نریندر مودی کا اصلی چہرہ

عبدالعزیز

  گجرات کے وزیر اعلیٰ ہونے کے پانچ مہینہ پہلے (2001ء میں ) نریندر مودی نے ایک مذاکرہ میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں نے دنیا کو تین حصے میں تقسیم کیا ہے۔ ایک حصہ کو دارالسلام کہتے ہیں جہاں اسلامی شریعت نافذ ہے، دوسرے حصہ کو دارالامن کہتے ہیں جہاں وہ آسانی سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرتے ہیں اور تیسرے حصہ کو دارالحرب کہتے ہیں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام مخالف طاقتیں ہیں وہاں لڑ بھڑ کر، جنگ و جدل کرکے اسلام کو غالب کرنا چاہتے ہیں ۔ ہندستان جیسے ملک کو وہ دارالحرب میں شمار کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ یہاں کے باشندوں سے جنگ آزما ہیں ۔ یہ ویڈیو فیس بک میں وائرل کی گئی ہے جس میں ان کی پوری تقریر سنی جاسکتی ہے۔ گورنر تریپورہ نے نریندر مودی سے بالکل ملتی جلتی بات کہی ہے۔  گورنر تریپورہ تتھا گت رائے نے ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے حوالہ سے کہا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جنگ کے ذریعہ ہی فیصلہ کن بات ہوسکتی ہے۔

  نریندر مودی جی وزیر اعلیٰ ہونے سے پہلے آر ایس ایس کے پرچارک تھے۔ آر ایس ایس کے گرو گولوالکر کی ایک کتاب "The Bench of Thoughts” ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کے ہر صفحہ اور عبارت میں زہر اگلا ہے کہ مسلمان شاطر اور جھگڑالو ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ پر کیچڑ اچھالتے ہوئے کہاکہ مولانا آزاد، محمد علی جناح سے بھی شاطرانہ ذہن رکھتے تھے۔ کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوؤں کے دشمن ہوتے ہیں اور وہ ہندستان جیسے ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے۔ نریندر مودی ہو یا تتھا گت رائے ہوں ان کو آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں یہی تعلیم دی جاتی ہے۔ آج جو پورے ہندستان میں سنگھ پریوار کے شرپسند عناصر مسلمانوں کے درپے ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی ٹریننگ اور تربیت آر ایس ایس نے کی ہے۔ آج نریندر مودی اور ان کے رفقاء کار ملک کو ہندو راشٹر (ہندوؤں کی حکومت) بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو وہ ہندو راشٹر بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ، اس لئے ان کا منصوبہ ہے کہ اگر وہ سیدھے طور پر نہیں مانتے ہیں تو ٹیڑھے طور پر ان کو ماننا پڑے گا؛ یعنی ملک میں ان کے خلاف ایسی فضا یا ماحول پیدا کر دیا جائے گا کہ وہ مجبوراً آر ایس ایس کے ایجنڈے کو ماننے پر مجبور ہوں گے۔ سبرامنیم سوامی نے کھل کر کہا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا جائے گا تاکہ وہ آسانی سے پسپائی قبول کرسکیں گے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں دو سال پہلے لکھا تھا کہ مسلمانوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دینا چاہئے جب تک کہ وہ ملک کے وفادار نہ ہوجائیں ۔

 یوگی ادتیہ ناتھ جیسے شخص کو اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں وزیر اعلیٰ بنانے کا مطلب ہی یہی ہے۔ ایسے لوگ آر ایس ایس کیلئے زیادہ کام کے ہیں یا اس کے منظور نظر ہیں جو مسلمانوں کو کسی طرح بھی قبول نہیں کرتے بلکہ ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں ۔ یوگی کو کیرالہ بھیجا گیا تھا جہاں انھوں نے شر انگیز تقریریں کیں ۔ اب ان کو گجرات کے الیکشن کے میدان میں بھیجا جارہا ہے تاکہ وہ ووٹوں کو پولرائزڈ (Polurized) کرنے میں کامیاب ہوں یعنی ہندوؤں کو بی جے پی کیلئے پورے طور پر اکٹھا کرسکیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یوگی کی عمر صرف 45 سال کی ہے جبکہ نریندر مودی 67سال کے ہوگئے ہیں ۔ دو تین سال بعد ان کی عمر ریٹائرمنٹ کے لائق ہوجائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آر ایس ایس ایل کے ایڈوانی جیسے فائر برانڈ کی جگہ ان کے چیلے نریندر مودی کو لایا جو ان سے بھی زیادہ شعلہ بیان ہیں اور یوگی اور مودی سے زیادہ زہر اگلنے اور جارحانہ باتیں کرنے میں مشہور ہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ مودی کا کرشمہ آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے۔ ان کی جگہ یوگی کو لانے کی پوری تیاری ہورہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2019ء میں سنگھ پریوار کی طرف سے مودی وزیر اعظم کے امیدوار بنائے جاسکتے ہیں یا یوگی کے نام پر اتفاق ہوتا ہے۔

میرے خیال سے یہ سلسلہ سنگھ پریوار میں چلتا رہے گا ۔ ایڈوانی سے بڑھ کر مودی اور مودی سے بڑھ کر یوگی جیسے لوگ آتے رہیں گے۔ فی الحال مودی اپنی پارٹی میں غالب ہیں اور ملک میں تنہا سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔ ایسی حالت میں 2019ء تک ہر وہ کام کرنے کی کوشش کریں گے جس سے وہ دوبارہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ سکیں اور ہندو راشٹر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر بنانے میں کامیاب ہوسکیں ۔ سنگھ پریوار کے ایجنڈے کے خلاف آہستہ آہستہ سیاسی میدان میں اتحاد کی کوشش ہورہی ہے۔ اگر یہ کوشش بھر پور طریقہ سے کامیاب ہوتی ہے تو ہندو راشٹر کا سپنا پورا نہیں ہوگا۔ غیر سیاسی میدانوں میں بھی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے تاکہ جو سنگھ پریوار والے فساد و فتنہ برپا کرتے ہیں وہ برپا نہ کرسکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔