نشہ کا بڑھتا رجحان: مسائل اور کرنے کے کام

بشریٰ ناہید

بھارت کی خواتین میں نشہ خوری کا مرض بہت کم پایا جاتا ہے۔ صرف ہائر کلاس کی چند خواتین اور جنگل میں رہنے والی کچھ خواتین نشہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔ منشیات کے استعمال کا شوق یا عادت عموماً مردوں میں نظر آتی ہے۔ لیکن اب بچے بھی اس کا شکار ہورہے ہیں۔ جب کوئی مرد یا بچہ نشہ کرنے لگتا ہے تو اس کے خراب اثرات و نتائج سے عورت کوہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان دونوں کا سابقہ خواتین سے ہی رہتا ہے۔

 دورِ جدید میں نشہ کیلئے کئی اقسام دستیاب ہیں، اگر کسی نشہ آور چیز کا استعمال جانتے بوجھتے یا انجانے میں کیا جائے تو انسان دھیرے دھیرے اس کا عادی بنتا چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں سے زیادہ  برادرانِ وطن اس میں  ملوث پائے جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس کی برائیاں،  جسمانی ذہنی  معاثی خاندانی نقصانات، معلوم ہونے کے بعد بھی، اسلام میں حرام قرار دیئے جانے کے باوجود آخر انسان اسکا عا دی کیوں بنتا ہے۔ اسکی مختلف وجو ہات ہے جیسے ابتدا ء میں خوشی ملنے پر، بہت زیادہ غم، صدمہ، مختلف تہواروں کے موقع پر، دوستوں کے ساتھ انجوائے کرنے کی غرض سے، کسی کامیابی کے حصول پر، بیوی کی بے وفائی، رشتہ دارو ں کی بے اعتنائی، منافع حاصل ہونے پر، معاشی نقصان کے وقت، مختلف ڈیز منانے کے لیے وغیرہ جیسے مواقع پر پہلی پہلی بار نشہ کیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ طلب بن جاتی ہے۔

ملت میں یہ وباء اس لیے پنپنے لگی کہ ہمارے پاس  ماضی میں اردو کے بعض نامور شعرائے کرام نے اپنی شاعری میں بڑے د لکش پیرائے میں اور خوبصورت الفاظ کا استعمال کرکے شراب کو فروغ  دیا ہے۔

بے پئے ہی شراب سے نفرت

یہ  جہالت  نہیں  تو  پھر  کیا  ہے

(ساحر لدھیانوی)

ذوق جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملّا

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

(ابراہیم ذوقؔ)

ایک شاعر نے تو کھلے الفاظ میں کہہ دیا   ؎

ہوئی مہنگی بہت ہی شراب تو

تھوڑی تھوڑی پیا کرو

یہ اور اس طرح کے بے شمار اشعار ہے جس میں صراحی، مئے، جام، مینا، ساقی کا ذکر ہے۔ ان الفاظ کی تاویل اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ ذو معنی الفاظ ہے اور حقیقی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔ لیکن عام، کم پڑھے لکھے مسلمان ان اشعار کی تشریح اور ذومعنویت کو نہیں سمجھ سکتے جس کے باعث اس طرح کی غزلیں اور اشعار سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر شراب  و نشہ کے لیے ان کے دلوں سے کراہت ختم ہوگئی۔

اس کے علاوہ بھارت میں غیر مسلموں کے ساتھ رہتے رہتے اور سیکولرزم کا دم بھرتے بھرتے غیر اسلامی تہذیب کے اثرات بعض مسلمانوں پر اس طرح پڑے کہ و ہ شراب و نشہ کو حرام نہیں بلکہ معمول کے استعمال کی چیز، یعنی مشروب کی ایک قسم سمجھنے لگے۔ بعض گھرانوں میں خود کو ماڈرن ثابت کرنے کے لیے بھی اور فیشن کے طور پر بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔

عرب ممالک میں اگر کوئی نشہ کرتا ہے تو اس کے لیے قتل کی سزا مقرر ہے۔ ہمارے ملک میں اگر چہ پوری طرح اس پر پابندی نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر کسی شہر کی 50%فیصد خواتین اس کے خلاف احتجاج کرتی ہیں تو اس شہر میں شراب پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ گجرات، بہار، اور ناگالینڈ میں شراب پر پابندی ہے۔

آگرہ کے پناہٹ قصبے کے گاؤں میں مہاپنچایت ہوئی جس میں سبھی سماج کے لوگوں نے یہ طے کیا کہ کسی بھی قسم کا نشہ کرنے پر 5100روپے جرمانہ دینا ہوگا اور جو نشہ خور کی نشاندہی کرے گا اسے 1100روپے انعام دیا جائے گا۔ اس مہا پنچائیت میں 20 گاؤں کے لوگ شامل تھے۔ اس طرح  کل  20 گاؤں میں شراب بند ہوگئی۔

جب بھی کسی گھر کا فرد اس خباثت میں مبتلا ہوتا ہے تو پورا گھر اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ نشہ خور حالت نشہ میں ہوش و حواس کھوبیٹھتا ہے۔ گالی گلوچ، مارپیٹ، گھر کے لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہے۔ رشتوں کی حرمت کا احساس نہیں رکھتا، بہت سے جرائم نشہ کی حالت میں سرزد ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی نشہ کی اشتہا کو پوری نہ کرسکا تو چوری، ڈکیتی، یہاں تک کہ قتل تک کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی، نوٹ بندی کے بعد سے کاروبار کا مند پڑ جانا، GSTوغیرہ سے نہ صرف چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے اور ملازمت پیشہ افراد بلکہ بڑے سے بڑے کاروبار پیشہ افرا د بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ ایک سلجھی ہوئی خاتون  اپنے گھر کو امن و سکون کا گہوارہ بناسکتی ہے۔ اور ایک خاتون ہی اپنی خامیوں و کمزوریوں کے باعث گھر کو جہنم کا ایندھن بناسکتی ہے۔ مرد معاشی بدحالی کا شکار ہوجائے تو ایک مومن، مسلم وفاشعار خاتون اخلاقی سپورٹ فراہم کرتی ہے۔ کفایت شعاری و قناعت کے ساتھ گھر چلاتی ہے۔ فضول خرچی و اصراف سے دوررہتی ہے۔ اپنی غیر ضروری ضرورتوں و خواہشوں کی تکمیل کے لیے پریشان نہیں کرتی۔ بلکہ خواہش، ضرورت او راہم ضرورت کے فرق کو سمجھتی اور اسی حساب سے گھر کا انتظام چلاتی ہے۔ اگر خواتین توکل سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ ہر پریشانی سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمادے گا اور ان کا اخلاقی تعاون حاصل نہیں ہوگا تو مرد بری صحبت میں پڑکر خراب عادتو ں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جس سے خواتین کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہ ایک پہلو ہے لیکن خواتین کے مسائل کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے جس میں عام طور پر متو سط و غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والی خواتین مبتلا ہوتی ہے ان کے مسائل نہایت تکلیف دہ ہے۔ وہ گھر کے اخراجات کی تکمیل کے لئے کماتی ہے اور شرابی شو ہر اپنے نشے کے لئے کھبی روپئیے چرا کر اورکبھی چھین کر لے لیتا ہے، اکثر مرد لوگوں سے چھپاکر نشہ خوری کرتے ہیں۔ کسی کو بتانے کی صورت میں عورت کو خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکی ملتی ہے۔ اب معاشی و دیگر پریشانیوں کے ساتھ اس نشہ خور مرد کے ستم کو خاموشی سے سہنا عورت کی مجبوری بن جاتا ہے۔ اکثر  اسکے نتیجے میں طلاق و خلع کے واقعات ہوتے ہیں بعض  خواتین  غلط عا دتوں کی شکار ہو جاتی ہیں،  یا  نا غیر مردوں سے ناجائزتعلقات استوار کرنے لگتی ہیں۔  اس لیے اسلام نے نشہ کو حرام قرار دیا ہے اسے ام الخبائث یعنی برائیوں کی ماں کہا گیا ہے۔

اگر اس مرض کا شکار بچے ہوجائیں تب بھی خواتین کو پریشانیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ بچوں کی صحت متاثر ہوتی ہے، عادتیں بدل جاتی ہیں۔ انسانیت، ہمدردی، خلوص، رشتوں کا تقدس، زندگی میں کچھ کرنے کی لگن و امنگ ان میں باقی نہیں رہتی۔ مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ بچوں میں نشہ خوری کی عادت پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں جیسے غلط دوست، بری صحبت، والدین کی جانب سے بے جا آزادی، بہت زیادہ پاکٹ منی کا ملنا، بہت زیادہ غربت، انٹرنیٹ و موبائل کا غلط استعمال وغیرہ۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی عادت و اطوار اوران کی حرکتوں پر نظر رکھیں۔ ان کی مصروفیت کیا ہے اس کا علم رکھیں، دوستوں سے واقفیت حاصل کریں۔ اپنے بچوں کو دوستانہ ماحول فراہم کریں، تاکہ وہ بے تکلفی سے اپنے دل کی بات کرسکے، ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں۔ غلط اور صحیح کا شعور پیدا کریں۔ منشیات کے نقصانات بتائیں۔ نشہ کے تعلق سے اسلام کا نقطہئ نظرواضح کریں۔

ہم چاہتے ہیں کہ نشہ خوری کی تمام واضح اقسام پر پابندی عائد ہوجائے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن صرف پابندی آنے سے ہم نسلوں کی حفاظت نہیں کرسکتے، کیونکہ جو روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء ہے انہیں توہم بند نہیں کرواسکتے  لیکن اگر  ملت کی مائیں اور بہنیں  اپنے خاندان میں خوفِ خدا، آخرت کا ڈر، اللہ کے حضور جوابدہی کا احساس پیدا کرنے کی کو شش کریں تو کم از کم اپنے گھر وں کو اس خباثت سے بچایا جا سکتا ہے۔، اپنے بچوں کو   دورِ نبوت میں صحابہؓ کا ایک حکم پر پوری طرح سے شراب بند کردینا، یہاں تک کہ اپنے حلق سے کراہت سے نکالنا شراب کا حرام ہونا اس کے ہر اعتبار سے ہو نے والے نقصانات وقتا فو قتا بتاتے رہنا ھوگا  تاکہ منشیات کیلئے کبھی بھی ان کے دل میں رغبت پیدا نہ ہونے پائے۔ ورنہ جس طرح بڑے چائے یا پان کے عادی ہوجاتے ہیں، اسی طرح بچے بھی ان نشہ آور چیزوں کو چائے یاپا ن کی طرح عادت سمجھ کر اس میں ملوث ہوتے رہیں گے۔ مسلمانوں سے زیادہ ہماری ہم وطن بہنیں مردوں کی نشہ خوری کی وجہ سے بہت سے مسائل و پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ مل کر اس نشہ خوری کے خلاف آواز اٹھائیں تو بڑے پیمانے پر اس کی روک تھام ہوسکتی ہے اور بہت سے گھروں کے سکون کوواپس لوٹایا جاسکتا ہے؎۔

نشہ پلاکے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزا توجب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

تبصرے بند ہیں۔