آزادی میرا پیدائشی حق ہے!

عبدالعزیز

 ہندو پاک کے تعلقات کو خوشگوار اور بہتر بنانے والوں میں سے دونوں ملکوں میں ایک جانا پہچانا نام ہے مسٹر اوپی شاہ کا جو ’’سنٹر فارپیس اینڈ پروگریس‘‘ کے چیئرمین ہیں ان کے مکان پر گزشتہ روز (7رمضان المبارک) ہر مذہب اور فرقہ کے  لوگ دعوت افطار میں مدعو تھے۔ بڑی شخصیتوں میں ہندستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل شنکر چودھری اور مشہور قانون داں اور سماجی کارکن جسٹس گنگولی تھے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ تھے۔ شاہ صاحب کے افطار کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ دین اسلام کے بارے میں تبادلہ خیالات سے جاننے کی کوشش کریں اور غلط فہمیوں کا معلومات کی روشنی میں ازالہ ہو۔ رمضان اور روزے کے متعلق بھی کچھ باتیں آجائیں ۔

ایک صاحب جو افطار کی دعوت میں شریک تھے جو اپنے آپ کو آئی پی ایس ریٹائرڈ کہتے ہیں ۔ پڑھے لکھے مسلمان بھی ہیں مگر انھوں نے محمد علی جناح کے سلسلے میں انتہائی بے تکی اور خلاف حق باتیں بیان کرنی شروع کر دیں یہاں تک کہہ گئے کہ جناح پاکستان میں اس قدر غیر مقبول اور معتوب تھے کہ کسی مولودی نے ان کی نماز جنازہ تک نہیں پڑھائی۔ شرکاء میں سے ہندو مسلمان سبھی نے ان کی باتوں کی مذمت کی اور ان کو اس طرح کی باتیں کرنے سے روکا۔ انھیں بتایا گیا کہ ایل کے اڈوانی جیسے پاکستان مخالف شخص نے دورۂ پاکستان کے بعد جناح کے سیکولرزم کی تعریف کی جس کی وجہ سے انھیں اپنے پریوار سے دشمنی مول لینی پڑی۔ یہ بات ضمناً تھی جو راقم نے بیان کر دی کہ ایسے بھی پڑھے لکھے مسلمان ہندستان جیسے ملک میں پائے جاتے ہیں جو غلط سلط باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور شاید ان کا مطلب کچھ ہو نہ ہو فرقہ پرستوں کے لب پر مسکراہٹ بکھیرنا ہو۔

 آج (4جون2017ء) ہندستان کے مشہور اور سب سے زیادہ شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’دی ٹیلی گراف‘‘ میں جناح اور تلک کے تعلقات اور دوستی پر گاندھی جی کے نواسے اور سابق گورنر گوپال کرشن گاندھی کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’تلک اور جناح ایک صف میں – آزادی حق کیلئے‘‘۔ گوپال کرشن گاندھی نے پہلے رابندر ناتھ ٹیگور کے ایک نظم کی ایک لائن بنگلہ کے لب و لہجہ میں انگریزی الفاظ میں لکھا ہے اور بتایا ہے کہ اسے کسی دیگر زبان میں پیش کرنا مشکل ہے پھر اس کا مطلب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے Where mind is without fear and the head is held high (جہاں دماغ آزاد ہو اورجہاں سربلند ہو)۔

 گوپال کرشن گاندھی نے لکھا ہے کہ ٹیگور نے خود ہی اپنے اس Verse کا انگریزی ترجمہ کیا ہے مگر جو بات اوریجنل زبان میں پیش کیا ہے اس کا مزا اور اس کی گرج کچھ اور ہی ہے۔ پھر انھوں نے لوک مانیاتلک کی ایک بات مراٹھی زبان کی انگریزی الفاظ میں پیش کیا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ’’سوراج (آزادی) میرا پیدائشی حق ہے، ہم اسے لے کر رہیں گے‘‘۔ تلک نے یہ بات 1916ء میں کہی تھی جس کا مطلب تھا ملکی حکمرانی (Home Rule) کے اصول کو پھیلانا۔ تلک مراٹھی زبان کے آدمی تھے۔ انھوں نے پہلے احمدنگر میں یہ بات کہی پھر ایک ماہ بعد بلگام میں بیان کیا ۔ گوپال کرشن گاندھی نے لکھا ہے کہ برطانوی حکومت تلک کے اس بیان کو ملک اور حکومت کی غداری پر محمول کیا گیا۔ غداری والی دفعہ جسے Sedition Act 124A کہتے ہیں کے تحت ان پر فرد جرم عائد کیا۔ حکومت سوراج یا آزادی کی بات کہنا غداری اور بغاوت ہے۔ آگے کرشن گاندھی لکھتے ہیں کہ تلک کے مقدمہ کی جو شخص پیروی یا وکالت کررہا تھا وہ مراٹھی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا تھا نہ ہی اس کے والدین اس زبان سے واقف تھے لیکن وہ شخص Self Rule (اپنی حکمرانی) Home Rule (ملکی حکمرانی) سے اچھی طرح سے واقف تھا اور اسے معلوم تھا کہ Sedition یا غداریِ ملک کسے کہتے ہیں ۔ وہ تلک کو بھی اچھی طرح سے جانتا تھا یہ محمد علی جناح کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا بعد میں جو تحریک تقسیم ہند کا سربراہ ہو اور پاکستان جیسے ملک کا بانی۔ 1908ء میں جناح تلک کو جیل سے رہا نہ کراسکے، انھیں چھ سال کی سزا کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

کرشن گاندھی نے آگے لکھا ہے کہ وی کے باران والا(V.K. Baran wala) نے ’’ملک کا ایک راج کمل‘‘ کے عنوان سے جناح کی سوانح حیات پر  کتاب لکھی۔ وی کے باران والا لکھتا ہے کہ’’اس بار جناح قانون کی روشنی میں اپنی غیر معمولی وکالت سے مانیا تلک کو تمام عائد کردہ الزامات سے با عزت بری کرانے میں کامیاب ہوگئے اور غداری اور بغاوت کے الزام کو غلط ثابت کیا‘‘۔ یہ مقدمہ تھا امپیرر (Emperor) بنام بال گنگا دھر تلک جو 9 نومبر 1916ء میں لڑا گیا تھا۔ بمبئی ہائی کورٹ کے بیچلر اوران کے ساتھی جج شاہ جی نے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا۔ فیصلہ میں لکھا گیا تھا کہ گنگا تلک دھر کے سوراج کا مطلب تھا کہ ملک کے عوام کو زیادہ سے زیادہ حکمرانی میں شراکت اور ان کے سیاسی اختیارات میں حصہ داری تاکہ ملک کے عوام بھی اپنا حق ادا کرسکیں ، لہٰذا ہمارے خیال سے یہ نہ غداری ہے اورنہ ہی قانون شکنی کے مترادف ہے‘‘۔ یہ فیصلہ جس قدر مشہور ہوا اسی قدر تلک کی یہ آواز کہ ’’آزادی میرا پیدائشی حق ہے ‘‘ بھی مشہور ہوا۔ اس سے بھی کہیں جو چیز مراٹھیوں میں مشہور ہوئی وہ جناح کی غیر معمولی وکالت انھیں نہ صرف تلک نے اچھے اور بہترین الفاظ اور جملوں میں خطاب کیا ہے بلکہ عوام الناس نے بھی جناح کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور مراٹھی میں ان پر کتابیں لکھی گئیں ۔

  آخر میں گوپال کرشن گاندھی نے آج کے حالات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جس غداری کے قانون کی دفعہ کو انگریزی راج میں بھی جناح جیسے وکیل نے غلط ثابت کیا تھا آج ہمارے جج اور حکمراں اسے صحیح اورجائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جو اظہار آزادی کے بغیر نفرت اور تشدد کے اسے کسی طرح بھی غداری یا بغاوت سے نہیں جوڑا جاسکتا چاہے وہ کسی پارٹی یا فرد کو جتنا بھی ناگوار معلوم ہو۔ تلک اور جناح کے خیالات مختلف تھے مگر آزادی کے معاملہ میں ایک تھے۔ ٹیگور،گاندھی، نہرو، پٹیل، خان عبدالغفار خان، ابوالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس، نمبودری پد سب کا یہی خیال تھا۔ ان قدروں کا باقی رکھنا ضروری ہے۔ انھیں تبلیغ و تشہیر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ گنگا دھر تلک کے خوابوں کے ہندستان کو کوئی فرد یا پارٹی چکنا چور نہ کرسکے اور ہمارا ملک ایسا ہو جہاں دل و دماغ آزاد ہو اور ہر انسان سر اٹھاکر چل سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔