راہ میں گر ہمیں قندیل جلانا ہو گا

راشد عالم راشد

راہ میں   گر ہمیں    قندیل   جلانا   ہو گا

ان ہواؤں کو بھی    آداب سکھانا   ہو گا

۔

آنکھ گر وقت پہ کھل جائے غنیمت سمجھو

ورنہ  آنکھوں سے  فقط اشک  بہانا ہو گا

۔

جنگ کرنے سے کبھی بات نہیں بن سکتی

بات  بن جائے  گی کچھ کہنا سنانا ہو گا

۔

رات  نفرت کی   کسی طور گذر جانے دو

پھر محبت کا  نیا دن  بھی سہانا ہو گا

۔

 دل نے چاہا بھی مگر ڈر سے میں خاموش رہا

لب    کہیں   کھول  دیا کتنا فسانہ ہو گا

۔

کتنا ہنگامہ ہے آنکھوں سے اشارہ کر دے

باقی   تفصیل  سے جب  ملنا ملانا  ہو گا

۔

 ہم ہیں بارود کی دہلیز پہ  ہی بیٹھے  ہوۓ

اب  ہمیں  جشن  نہیں   خیر  منانا ہو  گا

تبصرے بند ہیں۔