نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

محمد انس فلاحی سنبھلی

نماز دین کا بنیادی ستون ہے ،عبدیت کا مظہر ہے۔ یہ بندے اور معبود کے درمیان ربط و تعلق کی پہچان اور علامت ہے ۔ جہاں اس کی ادائیگی پر بے شمار فضیلتوں کاذکر ہے وہاں اس سلسلے میں کوتاہی اورسستی پر بھی شدیدوعیدیں سنائی گئی ہیں ۔

زیرِتعارف ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کی اس کتاب پر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب(سکریٹری ،ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ)، استاذمحترم مولانا مفتی ولی اللہ مجید قاسمی صاحب (جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ) اور قاری حنیف ڈار (ابو ظہبی) کےعلمی تبصرے کے بعد اب کسی تبصرے کی گنجائش ہے اور نہ ہی یہ میرا مقصود ہے۔

کتاب ایسی دلچسپ ہےکہ دل چاہتا ہے اس کا ہر جگہ تعارف ہو اور ہر جگہ تذکرہ ہو ۔ اس لیے اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس کتاب کا مختصر تعارف اور انتخاب پیش خدمت ہے۔

نماز ایک ایسی عبادت اور ایک ایسا عمل ہے جو متواتر چلا آرہا ہے ۔اس کی جو بھی شکلیں امت میں رائج ہیں وہ سب کی سب عملی تواتر سے ثابت ہیں ۔ یہ اس کتاب کا مدعا اور خلاصہ ہے۔نماز اتحادِامت کا ذریعہ ہے اور یہی نماز اختلافات کا سب سے بڑاسبب بنا دی گئی ہے، یہ اس کتاب کا شکوہ ہے ۔

نماز امت کو عملی تواتر کے ذریعے ملی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ پھر نماز کی مختلف شکلیں کیوں کر نظر آتی ہیں ؟نمازیوں میں نماز کو لے کر اختلاف کیوں ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں صاحبِ کتاب رقمطراز ہیں :

"اللہ کے رسولؐ نے امت کو نماز کا طریقہ سکھایا، اس طریقے میں کچھ اعمال ایسے تھے جنہیں سب کے لیے ہمیشہ کی طرح سے انجام دینا ضروری تھا، اور ان میں تنوع کی کوئی  گنجائش نہیں تھی، جیسے دوبار سجدہ کرنا، اور ایک بار رکوع کرنا، فجر میں دور کعتیں اور مغرب میں تین رکعتیں پڑھنا۔

تاہم نماز کے کچھ اعمال ایسے تھے ، جن میں تنوع کی گنجائش تھی،ان کو اللہ کے رسول ؐنے ایک سے زائد طرح سے انجام دیا، اور امت نے بھی ایک سے زائد طرح سے انجام دینا سیکھا۔ چنانچہ ہر مسلمان کے لیے گنجائش تھی کہ وہ جب چاہے نماز کے ان متعدد مسنون طریقوں میں جو طریقہ چاہے اور جب چاہے اختیار کر لے، جب چاہے آمین  آواز کے ساتھ کہہ دے اور جب چاہے آمین بلا آواز کے کہے، یہ گنجائش نہیں رکھی کہ تشہد کوئی آواز کے ساتھ پڑھے اور کوئی بنا آواز کے، لیکن تشہد کئی طرح کے سکھائے، کہ جس کا جی چاہے وہ کوئی ایک تشہد پڑھ لے”۔ص16-17

عام آدمی کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کہ مسنون نماز کے ایک سے زیادہ طریقے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اس کا جواب ڈاکٹر محی الدین غازی  صاحب یہ دیتے ہیں کہ : "رسول ؐ ایک عمل کو مختلف طریقوں سے انجام دیا کرتے تھے، کبھی یہ بتانے کے لیے ان میں سے ایک عمل جائز ہے، اور ایک عمل افضل ہے، اور کبھی یہ بتانے کے لیے یہ سارے طریقے یکساں فضیلت والے ہیں ، اور سب طریقوں میں خوبی ورعنائی ہے "۔ص30

"نماز کا طریقہ اور احادیث اور روایات” کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں :”امت نے نماز پڑھنی قولی روایتوں سے نہیں سیکھی، بلکہ ان روایتوں کے بغیر سیکھی اور ان متواتر عملی روایتوں کے ذریعے سیکھی، جن کی حیثیت متواتر عملی سنت کی ہے قولی روایتیں تو بسا اوقات ایک راوی سے ایک دو راویوں تک پہنچیں ، مگر نماز ساری امت سے ساری امت تک پہنچی۔ گویا امت نے نماز راویوں سے نہیں سیکھی بلکہ نمازیوں سے سیکھی جن میں یہ راوی بھی شامل تھے”۔ص32

آگے اس اشکال کا بھی ازالہ کردیا ہے کہ نماز کے جس  عمل پر زیادہ روایتیں ہیں وہ زیادہ افضل یا زیادہ صحیح ہے، لکھتے ہیں : "صحیح روایتیں سر آنکھوں پر، مگر ان کا حوالہ دے کر امت کے تعامل سے آئی ہوئی نماز کو غلط کہنا صحیح نہیں ہے۔ ہمارا یہ رویہ ہونا چاہیے کہ رفع یدین بھی عملی تواتر سے ثابت ہے اور رفع یدین نہ کرنا بھی تواتر عملی سے ثابت ہے، دونوں سنت کے مطابق ہیں ، اتفاق سے ایک عمل کے حق میں بہت زیادہ روایتیں ہیں اور ایک عمل کے حق میں کم روایتیں ہیں ، اگر دونوں میں سے کسی ایک کے حق میں کوئی روایت نہیں ہوتی تب بھی یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ان کاعمل سنت سے ہٹ کر ہے، کیونکہ ان کے عمل کی پشت پر بھی عملی تواتر کی زبردست دلیل موجود ہوتی ہے "۔ص33

  رفع یدین کے معرکہ آرا  مسئلے کو جس خوبصورتی سے بیان کیا اور اس کے ذیل میں جو کچھ لکھا ہے اگر لوگ اس حقیقت سے واقف ہوجائیں تو یہ بات یقینِ کامل کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے آپسی اختلافات صرف کم ہی نہیں ہونگے بلکہ بڑی حد تک ختم ہو جائیں گے۔

"حیرانی اس بات پر ہے کہ جب صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام کا عمل دونوں رہا ہے تو کسی ایک عمل کو دوسرے پر راجح قرار دینے کے لیے مجتہدین کوشاں کیوں ہوگئے، کیوں نہ ایسا ہوا کہ چونکہ دونوں طریقوں پر صحابہ کرام اور تابعین عظام کا عمل رہا ہے اس لیے دونوں طریقوں کو درست اور سنت کے مطابق قرار دیا جاتا ، لیکن افسوس جس حقیقت کو اتحاد واتفاق کی مضبوط بنیاد بننا تھا وہی اختلاف وافتراق کی وجہ بن گئی” ۔ ص 41

  آخیر میں مصنف ِکتاب نے اِس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نماز کی شکل پر جھگڑے کرنے کے بجائے کیفیت پر توجہ دی جائے کیونکہ نماز میں خشوع و خضوع، انابت الی اللہ نہ ہو تو کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جائے مقصودِ نماز حاصل نہیں ہو پائے گا۔

اس کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ایک ہی سال کے  مختصر عرصے میں اس کے پانچ ایڈیش منظر عام پر آچکے ہیں ۔اس کتاب کی اہمیت و فادیت کے پیش نظر ہی استاذ محرم مولانا مفتی ولی مجید قاسمی صاحب نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ اس کتاب کا جلداز جلد دیگر زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے ۔ اللہ مصنف کی اس علمی کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے قلم کو ایسے ہی امت کے لیے نفع بخش بنائے ۔

2 تبصرے
  1. tabish shamsh کہتے ہیں

    may i know book name plz. u did’t mention book name

    1. محمد أنس فلاحی سنبھلی کہتے ہیں

      نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

      ہی کتا ب کا نام ہے.

تبصرے بند ہیں۔