اپوزیشن بے جان ، تو مودی پہلوان

محفوظ الرحمن انصاری
حالیہ نوٹ بندی سے پریشان اور تکلیف جھیل رہے عوام کی اکثریت مودی سرکار کو ہی کوس رہی ہے ۔ہزار اور پانچ سو نوٹوں کا انتظام کئے بغیر، اے ٹی ایم مشینوں کو ٹھپ کرواکر ،جس طرح آناً فاناً فیصلہ نافذ کیا گیا اس کی مثال کسی جمہوری ملک میں نہیں ملے گی ہاں ہٹلر اور مسولینی جیسا کوئی ڈکٹیٹر ایسے فیصلہ کرسکتا ہے اور ان لوگوں نے ایسے فیصلے کئے بھی لیکن اس کا انجام یہ ہوا کہ ملک کے ساتھ ہی انہوں نے خود بھی برے انجام کا سامنا کیا ۔ بہر حال دوہزار کے بڑے نوٹ اور وہ بھی محض ایک یا دو کے لئے عوام کو قطار میں ایسا لگایا گیا کہ کئی تو جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔
سرکار کی اس آمریت کے خلاف ڈھیلی ڈھالی کمزور اپوزیشن بھی برابر ذمہ دار ہے ۔کالے دھن کے نام پر پورے ملک کے عوام کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے بھی اپوزیشن کی تمام جماعتیں اسی ادھیڑ بن میں پڑی رہیں کہ احتجاج کریں یا نہ کریں ۔کریں تو کیسے کریں ۔مودی نواز میڈیا ہمارے احتجاج کو کہیں دیش دروہ قرار دے کر ہمیں ہی کٹہرے میں نہ کھڑا کردے ۔اپوزیشن کی اہم جماعتوں ،کانگریس ،راشٹر وادی کانگریس پارٹی،سماج وادی ،جنتا دل یونائیٹیڈ،راشٹریہ جنتا دل ،ٹی آر ایس ،وائی ایس آر کانگریس،جنتا دل سیکولر اور کمیونسٹ پارٹیوں کا ملک میں جیسے کوئی وجود ہی نہ ہو۔مراٹھی باشندوں کے نام پر توڑ پھوڑ کرنے والے راج ٹھاکرے مراٹھی باشندوں کو قطاروں میں پریشان اور مرتا دیکھ کر بھی خاموش رہے ۔دھرنا دینے اور بھوک ہڑتال کے لئے مشہور لیڈر گھروں میں آرام کرتے رہے ۔زیادہ تر نے ایک سطری بیان دے کر پلہ جھاڑ لیا ۔کچھ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے نوٹ بندی پر جو بھارت بند تھا ،اس سے زیادہ تو ہر اتوار کو بھارت بند رہتا ہے ۔اگر اروند کیجریوال اور ممتا بنرجی نہ ہوتے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ملک میں کہیں اپوزیشن بھی ہے۔
نوٹ بندی کے علاوہ بھی گذشتہ ڈھائی سال میں کئی مواقع آئے جب اپوزیشن کو مودی سرکار پر ٹوٹ پڑنا چاہئے تھا۔جیسے بے تحاشہ بڑھتی مہنگائی ،عوام سے صفائی ٹیکس وصول کرنا ، صفائی ٹیکس کو بجلی ،ٹیلی فون سمیت ہر خدمات کے بل سے جوڑا گیا۔حتیٰ کہ ایک غریب آدمی دس روپئے کا موبائل ریچارج کرواتا ہے تو اس میں بھی صفائی ٹیکس لگایا جاتا ہے ۔مگر اس کے باوجود کتنی صفائی ہو رہی ہے ۔گندگی کے ڈھیر اور بدبو دار نالوں سے عوام کو کتنی نجات ملی؟اس کے برعکس کئی جگہوں پر تو مین ہول کے ڈھکن جو برسوں سے غائب تھے اب بھی غائب ہیں ۔جھونپڑ پٹی کے غریب بھی موبائل ریچارج کے ذریعے ہی سہی صفائی ٹیکس دے رہے ہیں ان کی بستیوں میں کتنا سدھار ہوا ؟ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار نے صفائی ٹیکس کے نام پر عوام کے جیبوں کی صفائی کی ایک نئی راہ کھوج نکالی ہے ۔
اسی طرح مودی سرکار نے آتے ہی ریلوے کرایہ بڑھادیا تھا اور عوام کو یہ جھوٹی تسلی دی کہ مسافروں کی بہتر خدمات اور تکنیک سدھار کر ریلوے حادثات کی روک تھام کے لئے یہ ٹیکس لگایا گیا ۔مگر ابھی حال ہی میں ہوئے بھیانک ریل حادثہ میں 125 مسافروں کی موت ہو گئی اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔اس کے علاوہ ویاپم گھوٹالہ ،مودی کے بے مطلب کے بیرون ملک کے سیر سپاٹے کرکے عوام کے کروڑوں روپئے برباد کرنے ،مہاراشٹر میں بیل ذبیحہ بند کرکے کسانوں اور چمڑے کے کاروبار سے جڑے لوگوں کو برباد کرنے ،بھوپال کے فرضی انکاؤنٹر میں مسلم نوجوانوں کو قتل کرنے ،مودی سرکار کے وزیروں کے مسلمانوں کو گالیاں دینے ،عدام برداشت کے زہر کو پھیلانے اور آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے جیسے نہ جانے کتنے مواقع سرکار کو گھیرنے کے آئے مگر اپوزیشن مواقع گنواتی رہی ۔اسی لئے سرکار چین کی بنسی بجاتی رہی ۔
ماضی میں راجیو گاندھی کی سرکار کے پاس 415 ایم پی تھے مگر وی پی سنگھ نے اکیلے دم پر سرکار سے ٹکر لی اور اس محاورے کے الٹ کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا ،وی پی سنگھ نامی اکیلے چنے نے ایسا بھاڑ پھوڑا کہ 415 ایم پی والی مضبوط سرکار کو 1989 کے الیکشن میں عوام نے بھاڑ میں جھونک دیا ۔حتیٰ کہ کانگریس کو آج تک اکیلے دم پر مرکز میں حکومت بنانا نصیب نہیں ہوسکا۔لالو پرشاد،نتیش کمار،ملائم سنگھ،دیوے گوڑا،چوٹالہ،نوین پٹنائیک وغیرہ وی پی سنگھ کی ہی دین ہیں مگر وہ بات پیدا نہیں ہو رہی ہے ۔اتر پردیش اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں ۔ملائم سنگھ اور مایا وتی ایک دوسرے کے مخالف تو ہیں ہی ۔خود ملائم سنگھ اکھیلیش یادو،شیو پال یادوباپ بیٹا چچا بھتیجہ کی آپسی لڑائی گروہ بندی سیکولر ووٹوں کا ستیاناس کرکے بی جے پی کو ہی فائدہ پہنچائے گی ۔ سیکولر اپوزیشن پارٹیوں کے یہی رنگ ڈھنگ رہے تو 2019 میں بھی عوام کو 2024 کا انتظار کرنا پڑے گا۔ایسی صورتحال میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ  اپوزیشن بے جان تو مودی پہلوان ۔
 
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔