نریندر مودی اور پرینکا چوپڑا کی ملاقات!

عبدالعزیز

 نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں مگر عجوبہ شخصیت کے مالک بھی ہیں ۔ ان سے ایسی بے شمار چیزیں منسلک ہیں جو کسی ایک شخصیت سے شاید ہی منسلک ہوں ۔ ایک ایسا موضوع ہے جو ایک طویل مضمون میں تو دور کی بات ہے ایک کتاب میں احاطہ کرنا مشکل ہے۔

 ابھی مودی نے چھ دنوں میں باہر کے چار ملکوں کا طوفانی دورہ کیا۔ انہی دنوں میں امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کئی ملکوں کا دورہ فرمایا۔ ایک کا رخ مغربی ممالک تو دوسرے کا رخ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک اور اسرائیل کی طرف تھا۔ یقینا دونوں کے مقاصد الگ الگ تھے۔ ٹرمپ کے ساتھ ان کی بیٹی بھی دورہ میں شامل تھی جو سعودی عرب کے بادشاہ خادم الحرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز سے جس نے برہنہ سر کے ساتھ کھلے عام ہاتھ ملایا جو مسلم ملکوں میں شاذ و نادر ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے۔

 مودی کے دورہ کے موقع پر ہندستان کی ایک مشہورفلمی ہیروئن جسے اب بعض وجوہ سے انٹرنیشنل ہیروئن کہا جانے لگا ہے جس کا نام پرینکا چوپڑا ہے جو اپنی بے لباسی کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہے۔ اس کی ایک ملاقات برلن ہوٹل کے ایک کمرہ میں وزیر اعظم نریندر مودی سے بغیر کسی پروٹوکول اور ضابطہ یا کسی پیشگی پروگرام کے اچانک ہوئی ہے۔

  پرینکا چوپڑہ ہندستان کی ناری (عورت) ہے مگر وہ جس لباس میں اور جس طرز و ادا سے اپنے ملک کے ایک وزیر اعظم سے ملی ہے جوکبھی آر ایس ایس کا پرچارک رہ چکا ہے شاید کبھی پہلے نہ سوچا جاسکتا تھا اور نہ ہی جس تصور کیا جاسکتا تھا؛ حالانکہ اسے پابندیوں اور بندیوں کا ملک (Bans of Nation) کہا جانے لگا ہے۔

 وزیر اعظم سے ملاقات کی دو تصویریں سوشل میڈیا پر اس وقت پرینکا نے منظر عام کیا ہے۔ ایک مودی کے شاہ بشانہ کھڑی ہیں جیسے یورپین ممالک کی کوئی سربراہ ملک ہوں اور دوسری تصویر میں مودی جی ایک کرسی پر منہ پر ہاتھ رکھے حیرت زدہ انداز میں پرینکا کی طرف رخ کئے بیٹھے ہیں ۔ پرینکا کے چہرہ کا رخ مودی کی جانب ہے مگر جسم کا اور حصہ آمنے سامنے کے بجائے دوسری طرف برہنہ پیر پر پیر رکھے ہوئے نظر آرہی ہے۔ لباس کا دامن کرسی کے دونوں جانب اٹکا ہوا ہے۔ کرسی پر دونوں جانب اٹکے ہوئے کپڑے کے حصے سے پیر چھپ سکتا تھا ۔ شاید اس سے اس کی خوبصورتی اور کشش میں کمی آجاتی۔ مودی اپنے Suited Booted لباس میں ہیں اور Uncomfortable (غیر مطمئن) نظر آرہے ہیں جبکہ پرینکا اپنے چہرہ سے Comfortable (مطمئن اور پرسکون) دکھائی دے رہی ہیں ۔ پرینکا کے چہرہ پر ہلکی سی مسکراہٹ ہے مودی اپنے بند منہ پر بند مٹھی رکھے ہوئے کسی گہری سوچ میں ڈوبے نظر آرہے ہیں ۔ کچھ ایسا منظر ہے جس کی تصویر کشی فراق گورکھپوری نے اپنے محبوب کیلئے کیا تھا ؎

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں

 ٹوئٹر پر جو پرینکا نے ٹوئٹ کیا ہے ملاحظہ ہو:

’’نریندر مودی سر! آج کی صبح آپ نے ملاقات کا وقت دیا ، شکریہ! برلن جیسے شہر میں یہ حسن اتفاق و حسن انطباق ہے۔ وہ بھی ایسے وقت‘‘۔ اس وقت بعض نیوز چینل پر اور خاص کر سوشل میڈیا پر بہت سے تبصرے ہورہے ہیں ۔ مودی بھگت پرینکا پر تنقید کر رہے ہیں کہ اسے ذرا بھی شعور نہیں کہ اپنے بڑے بزرگوں سے کیسے ملنا چاہئے اور جو مودی کے وچاروں (خیالات) سے الگ ہیں اور اندھے ہوکر مخالفت کرتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ مودی کا بھی پیر جب آر ایس ایس کے پرچارک تھے توکھلے رہتے تھے۔ پھر پرینکا کیوں نہ پیر کھلے رکھے۔مودی کے بھگت پرینکا بلا وجہ کوس رہے ہیں کیونکہ پرینکا کو تو اپنے حسن کا پرچار کرنا ہی اس کا پیشہ اور فن ہے مگر وزیر اعظم، نریندر مودی کو سوچنا اور سمجھنا ہے کہ وہ اس عورت یا ہیروئن سے ملے یا نہ ملے جس کا لباس جس میں تین چوتھائی برہنہ ہو ، ایک چوتھائی پوشیدہ کہ جسم کے سارے نشیب و فراز سطحِ لباس پر نمایاں نظر آتے ہوں ۔ پرینکا فلمی دنیا کی نمائندہ ہے جبکہ وزیر اعظم، ملک ہندستان کی نمائندگی فرما رہے ہیں ۔ مودی جی ایسے موقع پر بھول گئے کہ وہ ملک وہ بھی ایک بہت بڑے ملک کی سربراہی اور نمائندگی کرنے کیلئے سفر پر نکلے ہوئے ہیں وہ شاید علامہ اقبال کے الفاظ میں ہندستانیوں کو جواب مرحمت فرما رہے ہیں  ؎

لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دو

یہ بات بہت دنوں تک چرچا میں ضرور رہے گی کہ آخر پرینکا کو کیا ضرورت آن پڑی کہ جرمنی کی راجدھانی برلن کی سرزمین پر وزیر اعظم مودی سے ملاقات کریں وہ بھی لباس نو میں جس میں وہ بیگانہ نظر آرہی ہوں اور مودی جی بھی پریشان و حیران ہوں مگر مودی جی اپنے ملک میں اتنے مشہور و مقبول اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ اب وہ جو کچھ کریں گے یا کرتے ہیں ان کے خلاف کوئی انگلی اٹھانے والا نہیں ہے اور ہے بھی تو ان کی صحت پر اور شہرت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ پرینکا کیلئے تو ایک طرح سے یہ اشتہار تھا جو اشتہار کا مقصد ہوتا ہے اس نے حاصل کرلیا۔ پی ایم او آفس سے ابھی تک ملاقات کا مقصد نہیں بتایا گیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم سے کوئی جب چاہے اور جیسے چاہے بغیر کسی پروگرام یا پروٹوکول کے مل سکتا یا مل سکتی ہے۔ اب کہا جاسکتا ہے کہ مودی کے راج میں سب کچھ ممکن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔