادہ معصیت سے بھی قلب نبوی کو پاک ہو،اور اس پاک دل کو شیطان کبھی بھی اپنے زہر سے گندہ نہ کرسکے اس کے لئے قلب تک شیطان کی رسائی کی راہ  مہر نبوت کے ذریعہ سے پہلے سے ہی بند کردی گئی تھی، چناں چہ آپ ﷺ کی پیدائش مہر نبوت کے ساتھ ہوئی اور جس جگہ مہر نبوت تھی وہی جگہ ہے جہاں سے شیطان قلبِ انسانی تک وساوس منتقل کرتا ہے، حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ سے منقول ہے کہ کسی شخص نے اللہ عزوجل سے درخواست کی کہ اے اللہ مجھ کو شیطان کے وسوسے کا راستہ دکھلا کہ وہ کس راہ سے آکر آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے تو من جانب اللہ دوشانوں کی درمیانی جگہ جو قلب کے مقابل بائیں جانب ہے وہ دکھلائی گئی کہ شیطان اس راہ سے آتا ہے اور جب بند ہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ فورا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (سیرۃ المصطفی: ۱؍۱۰۷)

اللہ کی خصوصی نگرانی اور حفاظت کی برکت سے نبی اکرم ﷺ سے نبوت سے قبل (نہ بچپن میں اور نہ ہی جوانی میں کسی بھی وقت کسی بھی حال میں )کوئی ایسا کام صادر نہیں ہوا جس کو بنیاد بناکر آپ ﷺ کے دشمنوں اور حاسدوں کو آپ کی شخصیت پر انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔

شرک وبت پرستی سے نفرت

نبی اکرم ﷺ سے پہلے مکہ شرک وکفر اور بت پرستی کا اڈہ تھا، حتی کہ خانہ کعبہ میں مختلف اقوام اور قبائل کے ۳۶۰؍بت رکھےہوئے تھے، لیکن آپ ﷺ کی طبیعت بچپن ہی سے توحید کی خوگر تھی اور آپﷺ کفر وشرک اور بت پرستی سے ہمیشہ متنفر اور بیزار رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ﷺ نے کبھی کسی بت کوپوچا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ۔ پھر لوگوں نے پوچھا کہ آپ ﷺ نے کبھی شراب پی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ۔ میں ہمیشہ سے ان چیزوں کوجس میں یہ لوگ مبتلا ہیں کفر سمجھتا ہوں، اگرچہ مجھے اس وقت کتاب اور ایمان کا علم نہ تھا۔ (الخصائص الکبری: ۱؍۱۵۰، السیرۃ الحلبیۃ : ۱؍۱۸۲، الوسیط فی تفسیر القرآن: سورۃ الشوری: ۵۲، حدیث نمبر: ۸۱۹)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے چچازاد بھائیوں کے ساتھ اساف نامی بت (جوکہ خانہ کعبہ کے پاس تھا)کی طرف گئے،پھر نظر اٹھاکر تھوڑی دیر خانہ کعبہ کو دیکھتے رہے اور واپس آگئے،تو ان بھائیوں نے کہا کہ آپ کو کیا ہوگیا کہ آپ واپس ہورہے ہیں ؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے اس بت کے پاس ٹھہرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (الخصائص الکبری: ۱؍۱۵۱)

یہ واقعات بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بچپن سے ہی شرک وبت پرستی سے متنفر تھے اور توحید کے خوگر تھے،اور آپ ﷺ نے کبھی کسی بت کے ساتھ پرستش اور تعظیم واکرام کا معاملہ نہیں کیا۔

لہو ولعب اور اعمال جاہلیت سے حفاظت

نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے بچپن اور جوانی میں تمام برے اعمال جاہلیت اور بیہودہ لہو ولعب سے بھی محفوظ رکھا، اور جب کبھی بھی کسی رائج لہو ولعب اور عمل جاہلیت نے آپ ﷺ کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا  فوراًعنایات ربانی اور حفاظت الہی نے آپ کو اس سے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا، اور آپﷺ اس سے محفوظ رہے۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نےدو مرتبہ کے سوا جاہلیت کے اعمال میں سے کسی بھی عمل کا کبھی ارادہ نہیں کیا، اور دونوں بار اللہ نے میری حفاظت فرمائی، ایک رات میں نے قریش کے ایک جوان سے کہا کہ آج تم میری بکری کی دیکھ بھال کردوتاکہ میں بھی جوان لڑکوں کی طرح آج رات قصہ کہائی کی مجلس میں شریک ہوسکوں، چناں چہ میں مکہ کے کنارے کے ایک گھر کے پاس پہونچا وہاں پر گانا بجانا چل رہا تھا، میں نے پوچھا کہ کیا چل رہا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ فلاں قریش کے ایک مرد نے فلاں عورت سے شادی کی ہے اور یہ اسی کی خوشی کی محفل ہے، میں اس محفل میں کیا گیا کہ جاتے ہی میری آنکھ لگ گئی اور میں سوتا رہا یہاں تک کہ اگلی صبح سورج کی کرن سے بیدار ہوا۔ جس جوان کو میں نے بکری کی حفاظت کی ذمہ داری دی تھی اس نے گذشتہ رات کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسےساری بات بتائی، اور اگلی رات جانے کے لئے دوبارہ اسے بکری کی دیکھ بھال کرنے کو کہا، اور رات میں دوبارہ ادھر گیا، لیکن پھر آنکھ ایسی لگی کہ سورج نکلنے کی بعد ہی میں بیدار ہوا، اللہ کی قسم اس کے بعد کبھی بھی کسی عمل جاہلیت کا میں نے ارادہ نہیں کیا یہاں تک کہ اللہ نے مجھے نبوت عطا کردیا۔ (صحیح ابن حبان :۶۲۷۲، حسنہ ابن حجر وشعیب الارناؤط)

اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ بشری خاصہ کے تحت طبیعت کا رجحان کسی لہو کی طرف ہوا تو  اللہ نے اپنی خصوصی نگرانی اور حفاظت میں آپ کو محفوظ رکھا۔

بتوں کے نام پر ذبح کئے گئے جانور کے کھانے سے حفاظت

زمانہ جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانور وں کو ذبح کرنے کا عام رواج تھا، لیکن اس ماحول میں آپ ﷺ بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانور کے کھانے سے ہمیشہ بچتے رہے اور کبھی ایسا گوشت تناول نہیں فرمایا، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وحی کے نزول سے قبل نبی اکرم ﷺ کی ملاقات زید بن عمر بن نفیل سے ’’بلدح‘‘ کے نشیبی وادی میں ہوئی، آپ ﷺ کے سامنے گوشت پیش کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس جانور کا گوشت نہیں کھاتا ہوں جسے تم لوگ بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو، میں صرف اللہ کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت ہی کھاتا ہوں ۔ (بخاری  :۳۸۲۶)

غیر اللہ کی قسم کھانے سے اجتناب

بوقت ضرورت صرف اللہ کے نام وصفات کی قسم کھانے کی اجازت ہے، زمانہ ٔ جاہلیت میں مشرکین اپنے باطل بتوں کے ناموں کی قسم کھایا کرتے تھے، اور اسی کا عام رواج تھا، لیکن نبی اکرم ﷺ بچپن وجوانی دونوں ہی میں اس شرکیہ عمل سے متنفر اور بیزار رہے اور اس سے اجتناب کرتے رہے، جس کی واضح دلیل وہ واقعہ ہے جو شام کے سفر میں بحیرا راہب سے ملاقات میں پیش آیا، امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں، ابن ہشام نے السیرۃ النبویہ میں اور طبقات میں ابن سعد نے ذکر کیا ہے کہ آپ ﷺ ۱۲ ؍سال عمر میں اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ شام کے سفر پر نکلے، جب شہر بصری کے قریب پہونچے تو وہاں پر ایک نصرانی راہب جرجیس( بحیرا)سے ملاقات ہوئی، وہ راہب آسمانی کتابوں میں مذکور نبی آخر الزماں کی علامتوں سے بخوبی واقف تھا، اس نے ان علامات کی روشنی میں حضور ﷺ کے پرنور چہرہ کو دیکھتے ہی فورا پہچان لیا کہ یہی وہ نبی ہیں جن کا ذکر پچھلی آسمانی کتابوں میں مذکور ہے، اسی موقع پر اس نےمزید اچھی طرح پہچاننے اور تمام علامات کامشاہدہ کرنے لئے آپ ﷺ سے کہا :

’’اے بچے تمہیں لات وعزی کی قسم دے کرمیں تم سے سوال کرتا ہوں کہ میں تم سے جو پوچھوں مجھے بتاؤ‘‘

نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ لات وعزی کی قسم دے کرمجھ سے کچھ مت پوچھو، اللہ کی قسم مجھے ان دنوں سے انتی نفرت ہے جتنی کسی اور چیز سے میں نےکبھی نہیں کی۔ اس کے بعد بحیرا نے کہا کہ اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ میں جو پوچھوں اس کا جواب دو، تو نبی اکرم ﷺنے فرمایاکہ جو چاہوپوچھو۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۱؍۱۶۶، دلائل النبوۃ : ۲؍۲۸)

ستر پوشی کا اہتمام اور بے پردگی سے حفاظت

عام طور پر کم عمر بچوں میں اعضاء ستر کے پردہ میں غفلت اور بے توجہی ہوتی ہے، اور زمانہ جاہلیت میں تواس سلسلہ میں بڑی غفلت عام تھی حتی کہ مرد وعورت خانہ کعبہ کا طواف بے لباس ہوکر کیا کرتے تھے، لیکن نبی اکرم ﷺ نے بچپن اور جوانی دونوں میں بے لباس ہونے سے اجتناب کیا اور کبھی بھی اعضاء ستر کو بے لباس نہیں کیا، خانہ کعبہ کی تعمیر کے لئے حضرت عباسؓ بن عبد المطلب کے ساتھ پتھر منتقل کرنے میں نبی اکرم ﷺ مصروف تھے، حضرت عباسؓ نے کہا کہ اپنی لنگی کھول کر کندھے پر ڈال لیں اور اس پر پتھر رکھیں، جوں ہی ازار کھلا ا ٓپ بے ہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو آپ کہہ رہے تھے : ازاری ازاری، (میری لنگی، میری لنگی) چناں چہ فورا آپ کی لنگی باندھ دی گئی، حالانکہ اس وقت عام لوگوں کا حال یہ تھا کہ سب کے سب اپنی اپنی لنگیاں اتار کر پتھر کی منتقلی اور تعمیراتی کاموں میں مصروف تھے۔ (بخاری: ۱۵۸۲)

یہ بے ہوشی شدت حیاو غیرت اور اللہ کی خصوصی عنایت کی وجہ سے ہوئی اور اس طرح حیاء کے مغائرنازیبا عمل سے آپ ﷺمحفوظ رہے۔

مذکورہ اعمال جاہلیت کے علاوہ معاشرہ میں رائج تمام ہی برے اعمال سے آپ ﷺبچنے والے تھے اور ہر قسم کے اعلی اقدار اور عمدہ صفات کےآپ پیکر تھے، جس کی وجہ سے آپ کی شخصیت نبوت سے قبل ہی تمام لوگوں کی نظر میں بہت معتبر اور مقبول تھی اور آپ کی خوبیوں کا ہر طرف چرچا تھا، اور صادق وامین کے نام سے آپ کو موسوم کیا جاتاتھا۔ فاللہم صل علی حبیبنا سید الاولین والآخرین محمد النبی الامی الامین، وعلی آلہ واصحابہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔