نربھیا سانحہ کی برسی پر یاد آتے سوال!

سدھیر جین

نربھیا سانحہ کی چوتھی برسی پر ایک بار پھر پلٹ کر دیکھنے کا موقع ہے۔ اس خوفناک اور نفرت انگیز جرم نے ملک کو اتنا جھنجھوڑ دیا تھا کہ مہینوں تک اخبار اور ٹی وی سے وہ واردات اتر نہیں پائی تھی۔ قوانین تو اس وقت بھی ہمارے پاس کافی تھے لیکن اس کیس کے بعد ہم نے مختلف قوانین بنانے کی کوششیں بھی کی تھی۔ کچھ ایسی سنجیدگی ظاہر کی گئی تھی جیسے آگے سے خواتین پر ہونے والے مظالم پر مکمل روک لگ جائے گی۔  لیکن روز خبریں ملتی ہیں کہ خواتین کے تئیں جرائم اور مظالم کی حالت آج بھی ٹھیک نہیں ہے۔

کیا قانونی اقدامات ہی کافی ہیں؟

جرائم سے نمٹنے کی جب بھی بات آتی ہے بس قانون اورسسٹم کے آگے سوچا ہی نہیں جاتا۔ تاہم علم  اورسائنس کی کئی شاخوں نے ان معاملات کے حل تلاش کئے ہیں۔ مثلا جرم کے ہر پہلو پر مطالعہ کے لئے ہمارے پاس علم جرمیات دستیاب ہے۔ بس بدقسمتی یہ ہے کہ اس تعلیم کے مطالعہ کا بندوبست ہم نہیں کر پائے۔ اور شاید اس لیے نہیں کر پائے کیونکہ ہم یہی سمجھتے رہے کہ جرم سے نمٹنے کے لئے مجرمانہ انصاف کے نظام یعنی پولیس، عدالت اور جیل کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہے ہی نہیں۔

جرم کی سماجیات

خواتین پر ہونےوالےظلم پر اب تک ہوئے قابل اعتماد ریسرچ کو دیکھیں تو عام طور پر ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ معاشرے  کی نفسیات کا مسئلہ ہے۔ کوئی بھی ریسرچر اس معاملے میں جاننے کی شروعات کرتا ہے تو اسے تاریخی نقطہ نظر  سےدیکھنا ہی پڑتا ہے۔ اپنے ملک میں خواتین کی صورت حال کا اندازہ تاریخی نقطہ نظرسے کرنے کی مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس کہانی اور ادب کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں۔ کہانی اور ادب میں خواتین کی صلاحیت کی جو ستائش ملتی ہے اس کے بعد تو اس کے جائزے کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ ہماری پرانی کہانی  اورادب مذہبی ادب پر مبنی ہے۔ سو مذہب پر مبنی اخلاقیات تو  بات چیت کی بالکل بھی گنجائش نہیں چھوڑتا۔

قانونی پہلو

چار سال پہلے جب نربھیا سانحہ ہوا تھا اس وقت ملک میں جیسا ماحول تھا اس میں مجرموں کو پھانسی کی مانگ کے علاوہ کوئی اور بات کی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ دو سال نربھیا کے مجرموں کی سزا کی تجویز سوچنے میں لگ گئے۔ گزشتہ سال تیسری برسی پر اس مجرم کی سزا کے بارے میں سوچنے میں گزرا جو معمولی تھا۔ جیسے تیسے وہ معاملہ نمٹا۔ اور وہ بھی اس لئے کہ عدالت کو طے کرنا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ عدالت کے بھی حدود ہیں۔ اب عدالت ہی تو بچی ہے جسے اس بات کا گمان ہے کہ ہمارے  حکومتی نظام کا نام قانونی جمہوریت ہے۔ عدالتیں لوگوں کے مطالبات کی بنیاد پر اپنے دستوری اختیارات سے ہٹ کر فیصلے نہیں کر سکتی ہیں۔

نفسیاتی پہلو

نربھیا سانحہ کی چوتھی برسی اس معنی میں اہم ہو سکتی ہے کہ اس وقت ویسا سماجی محرک یا غصہ نہیں بچا ہے۔ اس معاملے پر غور کے لئے جیسا ماحول ضروری ہے، یہ وقت معقول ہے۔ لہذا اگر آج ہم نربھیا سانحہ کو یاد کرتے ہوئے کچھ سوچیں گے تو اس جرم کے نفسیاتی پہلو پر سوچیں گے۔ آج ہم سوچ سکتے ہیں کہ اس سانحہ کے مجرم پاگلپن کے شکار زیادہ لگتے تھے۔ ان جرائم  کا سماجی پس منظرمیں مطالعہ کیا جاتا تو مسئلہ کا حل ڈھونڈنے میں وہ بہت کام آتا۔ اپنے ملک میں علم جرمیات  کا مطالعہ اور اس کے علم کے تئیں بہت ہی غفلت ہے۔ نوکر شاہ، وکیل، اور پولیس کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں کہ مسائل کے حل کے لئے اس سے جڑاعلم بھی کارآمد ہوتا ہے. لگتا ہے اب تمام لوگ ماننے لگے ہیں کہ ہر کام جسمانی طاقت اور بربریت سے ہی ہو سکتا ہے۔

با اختیار بنانے کے بینر پر ہو سکتا ہے کچھ کام

سماجی، نفسیاتی، معاشی اور دیگر استحصال کے خلاف خواتین کو بااختیار بنانے کے بینر پر کام کم نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن ساری توانائی سڑک پر جدوجہد میں لگ رہی ہے۔ بیداری کی ساری مہم اپنے حق کو یقینی بنانے پر زور دینے کے ساتھ ہے. ایسا لگتا ہے کہ پہلے تو سب ٹھیک تھا بس ابھی کچھ ہی دنوں سے غلط ہونے لگا۔ جبکہ غور کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ یہ پتہ چلے کہ ان استحصال کی تاریخی وجوہات ہیں۔

کہاں تک کریں گے کراٹے کی ٹریننگ

جوڈو کراٹے جیسی چھٹپٹ ٹریننگ کو مہم کہہ کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا اندازہ نہیں لگایا جاتا کہ 130 کروڑ کی آبادی میں 65 کروڑ کے اس طبقے کی اس طرح کی  ٹریننگ کے لئے کتنے وسائل چاہئے. اور پھر وسائل ہوں بھی تو کیا اس صورت میں انفرادی جنگ کی ٹریننگ دے کر مجرموں سے مقابلہ کرنے کے کام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے؟ زیادہ غور و فکر کریں گے تو یہ بات نکل کر آئے گی کہ ہمیں عورت کے ساتھ انسانی اخلاق و اطوار والا سماج چاہئے۔

جرائم سے پاک معاشرے کی بات

یہ نہ سمجھا جائے کہ جرائم سے پاک معاشرے کا تصور پیش کیا جا رہا ہے۔ ماہرین علم جرمیات کا تو یہ ماننا ہے کہ جرائم سے پاک معاشرہ وجود میں ہی نہیں رہ سکتا۔علم سماجیات کے مطابق معاشرہ متحرک ہے جس میں تنظیم و تحلیل ایک ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لئے ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تنظیمی طاقت کو بڑھائیں اور تحلیلی رجحانات کو کم کریں جبکہ آج ہمیں  اس کا الٹا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی، سماجی، اقتصادی تمام شعبوں میں استحصال اور ظلم کو منظوری ملتی جا رہی ہے۔ ایسے میں بچوں، خواتین اور بزرگوں کے ساتھ سفاکانہ رویے کو منظوری ملنے کی گنجائش تو نکلتی ہی چلی جائے گی۔ اس صورت حال میں کیا یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ تینوں ہی طبقے اپنی کمزوری کی وجہ  سے استحصال کے شکار ہوتے ہیں۔

مترجم: شاہد جمال

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔