مایاوتی بنیں گی کیا یوپی کی اماّں؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
سیاست میں اہم سمجھی جانے والی خواتین میں جے للتا، سونیا گاندھی، ممتا بنرجی اور مایاوتی کا نام شامل ہے۔ جے للتا اور مایاوتی کے درمیان کئی معاملوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ برہمنیت کے خلاف دراویڈین تحریک کی وجہ سے جے للتا کو سیاست میں مقام حاصل ہوا۔ جبکہ وہ کرناٹک، میسور کے برہمن خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی زبان تمل نہیں کنڑ تھی۔ وہ بہت اچھی ہندی جانتی اور بولتی تھیں۔ دراوڑ ہندی اور ہندو سے نفرت کی وجہ سے برسوں تک دراوڑستان کا مطالبہ کرتے رہے۔ اس لئے کہ وہ ہندونہیں لامذہب تھے اور ہیں۔ اس کے باوجود جے للتا دراوڑوں کی لیڈر بنیں۔ انہوں نے نہ صرف داوڑ لیڈر ہونے کا حق اداکیا بلکہ اپنی زبان بھی تمل بنالی۔ وہ صرف اسی میں بولتی تھیں۔ آج بھی تمل ناڈو میں ہندی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
مایاوتی دہلی کے دلت خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پربھوداس بادل پور گوتم بدھ نگر کے پوسٹ آفس میں کام کرتے تھے۔ مایاوتی نے دلت، پسماندہ اور کمزور طبقات کے استحصال اور پریشانیوں کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ انہیں جیا بھی۔ انہیں موقع ملا تو اپنی سیاسی زندگی کی شروعات دلت تحریک سے کی۔ یہ تحریک برہمنیت کے خلاف غریبوں، کمزوروں واستحصال شدہ طبقات کو اوپر اٹھانے کیلئے تھی۔ اس وقت نعرہ لگاتھا تلک، ترازواور تلوار ان میں ماروجوتے چار۔ دلت، پسماندہ اور کمزوروں کے حق کیلئے آگے آئی یہ تحریک جلد ہی بہوجن سماج پارٹی بن گئی۔ سماج کے دوسرے طبقوں کو سادھنے میں اس کا اصل مقصد کہیں پیچھے چھوٹ گیا۔ اس لئے وہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے جس کیلئے یہ تحریک وجود میں آئی تھی۔ نہ دلت، پسماندہ اوپر اٹھ سکے اورنہ ہی غریب وکمزوروں کا بھلا ہوسکا۔ اتنا ہی نہیں عورتوں، بچوں کے خلاف ہونے والا ظلم وتشدد بھی نہیں رکا اور نہ ہی تاملناڈو کی طرح ریاست کی مجموعی حالت بہتر ہوسکی جبکہ انہیں چار مرتبہ یوپی کا وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا۔
جے للتا کو جو مقام حاصل ہوا، اس میں ان کی محنت اور زبردست جدوجہد شامل تھی۔ انہیں ا یم جی راما چندرن سیاست میں لائے تھے۔ ایم جی آر کو جے للتا کا سیاسی گرو کہا جاتاہے۔ ان کی موت کے بعد جے للتا کو ان کے جنازے کے پاس جانے سے بھی روکا گیا۔ ایم جی آر کی اہلیہ کانگریس کی مدد سے تمل ناڈو کی وزیراعلیٰ بنیں۔ لیکن جے للتا اپنی سمجھ بوجھ، محنت اور پارٹی کے لوگوں کے یقین کی وجہ سے اناڈی ایم کے کی ذمہ دار بنیں۔ ایم جی آر نے کسی کو اپنا جانشین مقررنہیں کیا تھا لیکن پھر بھی جے للتا ہی ان کی سچی جانشین ثابت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے استاد کے ادھورے خوابوں کو پورا کیا۔ اس کے برخلاف مایاوتی نے شروع سے اپنے سیاسی مینٹر کانشی رام کے نائب کے طورپر کام کیا۔ بلکہ یوپی میں بہوجن سماج پارٹی کو کامیابی ملنے پر انہوں نے مایاوتی کو ہی وزیراعلیٰ بنوایا۔
اخبار، ٹی وی چینلوں اور میڈیا سے دور بھاگنے کے معاملے میں بھی جے للتا اور مایاوتی کے درمیان یکسانیت پائی جاتی ہے۔ جے للتا کو یقین تھا کہ مصنوعی طریقے سے شہرت زیادہ دنوں تک نہیں رہتی۔ اس لئے وہ غریب عوام کی فلاح وبہبود پر زیادہ یقین رکھتی تھیں۔ انہوں نے جس غریب پروری کا مظاہرہ کیاو ہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کا عہد تھا کہ تمل ناڈو میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ صرف ایک روپے میں نمکین چاولوں کی تھالی، تین روپے میں چاول کے ساتھ اڈلی اورپانچ روپے میں چاول کے ساتھ سانبھر اور اڈلی دونوں، ہر کوئی مزدور اور طالب علم سے لے کر ڈی ایم، پروفیسر تک جوچاہے کھاسکتا ہے۔ کوئی شرط نہیں کہ دکھاؤ تم کون ہو؟ کہاں کے ہو؟ کیا کرتے ہو اور دن میں کتنی دفعہ کھاؤگے؟ بچوں کو مفت میں کاپی کتاب پنسل کی فراہمی۔ لوگوں کو ان کے روز مرہ کی ضرورت کے سامان جیسے مکسی، کوکر، گیس چولہا، فرج وغیرہ دیے۔ انہوں نے بے گھروں کو آسرا فراہم کیا۔ تمل ناڈو میں کوئی بھی آپ کو سڑک کنارے سوتا نظرنہیں آئے گا۔ تمل ناڈو میں غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی شرح قومی شرح28فیصد سے کم23اور چنئی میں 25فیصد ہے۔ جے للتا کے انہیں کاموں نے انہیں کاغذی شیرنی کے بجائے ریاست کے عوام کی اماّ بنادیا۔ ان پر آمدنی سے زیادہ دولت اور کرپشن کے الزام بھی لگے لیکن عوام پر ان باتوں کا کوئی اثرنہ ہوا۔ انہوں نے 2016کے انتخاب میں جے للتا کو اسمبلی میں اکثریت دی۔
اقتصادی لبرلائزیشن میں جہاں سبسڈی ختم کرنے کی ہوڑ لگی ہے وہیں جے للتا تمل ناڈو ریاست کی آمدنی کا ایک چوتھائی سے زیادہ27فیصد حصہ سماجی فلاح وبہبود کے کاموں پر سبسڈی کی شکل میں خرچ کررہی تھیں۔ پونجی واد کسی کو بھی حق دے کر عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے اصول پر نہیں چلتا۔ لیکن جے للتانے اپنے عوام کو عزت کی زندگی گزارنے کا حق دینے کی سیاسی نیتی اپنائی۔ جبکہ آج کی سیاست میں ایک طبقے کو ہمیشہ تعریف کرنے اور اقتدار میں چنے جانے کیلئے دان، بھیک پر رکھا جاتا ہے۔ مایاوتی کے دوراقتدار کو دیکھیں تو وہ دلت، پسماندہ، غریب اور کمزور استحصال شدہ طبقات کو حق کے ساتھ عزت کی زندگی دینے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کے زمانے میں ایڈمنسٹریشن ضرورکچھ بہتر رہتا ہے لیکن کمیشن خوروں کی چاندی رہتی ہے۔ انہوں نے ریاست کے عوام کی بہتری کیلئے کام کرنے کے بجائے پارک بنوانے پر زیادہ توجہ دی۔ جن میں کروڑوں روپے کے پتھر کے ہاتھی اور مورتیاں لگوائی گئیں۔ جس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یوپی میں 36فیصد بچے غذائیت کی کمی کے شکار ہیں۔ ان کا وزن مقررہ میعاد سے کم ہے۔ ہیلتھ سہولیات کی بات کریں تو ان کی حالت اور خراب ہے۔ایس آر ایس2013کے مطابق پیدائش کے دوران مرنے والے بچوں کی شرح50ہے جو قومی شرح40سے زیادہ ہے۔ اس طرح زچگی کے دوران اموات کی شرح392ہے جو قومی شرح178فی ہزار سے بہت زیادہ ہے۔ کاپی، کتاب، پنسل، بستہ مفت فراہم کرنا تو دور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی آدھی سے زیادہ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کی حالت بوسیدہ ہے۔ سماجوادی سرکارنے اسکولی بچوں کو سائیکل و لیپ ٹاپ تقسیم کیے لیکن مایاوتی نے صرف جگہ جگہ مورتیاں بنوائیں۔
تمل ناڈو میں جے للتا نے جو ماڈل پیش کیا اس میں پیچھے رہ جانے والے تمام لوگوں کو آگے لانے کی کوشش نظرآتی ہے۔ کانشی رام کی تحریک میں دلت، پسماندہ، اقلیتوں اور کمزور استحصال شدہ طبقات کو اوپراٹھانے کی بات شامل تھی لیکن مایاوتی کی سیاسی نیتی سے چند دلتوں کو چھوڑ کر کسی کا فائدہ نہیں ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ جو کام کرتا ہے اس پر الزامات لگتے ہیں۔ ان کی پرواہ کئے بغیر کام کرتے رہنا ہوگا۔ کسی اختلاف کے ختم ہونے سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ سب ٹھیک ہوگیا۔ اختلافات تو سیاسی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے گزر کر ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔کیوں کہ جو اپنے نہیں ہیں انہیں جتنا چاہو اپنا لو وہ اپنے نہیں ہوں گے۔ کسی کا ساتھ اور سہارا ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس لئے اپنی راہ خود نکالنی ہوتی ہے۔ مرد عورتوں کو آسانی سے آگے نہیں بڑھنے دیتے لیکن مایاوتی کو جو مقام اورعوام کا یقین حاصل ہے اس کی بنیاد پر وہ لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے بڑا کام کرسکتی ہیں۔ ساتھ ہی دوسری قطار کی لیڈرشپ ابھار کر پارٹی کو استحکام دے سکتی ہیں۔
بہت کچھ ایسا ہے جو مایاوتی جے للتا سے سیکھ سکتی ہیں۔ وہ35برس تمل ناڈو کی وزیراعلیٰ رہیں لیکن کسی بھی وزیراعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دہلی کے چکرنہیں لگائے۔ وہ دہلی سب سے کم گئیں اس کے برعکس دہلی باربار ان کے پاس آئی۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی عوام کی طاقت۔ جس نے انہیں اماّبنایاتھا۔ اسی طاقت کی بنیاد پر اماّ نے سماج میں اختلافات کو جنم دینے والی کسی بھی طاقت کے ریاست میں پیر نہیں
جمنے دیے۔ کیا مایاوتی تمل ناڈو کے ماڈل کو سمجھ کراسے یوپی میں لاگو کرنے کا منصوبہ بناسکتی ہیں؟ کیا وہ عوام کے دلوں میں اپنے لئے وہ عزت پیدانہیں کرنا چاہیں گی جو جے للتا کی تھی۔ بھلے ہی وہ عام لوگوں سے نہ ملیں، میڈیا سے دور رہیں لیکن ان کی اسکیموں اور نیتوں کا فائدہ لوگوں کے چولہے یا ہاتھ تک پہنچ جائے۔ اگر مایاوتی ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو عوام ان پر لگنے والے آمدنی سے زیادہ دولت یا کرپشن کے الزامات کو ضرور نظرانداز کردیں گے اور انہیں باربار یوپی میں حکومت بنانے کا موقع دیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں بہن جی سے دوقدم آگے بڑھ کر اماّ بننا ہوگا۔ایسی اماّ جو عوام کی بھلائی کیلئے ریاست کی آمدنی کا بڑا حصہ خرچ کرنے کو تیار ہو،یوپی کے لوگوں کو ایسے شخص کا شدت سے انتظار ہے جو ان کی پریشانیوں کو سمجھے اور انہیں حق کے ساتھ عزت کی زندگی گزارنے کا راستہ فراہم کرے۔کیا مایاوتی ایسا کرسکیں گی؟ کیاو ہ یوپی کی اماّ بنیں گی یا پھر بہن جی بنے رہنا ہی پسندکریں گی۔(یو این این)
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔