نبی کریم ﷺ کے اخلاق کریمانہ اور حلم و بردباری

محمد عرفان شيخ یونس سراجی

نبی کریم  ﷺ اعلى اقدار،حسن اخلاق،نرم خوئی ونرم گوئی، امانت وصداقت، تہذیب وشائستگی،متانت وسنجیدگی، حلم وبردباری،عفو ودرگزری،حسن معاملہ، شفقت وکرم،بلند وبالا کردار،  حسن  اوصاف  اور عالی اطوار وعادات کے پیکر تھے۔ ہمارے نبی  ﷺ نبوت  سے قبل   بھی اخلاقی خوبیوں سے ممتار تھے،  اور جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو آپ ﷺ مکمل طور سے  قرآن وحدیث کے تناظر میں اخلاقی شرافتوں سے بہرہ ور ہوگیے۔ اور اللہ تعالى نے  ہمارے تاجدار مدینہ مصطفقی ﷺ کے اخلاق فاضلہ کو اپنی کتاب  میں  ثبت کردیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالى کا فرمان ہے :”وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيْمٍ“. (سورہ قلم: 4)

ترجمہ:” اور بے شک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے“۔

اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہے :”بُعِثْتُ أَنْ أُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ“.(موطأ امام مالک،ح:2633)

ترجمہ: ”میں  اعلى اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں“۔

جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم ﷺکے اخلاق کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا :”كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ“.(مسند احمد)

ترجمہ: ”آپ کاخلق قرآن ہے“۔

امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”سنن ابی داود “ میں نبی کریم ﷺ کے   اخلاق کریمانہ سے متعلق  حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قصہ کے ساتھ چیدہ چیدہ احادیث بیان کیا ہے، جو درج ذیل ہیں:-

1- حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، فَأَرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ، فَقُلْتُ : وَاللَّهِ لَا أَذْهَبُ. وَفِي نَفْسِي أَنْ أَذْهَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِهِ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ : فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَابِضٌ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ : ” يَا أُنَيْسُ، اذْهَبْ حَيْثُ أَمَرْتُكَ ". قُلْتُ : نَعَمْ، أَنَا أَذْهَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ أَنَسٌ : وَاللَّهِ لَقَدْ خَدَمْتُهُ سَبْعَ سِنِينَ – أَوْ تِسْعَ سِنِينَ – مَا عَلِمْتُ قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُ : لِمَ فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا ؟ وَلَا لِشَيْءٍ تَرَكْتُ : هَلَّا فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا ؟”( سنن ابی داود، ح:4773)

ترجمہ:”حضرت انس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ لوگوں میں  باعتبار اخلاق  کےسب سے اچھے تھے، ایک دن نبی کریم ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے پیش نظر (باہر)بھیجا، تو میں نے کہاکہ و اللہ میں نہیں جاؤں گا،  اور دل میں یہ بات تھی کہ آپ ﷺکے حکم کی تعمیل کے لیے(ضرور) جاؤں گا۔ (بعد ازاں ) حضرت أنس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  جب  میں گھر سے نکلا تو بازار میں کھیل رہے کچھ  بچوں کے پاس سے گذر ہوا، پس اچانک نبی کریمﷺ میرے پیچھے سے میرے سرکی گدی پکڑ لیے،   جب میں نے  دیکھا تو نبی کریم ﷺ ہنس رہے ہیں،اور فرمایا:«اے انس!  جاؤ جہاں جانے کا حکم دیا تھا»پس میں نے کہا کہ ہاں میں جاؤں گا  یارسول اللہ۔  حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  میں نے نبی کریم ﷺ کی سات سال یا نو سال خدمت کی ، مجھے نہیں معلوم کہ میرےکیے ہوئے کام پر کبھی سوال کیے ہوں، اور نہ کیے ہوئے کام پر میری سرزنش اور ملامت کی ہو۔

2- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:”إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ، وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ، وَالِاقْتِصَادَ جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ”( سنن ابی داود، ح:4776)

ترجمہ”یقینا راست روی،  اور حسن خلق، اور میانہ روی نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو ہے” –

3-عَنْ عَائِشَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ قَالَتْ : "مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا وَلَا امْرَأَةً قَطُّ”.(سنن ابی داود، ح:4789)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کسی ملازم کو ضرب نہیں ماری اور  نہ کسی عورت کو”-

4-عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَلَغَهُ عَنِ الرَّجُلِ الشَّيْءُ لَمْ يَقُلْ : مَا بَالُ فُلَانٍ يَقُولُ ؟ وَلَكِنْ يَقُولُ : ” مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا ؟ ".(سنن ابی داود، ح:4788)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عرض کرتی ہیں کہ”نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جناب میں کسی شخص سے متعلق کوئی چیز (شکایات)پہونچتی، تو آپ نے یہ نہیں فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیاہے جو ایسی بات کرتا ہے، لیکن یہ ضرور کہتے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی باتیں کرتے ہیں” –

5-نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:” أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُهُ ".(سنن ابی داود، ح:4800)

ترجمہ:”میں ایسے شخص کے لیے جنت کے علاقے میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے حق بجانب ہوتے ہوئے جنگ وجدال سے ہاتھ ٹھالیا، اور جنت کے وسط میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے مزاحا ہی سہی جھوٹ ودورغ گوئی سے اجتناب کرلیا، اور جنت کے اعلی سطح پر ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے اخلاق وکردار کی تحسین وتزئین کاری کی”-

6-” نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:”مَا مِنْ شَيْءٍ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ ".(سنن ابی داود، ح:4799)

ترجمہ:”(انسانی)میزان میں حسن خلق سے بھاری بھرکم کوئی چیز نہیں”-

ان احادیث کے علاوہ بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں درج ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شرافتوں اور اعلی اخلاقی اقدار سے روشناس کرتی ہیں- طول وطویل کے پیش نظر انہی چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں-

مذکورہ احادیث سے مستنبط مسائل:

1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اخلاقی اقدار کا مقابلہ کرہ ارضی پر قیام پذیر لوگ نہیں کرسکتے، کیوں کہ آپ حسن کردار کی اعلی سطح پر براجمان تھے-

2- ہمارے نبی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم نہایت ہی خندہ رو، خوش مزاج، خوش طبع اور ہنس مکھ تھے، غیظ وغضب سے بہت پرے تھے-

3- مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اسلامی سانچے اور اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار بنائیں اور اچھے عادات واطوار اور اعلی کردار سے اپنے آپ کو متصف کریں-

4- اپنے ملازمین اور نوکر چاکر کے ساتھ اچھا سلوک وبرتاؤ کریں، انہیں اخلاق باختہ کلمات ت سے نہ بلائیں، اگر ان سے بشری تقاضے کے مطابق کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ترش روئی کا مظاہرہ نہ کریں اور نہ سرزنشی کردار  نبھائیں، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے –

5- بزرگ اور بڑوں کی خدمت کرنی چاہیے، ان سے نرم لہجے میں کلام کرنا چاہیے-

6- راست روی اور دیانت داری، حسن اخلاق اور اعتدال پسندی ایک عظیم انسانی سوغات ہے، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اہمیت وفضلت کے پیش نظر نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو قرار دیا –

7- کسی کی اصلاح اور سدھار کرتے وقت عمومی طور سے انکار منکر کریں تاکہ کسی کے دل میں تنگی نہ ہونے پائے-

8- حسن خلق نہایت ہی وزنی شی ہے، جسے کوئی میزان سے وزن نہیں کیا جاسکتا-

آخر میں اللہ سے دست بدعا ہوں کہ ہمیں حسن اخلاق کا پیکر بنائے اور نبوی منوال کو اپنانے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے – آمین

تبصرے بند ہیں۔