غالب : وہ ہر اک بات پر کہنا جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا

اے۔ رحمان

غالب نے ڈیڑھ سو سال قبل وفات پائی اور جیسا کہ دستور ہے ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کی زندگی اور شاعری پر لکھنا شروع کر دیا تھا۔ غالب نے خود اپنی زندگی میں پیشن گوئی کر دی تھی ’’ شہرت ِ شعرم بہ گیتی بعد ِ من خواہد شدم ‘‘ اور وہی ہوا۔ ان کی سوانح لکھی گئی، ان کے فارسی اور اردو کے ترجمے ہوئے، شرحیں لکھی گئیں۔ تبصرے اور تنقیدیں لکھی گئیں، مختلف زاویوں سے ان کی زندگی کا جائزہ لیا گیا اور یہ عمل مستقل جاری رہا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اب بھی جاری ہے اور آثار یہ  ہیں کہ جار ی رہے گا۔ اردویا فارسی کے کسی ادیب اور شاعر پر اتنے دفتر سیاہ نہیں کیے گئے۔

بحیثیت شاعر غالب کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے اور آج ان کا نام بین الاقوامی سطح پر زبان زدِ عام ہے۔ ایسا نہیں کوئی کہ جو غالب کو نہ جانے۔ ظاہر ہے کہ بطور موضوع غالب کی شخصیت اور شاعری (بلکہ نثر بھی) اس قدر پر پیچ اور کثیر الجہات ہے کہ ہر تازہ واردِ بساطِ ادب ان کو ایک مختلف تناظر میں دیکھتا اور جذب کرتا ہے، ان کا کوئی نیا گوشہ دریافت کرتا یا ان کی تعیین قدر کا کوئی نیا پیمانہ استعمال کرتا ہے لہٰذا ان کی تخلیقات پر تنقیدی  اور تفہیمی عمل جاری و ساری ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا نباضِ ادب ہو جس نے نقاد نہ ہوتے ہوئے بھی غالب پر خامہ فرسائی نہ کی ہو، کل وقتی ناقدین کی تو بات ہی اور ہے۔ حالانکہ کہا یہ جاتا ہے کہ مولانا حالی نے یادگارِ غالب میں غالبیات کا جو سنگِ بنیاد رکھ دیا تھا اسی پرتنقید غالب کی پوری عمارت ایستادہ ہے کیونکہ حالی نے غالب کے کلام کو غالب سے ہی سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ بات پوری طرح سے درست یوں نہیں ہے کہ غالب سے حالی کی ملاقات اس وقت ہوئی جب غالب عہد شاب سے گزر چکے تھے لہٰذا سوانح میں بھی ابتدائی زندگی کے حالات و واقعات نہیں ہیں دوسرے شاعری پر تنقید میں حالی نے جس نظریے اور پیمانے کا اطلاق و استعمال کیا اس میں معروضیت کی کمی پائی جاتی ہے۔ بعد کے ناقدین نے غالب کے خصوصاً اردو کلام میں جن پہلوؤں کو اجاگر کیا وہ یادگارِ غالب میں نہیں ملتے۔

غالب کے کلام میں فلسفیانہ اظہارنے بھی ایک مستقل موضوع کی شکل اختیار کر لی اور ان کے فلسفے پر بہت کچھ لکھ دیا گیا۔ مگر ایسے بھی لوگ ہوئے اور ہیں جو غالب کو فلسفی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں  حالانکہ ان کے اعتراض کی کوئی منطقی وجہ یا دلیل سامنے نہیں آتی۔ فلسفے کے لیے کوئی مخصوص تعلیم و تربیت درکار نہیں۔ کوئی بھی شخص جو ذاتی تجربات او رمشاہدات پر گہرائی سے غور و خوض کرکے حقائق و مظاہر کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اپنے تجزیے سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہو فلسفی ہے۔ شاعر کا ذہن تو خصوصاً ایسا کارخانہ ہے جہاں اس کے شخصی تجربات اور مشاہدات قدرتی طور پر جمع ہو کر عمل، رد عمل، انقلاب اور استحالہ سے گزرتے ہوئے ایک نئی صورت اختیار کر لیتے ہیں جس کے بعد اس کا شاعرانہ تخیل انھیں اپنے رنگ میں رنگ کر نتیجے کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ شاعر کے معاملے میں فکر سے زیادہ تخیل کار فرما ہوتا ہے لیکن اس سبب سے شعری فلسفہ سادہ یا خشک ہونے کے بجائے رنگین اور پر کشش ہوتا ہے۔ غالب کے یہاں عمیق غور و خوض اور تجزیہ موجود ہے لیکن اس کے نتائج کا اظہار غیر روایتی طور پر سیدھا، سادہ اور بے باک ہے۔ ہرفلسفی محض تجسّس ہی نہیں بلکہ ایک سوالیہ ذہن (Questioning Mind) بھی رکھتا ہے جو مظاہر، حقائق اور واقعات  سے واقف ہونے کے بعد ان کے اسباب اور اصلیت کو جاننا چاہتا ہے۔ غالب کا یہ شعر دیکھیے:

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبو یا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اس شعر میں ایک مکمل فلسفی ذہن کی کارگزاری موجود ہے۔ علم ہے، عقیدہ ہے، مفروضہ(Hypothesis)ہے، اظہارِ حقیقت ہے اور سوال ہے جو تجسس پرمبنی ہے۔ نہ ہوتا میں تو ’کیا‘ ہوتا کا جواب انہوں نے ہمارے لئے چھوڑ  دیاہے لہذٰاشارحین نے اپنے اپنے تخیّل اور فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ ِ فلسفہ بتاتی ہے کہ انسان نے ذی شعور، ذی علم اور ذی فکر ہوتے ہی سب سے پہلے جن دو چیزوں پر غور کیا وہ تھیں یہ کائنات اور اس کا اپنا وجود۔ ان دو چیزوں پر غور کرنے سے ہی تیسرا موضوع یعنی خالق ِ کائنات اس کے سامنے آیا۔ مغربی فلسفے نے اس فکر کو فلسفۂ وجودیت کا نام دیا ہے اور وہاں خصوصاً کانٹ اور برکلے نے جن خطوط پر سوچا اسے Subjective idealism  کہا گیا۔ اسے آسانی کے لئے ’’تصوّریت‘‘ کہہ لیجیئے۔ سادہ الفاظ میں یوں ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ دراصل موجود نہیں ہے بلکہ ہم اس کا تصوّر کر لیتے ہیں یا کئے ہوئے ہیں۔ اب دیکھیئے غالب کیا کہتے ہیں:

  ہستی کے مت فریب میں آ جایئو اسد

 عالم  تمام  حلقۂ دام ِ  خیال  ہے

 ویدانت کا فلسفۂ وجود  یا وجودیت جس نے بودھی فکر کی شونیتا (عدم وجود) کو جنم دیا انسان، کائنات اور خالق ِ کائنات کو ایک اکائی تسلیم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وجود کی بنیاد ہی ’’بھرم‘‘ یعنی وہم پر رکھتا ہے جس کا ادراک بھی وہم ہی ہے۔ پہلے میں غالب کے ذہن ِ سوالی کی کارکردگی پر بات کرتا ہوں، یہ وہ ذہن ہے جس نے شعور کی ابتدا میں نظارے اور اشیا کو در خور ِ اعتنا ہی نہیں سمجھا تھا:

  بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

  ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے

 اک کھیل ہے اورنگ ِ سلیماں مرے نزدیک

اک بات ہے اعجاز ِ مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورت ِ عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں ہستی ِ ٔ اشیا مرے آگے

     لیکن  پھر مشاہدہ سوالات کو جنم دیتا ہے اور یہی فلسفیانہ فکر کی ابتدا ہے اور اسی مرحلے سے ان کے فکرو تخیّل کی کار گزاری ایک واضح شکل اختیار کرتی ہے:

جبکہ تجھ بن کوئی نہیں موجود 

    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

  یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں ؟    

     غمزۂ و عشوہ ٔ و ادا کیا ہے؟

   شکن ِ زلف ِ عنبریں کیوں ہے  ؟ 

    نگہہ ِ چشم ِ سرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ؟

     ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟

 یہ تمام سوالات ایک ایسے ذہن ِ رسا کی غمّازی کرتے ہیں جو مظاہر کی اصلیت جاننا چاہتا ہے اور عمیق غور و خوض میں مصروف ہے۔ لیکن یہ شاعر کا ذہن ہے جسے شعری تخیّل بھی ودیعت ہوا ہے لہذٰا سوالات رنگین بھی ہیں اور تہہ دار بھی۔ جب کوئی نتیجہ نہیں نکال پا تا تو چیخ اٹھتا ہے:

 ہاں کھایئو مت فریب ِ ہستی

 ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

لیکن فکر تو جاری ہے۔ مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں، واقعات اپنا ادراک کراتے ہیں، ان سے مفر چاہتا ہے:

ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ِ ہستی و عدم

  لغو ہے آئینۂ فرق ِ جنون و تمکیں

پھر اچانک اس پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ جب تک سود و زیاں، کیف و کرب اور کلفت و راحت کا احساس باقی ہے یہ عقدہ کھلنے والا نہیں ہے۔ خود کو تلقین کرتا ہے:

  نہ ہو بہرزہ بیاباں  نورد  ِ وہم و و  جود

 ہنوز تیرے تصوّر میں ہے نشیب و فراز

بالآخر تمام فکر ایک ہی نکتے پر مرکوز ہو کر آخری اور فیصلہ کن سوال پیدا کرتی ہے :

   ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالب

 آخر تو کیا ہے اے ’نہیں ہے‘

 اب یہ وہی ذہنی کیفیت ہے جسے فانی بدایونی نے یوں بیان کیا تھا:

نہ  ابتدا کی  خبر ہے  نہ انتہا  معلوم

 رہا یہ وہم کہ ہم ہیں، سو وہ بھی کیا معلوم

غالب کی فلسفیانہ فکر اور طبیعت ان کے کلام سے اظہر من الشمس ہے۔ مسٔلہ یہ  ہے کہ لوگوں نے’ فلسفی‘ یعنی محض فلسفی اور فلسفی شاعر کا فرق نہیں سمجھا۔ کل وقتی فلسفی شاعر جیسا تخیّل نہیں رکھتا، اسی لئے اس کی تحریر و تقریر ادق اور خشک ہوتی ہے۔ لیکن شاعر کا تخیّل اس کے افکار و نتائج کو ایک رنگین پیرائے میں پیش کرتا ہے اور غور و خوض کا نتیجہ کتنا ہی پپیچیدہ ہو اس کا اظہار شعریت کی چاشنی سے مملو ہوتا ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔ وہ تمام عمر نئے واقعات اور نئے سوالات کے منتظر رہے۔ انہی کے ایک شعر پر اختتام کرتا ہوں :

 ہے موجزن اک قلزم ِ خوں، کاش!یہی ہو

 آتا ہے ابھی دیکھیئے کیا کیا مرے آگے

تبصرے بند ہیں۔