شباب روشن ہے

دانش اثری

کچھ اس طرح سے صنم کا شباب روشن ہے
کہ جس طرح سے چمن میں گلاب روشن ہے

میں تیرے حسن کو تشبیہ چاند سے کیوں دوں
کہ ماہتاب سے بڑھ کر نقاب روشن ہے

ترے نفس نے چمک ہائے کس سے مانگی تھی
کہ تیری پھونک سے پھوٹا حباب روشن ہے

نگاہ ناز اٹھا دیکھ ادھر گلے لگ جا
کوئی سوال تو کر تو ،جواب روشن ہے

نظر کسی کی کسی قمقمے پہ کیوں جائے
تری نظر سے چھلکتی شراب روشن ہے

خموش تھیں وہ نگاہیں کہ جیسے ہو صحرا
تمھاری چال میں راوی چناب روشن ہے

ترے وجود کو محسوس کررہے ہیں سبھی
یہ تیرا جلوہ ہے یا پھر سراب روشن ہے

مری غزل کو پڑھو اور آئینہ دیکھو
تمھارے حسن کا کامل نصاب روشن ہے

جنوں کی حد سے گزرنے لگا ہے دانش بھی
نگاہِ عشق میں صحرا کا باب روشن ہے

تبصرے بند ہیں۔