نصابِ تعلیم کو عصری تقاضوں سے مربوط کرناضروری ہے

تعلیم کا لفظہ عربی زبان سے ماخوذ ہے ۔تعلیم کو انگریزی میں (Education) کہاجاتاہے یہ لفظ لاطینی زبان کے دو الفاظ Educare یا Educere سے لیا گیاہے ۔Educare کے معنیٰ بچے کو جسمانی اور ذہنی طور پر پروان چڑھاناہے اور Educere کے معنیٰ اُبھارنا، رہنمائی کرنا ،پروان چڑھاناہے۔
اسی کے ساتھ یہ بتانابھی ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصدانسان کی نشوونمااور اس کی ذات کو کامل بناناہے، تاکہ معاشرۂ سماج کی انسانی اقدار،مذہبی اور اخلاقی کردار کی رہنمائی مکمل طور پر کی جاسکے، نیز کائنات کی حقیقتوں خدا کی ربوبیت سے بھی تعلیم یافتہ سماج کو متصف کیاجاسکے۔ اگر تعلیم کامقصد صحیح سمت میں متعین ہوجائے توہماری سوسائٹی اقتصادی ، معاشی اور سیاسی پسماندگی سے نکل کر تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جوفطری قوتیں و دیعت فرمائی ہیں۔ وہ سب اس کے لئے نہایت ضروری اور کارآمدہیں ان کو پروان چڑھانا،ملک کا اچھا شہری بننا، اچھے بُرے میں امتیاز کرنا، باطل افکارونظریات کاشکار نہ ہونا، پاکیزہ کردار و سیرت کا حامل بننا، انفرادی عائلی معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کاصحیح علم اور انہیں انجام دینے کی تربیت کرنا، سماجی تعلقات کو استوار کرنا، اولاد اور خاندان کی پرورش بہتر خطوط پر انجام دینا۔یہ اور ان جیسے دیگراہم امور مہذب اور تعلیم یافتہ طبقہ ہی انجام دے سکتاہے کیونکہ تعلیم ہی وہ زیور ہے جو سماج کو مہذب باکردار بااخلاق اور مذہبی امور کاپابند بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اسی وجہ سے امام غزالی نے تعلیم کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے کہ ’’تعلیم انسانی معاشرہ میں بالغ ارکان کی اس جدوجہدکانام ہے جس سے آنے والی نسلوں کی تربیت زندگی کے نصب العین کے مطابق ہو‘‘۔ اس طور پر لوگوں میں نیکی اور بدی کی تمیز اجاگر ہوتی ہے اور فردمعاشرہ بہتر زندگی گزار سکتاہے ۔
شاہ ولی اللہ ؒ نے فرمایاکہ تعلیم فطری شعور کی تربیت سازی کانام ہے تاکہ انسان عقل کے ذریعہ حقائق تک پہنچ سکے۔
یونانی فلسفہ کے ماہر افلاطون نے لکھاہے کہ’’ تعلیم سے مراد تربیت سازی، کردار سازی ہے جو مناسب عادات کے ذریعہ بچوں میں نیکی اور اچھائی کی طرف لے جانے کی رغبت و خواہش پیداکرے‘‘۔
ارسطو نے لکھاہے کہ’’ تعلیم کا مقصد لوگوں کی خوابیدہ اور پوشیدہ جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاناہے نیز تعلیم سے مراد صحت مند معاشرہ میں صحت مند ذہن پیدا کرنے کا عمل ہے۔
ان تمام افکار و خیالات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے تعلیم کا بنیادی کردار صحت مندمعاشرہ کو تشکیل دیناہے۔ جو اوصاف حمیدہ، تعمیر و ترقی ، روشن خیالات، صالح فکر، دوربینی معاملہ فہمی و انسان دوستی ، بقائے باہم، اتحاد و اتفاق ، قومی یکجہتی جیسی اہم روایات کا امین و پاسبان ہو، حصولِ تعلیم کے بعد اگر اخلاقیات،معاملات، عبادات اور معاشرت جیسی بنیادی چیزوں میں گراوٹ آجائے یا ان کی ادائیگی کو خوش اسلوبی ،خندہ پیشانی سے نہ نبھایاجاسکے۔ تو تعلیم کا مقصد ضائع ہوگیااورپھر اس کے اندر قوم وملک، جذبۂ خیرسگالی انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کا تعاون وغیرہ کے جذبہ سے خالی ہوکر مفادپرستی ، مادہ پرستی ، اور ابن الوقتی کے جال میں پھنس جاتاہے جو دھیرے دھیرے تمام معاشرہ کو اپنی زد میں لے کر تباہی کے دھانے پر پہنچادیتاہے۔
اس ضمن میں یہ عرض کردوں کہ آج ہمارے نصاب تعلیم کے حوالے سے بڑی بحث چھڑی ہوئی ہے کہ مدارس و جامعات میں نصاب تعلیم کیا ہوناچاہیئے۔اس سلسلہ میں راقم الحروف کاماننایہ ہے کہ نصاب تعلیم ایسا مرتب کیاجائے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہواور معاشرہ، سماج کو مذہبی، ثقافتی اور اخلاقی ،معاشرتی، عقائداور تصورات کائنات کی معلومات فراہم کرے تاکہ طلباء باشعور ہوں اور معاشرہ اچھی زندگی گزار سکے۔ اس طرح نصاب میں اس چیز کا بھی پورا خیال رکھاجائے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے اپنی سوچ ، فکروتدبر، رجحان اور قابلیت کے اعتبار سے مختلف ہوتاہے اس لئے تعلیم و تربیت کے دوران انفرادی اختلافات کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ طلباء اپنی انفرادیت ، فکر و تدبر میں آزادہوں۔نصاب کو معاشرتی تقاضوں سے وابستہ ہوناچاہئیے تاکہ معاشرہ کے افراداس سے مکمل طور پر مستفید ہوسکے بلکہ اس کی بنیادپر اپنی زندگی کانصب العین متعین کرسکیں۔ نیزیہ نصاب معاشرہ کو مزید بہتر بناسکے۔ نصاب میں معاشرتی مسائل کوبھی مدنظر رکھناچاہئے۔ کیونکہ تعلیم کے ذریعہ انسان میں شعور پیدا ہوتاہے۔انسان میں اچھے اور برے کی تمیز آتی ہے انسان زندگی میں بہت سے مسائل کاشکار رہتاہے اس لئے نصاب کے مفیداثرات معاشرہ پر مرتب ہوں گے اور معاشرہ اس کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل نکال سکے گا تبھی جاکر ایک منظم معاشرہ وجودمیں آسکتاہے ۔ پتہ یہ چلا کہ نصاب تعلیم میں مفاد پرستی، مسلکی اختلاف وغیرہ جیسی ضرر رساں برائیوں کاشائبہ نہ ہوناچاہیئے بلکہ نصاب تعلیم اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوناچاہیے۔ اور اس کی خوبی یہ ہونی چاہیئے کہ وہ انسانیت کا نجات دہندہ، سماج و سوسائٹی کی فلاح و بہبود کا ضامن ،ملک وملت میں اتحادویکجہتی ،امن وامان کا علمبردار ہو اور زندگی کے تمام شعبوں پر بھی محیط ہوکیونکہ یہی ہمارے سماج کی اصل روح اور ضرورت ہے۔ اس سے ملک، فرد، معاشرہ ، قوم اور ملک کا اقبال بلند ہوگا۔ کسی بھی نزاعی مسئلہ سے نصاب تعلیم کو دور رکھنے کی سخت ضرورت ہے ہم موجودہ زمانہ میں دیکھ رہے ہیں ۔ فضلاء اور ارباب حل و عقد کی ایک بڑی تعداد امت کا شیرازہ منتشرکرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ہمارے ناقص نصاب تعلیم کا اثر ہے جو ہم اور ہماری نسلیں صدیوں تک جھیلیں گئیں اس لئے فوری طور پر امت کا سرکردہ طبقہ یکجا ہوکر بیٹھے اور ایسا نصاب مرتب کرے جو جدید و قدیم کاہم آہنگ ہو۔
آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں انسانی سوسائٹی کو جو مسائل پیش ہیں ان کا قرآن و سنت کے مطابق عملی حل تبھی پیش کیاجاسکتاہے جب ہمارے علماء جدید تعلیم سے آراستہ ہوں کیونکہ جدید علوم کا فروغ ہمارے مسلم اسکالرس ، محققین اور ماہر ین علوم کے ذریعہ سے ہوتاہے ۔ اس لئے آج بھی ایسے مسلم محققین کی ضرورت ہے جو اسلام کا نظام معیشت ، بین الاقوامی تعلقات، اقوام عالم کے ساتھ جنگ مصلح کے ضابطوں، اسلامی تہذیب و ثقافت، سیاسی پالیسی، اور دیگر عصری علوم و فنون کو سیکھ کر اسلام کی ترجمانی کرسکیں عصری علوم ہوں یاسائنسی علوم و معارف اگر ہم قران مقدس میں غوروتدبرکریں تو اندازہ ہوتاہے کہ یہ تمام چیزیں اسلام کے دامن سے نکلی ہیں۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ امام غزالی کے معاصر مقدم حکیم ابوالحسن الزبیری تھے جو مشہور فلسفی عمر خیام کے استاد تھے ایک دن وہ عمر خیّام کو ہئیت کی مشہور کتاب المحبطی پڑھارہے تھے ایک فقیہ وہاں سے گزرے اور استاد سے پوچھا : کیا پڑھارہے ہو حکیم ابوالحسن نے جواب دیا :
افلا ینظروا الی السماء فوقہم کیف بینہما وزینہا ومالہامن فروج
’’تو انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا ہم نے اسے کیسا بنایااور سنوارا اورکہیں رخنہ نہیں‘‘ ۔
قرآن پاک دیگر طبیعاتی علوم کی طرف بھی رہنمائی کرتاہے ۔
’’بے شک آسمانوں اور زمین میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لئے اور تمہاری پیدائش میں اور جو جو جاندار وہ پھیلاتاہے ان میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لئے اور رات اور دن کی تبدیلیوں میں اور اس میں کہ اللہ نے آسمان سے روزی کا سبب مینہ اتارا تو اس سے زمین کو اس کے مرے پیچھے زندہ کیااور ہواؤں کی گردش میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے‘‘۔
اس طرح قرآن طبعی علوم کے ساتھ ساتھ عقلی علوم کی تحصیل کابھی حکم دیتاہے ’’اور ان سے بحث ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو‘‘۔
متذکرہ بالاشواہدکی روشنی میں کہاجاسکتاہے نبئ اکرم ؐ کی عطاکردہ تعلیمات اور قرآن حکیم کا اثر تھاکہ اس کے زیر اثر اسلامی علوم و فنون کے فروغ کے ساتھ ساتھ علم وحکمت،سائنسی علوم معارف جیسے تمام علوم کا کثرت کے ساتھ فروغ ہوا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی تہذیب کا یوروپ پر گہرا اثر پڑا۔ یوروپ جہالت و نادانی کے اندھیرے میں ڈوبا ہواتھا وہاں تہذیب و ثقافت ، سیاست و تمدن اور علوم و فنون کا کوئی تصورنہیں تھا۔ ان حالات میں عرب سے ایک تحریک اٹھی جس نے نوے برس کے قلیل عرصے میں پورے عالم کو علوم و فنون کی آماجگاہ بنادیا۔جیساکہ تمدن عرب میں لکھا ہے ۔ ’’اورعربوں نے چند صدیوں میں اندلس کو مالی اور علمی لحاظ سے یوروپ کا سرتاج بنادیاہے یہ انقلاب صرف علمی و اقتصادی نہ تھا بلکہ اخلاقی بھی تھا۔انہوں نے نصاریٰ کو انسانی خصائل سکھائے ان کا سلوک یہودونصاریٰ کے ساتھ وہی تھا جو مسلمانوں کے ساتھ تھا۔انہیں سلطنت کا ہر عہدہ مل سکتاتھا مذہبی امورکی انجام دہی کی کھلی اجازت تھی ان کے زمانہ میں لاتعدادگرجوں کی تعمیراس امر کی شہادت ہے‘‘ ۔George Sartan, A guidi To The History of Science کے مصنف نے بڑی عمدہ بات لکھی ہے ۔’’ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمارے لئے مشرقیت کے میدان میں اکثر باتیں بالکل اجنبی ہیں لیکن مذہبی روایات اور سائنسی عربی روایات قطعاً بھی اجنبی نہیں۔ وہ ہماری روایات کا لازمی حصہ ہیں ، وہ ہمارے روحانی وجودکا جزولاینفک ہیں ہمارے کلچر کا عربی پہلومشرقی نہیں قرار دیاجاسکتاکیونکہ اس کا بڑا حصہ لازمی طور پر مغربی ہے‘‘۔مسلمان ابن رشداور یہودی مامون قرطبہ میں ایک دوسرے کے بعد پیداہوئے۔ الادریس کیوٹامیں پیداہوئے اور سسلی میں پروان چڑھا۔ ابن خلددوں تیونس سے تعلق رکھتے تھے اور ابن بطوطہ مراکش سے، شمال مغربی افریقہ کے سائنسدانوں اور اہل علم کی ایک طویل فہرست۔آگے مصنف نے لکھاہے ۔ عربی تحریروں کی طرف اگر ہم توجہ کریں تو چنداہم کتابوں کا ترجمہ بھی کیاگیاہے ۔ مثلاً الخوارزی،الرازی، الفرغانی،البنانی اور ابن سینا وغیرہ۔ تاہم بہت سی دوسری کتابیں جو بہت اہمیت کی حامل تھیں وہ مترجمین کی توجہ حاصل نہ کرسکیں۔ مثلاً عمر الخیام، البیرونی، ناصر الدین الطوسی کی تصانیف وغیرہ۔
دور حاضر میں دین کی ترویج و اشاعت کا صحیح کام جدید علوم و معارف کی بنیادوں پر انجام دیاجاسکتاہے اس وقت اس کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ آج کے علماء اور عمائدین قوم کومذہب وسائنس کے باہمی تعلق کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھناانتہائی ضروری ہے ۔کیونکہ جنہیں آج جدید علوم کانام دے رہے ہیں وہ دراصل ہمارے آباؤاجدادکی میراث کاحصہ ہیں بدقسمتی سے تشددمذہبی گروپ نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر امت مسلمہ کی توجہ ان کی طرف سے موڑ دی،یہی وجہ ہے کہ آج امت اپنے اصل مشن سے دور ہے اور ذلت وپستی کے غار میں جاگری ہے ۔اگر ہم تاریخ کامطالعہ کریں تو اندازہ ہوتاہے ہے کہ ہمارے اکابرواسلاف نے بھی علوم جدیدکی بنیاد ڈالی جس کو حاصل کرکے مغرب ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔
ماخذ میں مذکور ہے کہ ابن الہیثم کی کتاب On optics جوکہ یورپ میں بہت مشہور ہے یہی وہ شخص جس نے پہلی مرتبہ عدسوں کی تکبیر طاقت کو دریافت کیااور اس تحقیق نے مکبر عدسے کے نظریہ کو انسان کے قریب کردیا۔نیز یہ ہی وہ شخص ہے جس نے یونانی نظریہ بصارت کو رد کیااور دنیاکو جدیدنظریہ بصارت سے روشناس کرایااور ثابت کیاکہ شعاعیں آنکھوں سے پیدانہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اجسام کی طرف سے آتی ہیں،پردہ بصارت کی حقیقت سے متعارف کرایااور البصری اعصاب اوردماغ کے ساتھ تعلق واضح کیا۔ اس طرح قطب الدین شیرازی اور القزوینی نے بھی علم بصیرت پر کافی خدمات انجام دیں ول ڈیو رانٹ : نے لکھاہے کہ ابوریحان محمدبن احمدالبیرونی بہترین مسلمان عالم تھے۔ وہ فلسفی،مورخ،سیاح،ماہر جغرافیہ،ماہرلسانیات،ریاضی داں، ماہر فلکیات، شاعر اور ماہر طبیعات تھے۔ انہوں نے ان تمام میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دیں جن سے پوری دنیاکے محققین نے استفادہ کیا۔ ماخذ بتاتے ہیں کہ حرکت اور سمتی رفتار کی نسبت البغدادی کے نظریات و تحقیقات آج بھی سائنس دانوں کے لئے باعث حیرت ہیں اور ابن الہیثم نے کثافت،ماحول،پیمائش ،وزن،مکان،زمان،رفتار،شرکت ،تجاذب کیپلیری عمل جیسے موضوعات اور تصورات کی نہ صرف بنیادڈالی بلکہ ان علوم کے توسط سے پیش قیمت موادفراہم کیااور علم طبیعیات کو وسعت عطاکی۔اس طرح ریاضی، الجبرا، جیمومیٹری میں الخوازی کی اہم خدمات ہیں ان کی کتاب الجیروالمقابلہ، یورپ کی جامعات میں سولہویں صدی عیسوی تک نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔ علم ادویہ سازی کے حوالہ سے ماخذ گویاہیں مسلم ادویہ سازوں میں ابوبکر محمدزکریارازی،علی بن عباس، ابوالقاسم الزہراوی، ابومردان ابن زہر،مشہور ہیں طب میں ابن رشد کی کتاب کتاب الکلیات، جس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کرکے نصابی کتاب کا درجہ دیاگیاہے اس کانام بدل کر رکھ دیاگیاہے ۔Colliget
تاریخ اور عمرانیات کے ماہر بھی مسلمان ہیں۔ اس میں سب سے پہلانام ابن اسحاق کا آتاہے انہوں نے حضرت آدمؑ سے لے کر محمدؐ تک انسانی تاریخ کو مرتب فرمایا۔ ابن ہشام، طبری، مسعودی ،مسکویہ،حلبی،اندلسی، ابن کثیر، سہیلی اورابن سیدالناس کے نام علوم تاریخ کے بانی مبانی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ غزالی،فارابی ،ماوردی ابن خلدوں، ابن رشد، ابن تیمیہ، ابن القیم اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تالیفات سیاسی فکراور عمرانیات میں بنیادی درجہ رکھتی ہیں۔ علم کیمیامیں بھی مسلم علماء نے اہم خدمات انجام دی ہیں۔ماخذ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ امام جعفر صادق اور خالد بن یزیدعلم کیمیاکے بانی ہیں جابربن حیان امام جعفرکے شاگردتھے۔ جابر بن حیان تخجیر،تصعیداورقلم سازی کے طریقوں کے موجدتھے ۔اس فن میں ان کی’’کتاب السبعین‘‘ قابل ذکر ہے ۔ کیمسٹری کی تاریخ میں سہروردی، ابن عربی اور الکا شافی کا نام بھی قابل ذکر ہے لیکن جب کتابوں کے دوسری زبانوں میں ترجمہ کیاگیاتو ان مصنفین کے نام بھی بدل گئے۔
الرازی کو Raazes ابن بیطارکو Aben Bethar
ابن سیناکو Alicenna ابوالقاسم کو Abucasis
ابن الہیثم کو Alhazen ابن ماجہ کو Avempace اور
ابن زہر کو Avenzoar کہاجانے لگا اسی طرح عربی اصطلاحیں بھی تراجم کے ذریعہ بدل گئیں۔
اگر ہم شعبۂ قانون کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتاہے کہ اس شعبۂ میں امام ابوحنیفہ اور کے تلامذہ ابویوسف ،محمدبن حسن شیبانی نے الجامع صغیر ، الجامع الکبیر،السیرالکبیر،السرالصغیر،المبسوط کی صورت میں Public International law اور Private International lawپر امام اعظم کی فرمودات مرتب کی ہیں جو دنیا کے تمام قوانین ، عدالتوں کے لئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں، نیز امام سرخسی نے شرح السیرکے نام سے چار جلدوں پر مشتمل شرح لکھی جو اپنے دورمیں آج کے Strake اور Oppenheam سے بہتر مجموعہ تھا۔ امام سرخی کی ۳۰ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’’المبسوط قانون پر لکھاہوا آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل لکھا ہوا نادر مجموعہ ہے۔
بین الاقوامی قانون International Law پر امام زید بن علی کی کتاب المجموع میں بھی باب شامل تھا۔ امام شافعی کی کتاب ’’الام‘‘اور امام محمد،امام مالک، امام اوزای ودیگر ائمہ نے بہت سی کتابیں اس موضوع پر لکھی ہیں جوکہ علمی و قانونی تاریخ کا سرمایہ ہےFisical & Taxation Law اورAdministrative Lawپر امام یوسف اور یحییٰ بن آدم کی ’’کتاب الخراج‘‘ ابو عبیدقاسم بن سلام کی کتاب الاموال اس دور کی بہترین تصانیف ہیں ۔
Commaon Law پر باقاعدہ فقہی وقانونی مجموعات بھی اسلام کی دوسری صدی کے شروع میں مرتب ہونا شروع ہوگئے تھے۔جنہیں باقاعدہ حصص اور ابواب میں تقسیم کیاجاتاتھا۔ عبادات، مناکحات، معاملات و معاہدات،عقوبات، مالیات اور قضاوشہادات وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی تاریخ اسلام کی پہلی صدی میں عمل میں آچکی تھیں۔ Comparative case Law ،دور جدیدکا اہم قانونی فن ہے۔ اس کو مسلم علماء دیوسی ابن رشد، اور سمھودی نے مرتب کیاہے ۔دنیا کی سب سے پہلی باضابطہ دستاویزمحمدؐ کا تیار کردہ میثاق مدینہ ہے یہ سب مسلمانوں کاعلمی نظم و نسق تھا جو قرآن کی تعلیمات اور محمد کی سنت مبارکہ کے ذریعہ میسرآیاجبکہ اس وقت دنیا۔ بالخصوص مغرب علم وآگہی کے تصورسے کوسوں دور تھا چنانچہ انسانیت جہالت کی گہرائیوں سے نکل کر دور جدیدمیں داخل ہوگئی۔ اس لئے آج ضروری ہے کہ معاشرہ میں ان علوم کا فروغ دیاجائے جوہمارے اکابر و اسلاف کی روایت ہے ۔ جو اقوام جدیدعلوم اور ٹیکنالوجی کی دولت سے سرفراز ہوتی ہے وہ دنیامیں باحیثیت تسلیم کی جاتی ہے مگر نام نہاد علماء نے علوم سائنس کودین سے جدا کردیاہے حالانکہ یہ ہی اصل دین ہے۔ آج مدارس میں بھی ایسے نصاب تعلیم کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جو منافع، اخلاقیات ،قومی ہمدری،انسان دوستی، وطن دوستی کے اصول پر کھرا اتر سکے اورمعاشرہ کو ہر طرح کی ترقی کے راستہ پر گامزن کرسکیں۔ آج کے دورمیں انسانی ترقی کا انحصار علمی ترقی پر ہے جب تک معاشرہ جدیدوقدیم کے علوم سے آراستہ نہیں ہوگااس وقت تک نہ کوئی سماج ترقی کرسکتاہے نہ وہ معاشرہ ترقی یافتہ ہوسکتاہے جب معاشرہ ترقی یافتہ ہوگاتو ملکی سطح اور ریاستی سطح پر بھی ترقی ہوگی۔ معاشرہ لازمی طور پر معاشیات سے جڑ جائے گا لہذا جب معاشرہ روزگار سے جڑا ہواہوگاتولامحالہ دنیامیں امن وامان ، چین وسکون کابول بالاہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔