نصاب کی تبدیلی ہی نہیں بلکہ نظام  کی تبدیلی بھی ناگزیر

منورعلی مصباحی رام پوری

بےشک علم ایک نور اور روشنی ہے، یقینا یہ ایک روحانی قوت ہے۔ مدارس اس نور اور قوت کو حاصل کرنے کے پاور ہاؤس ہیں۔ یہ بھی مسلمہ  حقیقت ہے کہ نور اور روحانیت ناقابل انقسام اشیا ہیں۔ اس تناظر میں عصر  حاضرمیں مدارس کے سلسلے میں  سب سے پہلی  اصلاح طلب چیز تو یہی ہے کہ ہندوستانی  اہل مدارس کو  علم کی دینی اور دنیوی تقسیم کےتصور کو  اپنے ذہن کےنہاں خانوں سے  نکال دینا  چاہیے؛کیونکہ جب علم ایک نور کانام ہے تو وہ تقسیم کیسے ہوسکتا ہے؟   علم کی یہ تقسیم دراصل مسلمانوں کو علمی ترقی سےمحروم کرنے کی  ایک سازش ہے۔جس کو آزادی کےبعد  دبے کچلے ہندوستانی مسلمانوں نے چارناچار  یا  مصحلتا قبول کیا۔

یہ ایک وقتی ضرورت تھی جس کو دور اندیش  مسلم  قائدین نے اپنایا، لیکن اب عہد  حاضر کے مسلم  قائدین کو  چاہیے کہ  ماضی کا  رونا چھوڑیں اور مستقبل  کی جانب   قدم  بڑھائیں۔ اس  سلسلے میں  انہیں  کوئی بڑا اقدام کرنے کی ضرورت نہیں  بلکہ  وقت کے تقاضے کے مطابق  نصاب تعلیم  میں  انگریزی، کمپیوٹر، ریاضی، تاریخ، جغرافیہ اور  علم  سیاست کو   لازمی  مضامین کے طور پر  داخل  درس کریں۔ ان  میں سے کچھ  ایسے علوم ہیں  جو  ملک کی بڑی  دینی درسگاہوں میں پہلے سے  داخل درس ہیں اورجوداخل نہ ہوسکےوہ بھی آسانی کے ساتھ  داخل کیے جاسکتے ہیں، اس کےلیے منطق کی بعض  کتب مثلا ملا حسن، میر قطبی اور قطبی کے علاوہ  مزید صرف اتناکرناہےکہ اعلی درجات میں انگلش  کی  ریڈنگ بکس  کی جگہ تاریخ  اور سیاست کی کتابوں کو ریڈنگ بکس کے متبادل کے طور پر اپنائیں۔

اس  طرح  انگریزی  زبان فہمی  کے ساتھ ساتھ  تاریخ  یا سیاست  فہمی  کا مرحلہ   بھی  بآسانی طے ہوجائےگا۔نیزاس تبدیلی  کے انشاءاللہ بہتر  نتائج سامنے آئیں گے ؛کیونکہ انگریزی زبان کے ماہرین کا مانناہے کہ تاریخ اور سیاست  کی انگریزی  کتابوں کےمطالعے سے انگریزی زبان فہمی کا مرحلہ جلدی طے ہوجاتاہے۔ اسی طرح  اہل مدارس کو  اس  بات پر بھی  توجہ  دینے کی ضرورت ہے کہ یہ دور اسپلائزیشن(اختصاص)  کا  دور  ہے۔

اکثر  مدارس میں  اہم  فنون  میں اختصاص  کا  رواج بہت کم ہےاور اگر ہے بھی تو    دورہ سے فارغ  طلبا ہی کے لیےہے  جبکہ  اس مہنگائی کے دور میں بچے  کے دورہ  تک پہنچتے   پہنچتے اہل خانہ  پر  معاشی تنگ حالی کے دورے پڑنے لگتے  ہیں ، لہذا  دورہ کی مدت  ایک سال کم کرکے اس کے بعد کسی بھی فن میں  ایک سالہ  کورس اختصاص کا ہونا چاہیے۔ ایسے  ہی ہمارے ناظمین  مدرسہ  سے آج کل  جو   کوتاہی سب سے زیادہ   اور سب سے  خطرناک سرزد ہو رہی ہے وہ ہےمدرسین کی تنخواہوں  کا مسئلہ۔بیشتر مدارس مدرسین  کو انتہائی قلیل  تنخواہیں فراہم کررہے ہیں  جس کے  تباہ کن  نتائج  ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ؛معاشر ے میں    خطبا کی تعداد  روز افزوں  ترقی پر ہے اور مدرسین عنقاہوتے  جارہے ہیں۔

 ادھر طلبا کا رجحان  یا تو مدارس  کی طرف ہوتاہی نہیں اور اگر ہوتا بھی  ہےتو  درسیات کی طرف کم  اور تقریر کی طرف زیادہ ہے۔وجہ ظاہر  ہےکہ خطیب ایک رات میں  بیس ہزار یا کچھ نچلے معیار کا مقرر ہے تو پانچ ہزار کماتاہے  جبکہ  مدرس  کی ماہانہ تنخواہ آٹھ دس ہزار  ہوتی  ہے او ر وہ بھی بر وقت نصیب نہیں ہوتی۔تو اب  ایسے  مہنگے وقت میں  لفاظ  اور شعلہ  بار مقرر  ہی پیدا ہوسکتے ہیں  ناکہ  با استعداد مدرس یامصلح  اور  تربیت ساز ؀

کس  طرح ہوا  کند  ترا نشتر تحقیق

ہوتے نہیں  کیوں تجھ سے  ستاروں کے جگر چاک

یہ سب تبدیلیاں نصابی تبدیلی سے زیادہ اہم ہیں۔ یہ  نصابی تبدیلی  بھی کوئی مشکل  امر  یا بدعت قبیحہ  نہیں  بلکہ یہ  مضامین تقریبا وہی  ہیں  جو  ملا نظام الدین کے مرتب کردہ  نصاب میں  شامل تھے۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ اس   وقت  عربی اور فارسی  کا عروج تھا اس لیےیہ فنون  عربی  یا فارسی میں پڑھے پڑھائے جاتے تھے، لیکن اب انگریزی کا دور ہے اس لیے اب  انگریزی کو ان علوم کا میڈیم بنانا  لازمی امر ہے۔

بہر حال ملا نظام الدین کاترتیب کردہ نصاب تعلیم ۱۳؍ علوم و فنون  کی تقریبا ۴۲؍۴۳ کتب پر مشتمل  تھا، جس میں  ریاضی، فلکیات اور ہندسہ کی  کئی کتابیں داخل درس تھیں۔مدارس کی اصطلاح میں اس نصاب کو  درس نظامی کے نام سے جانا جاتاہے۔مدارس اسلامیہ  ہند  کا موجودہ نصاب تعلیم  اسی درس نظامی  کا چربہ ہے۔ درس نظامی  کے اس نصاب میں  رائج  الوقت  تمام اہم  عصری علوم  شامل تھے جو بعد میں  شاید  اسی  فکر کا  شکا ہوئے  کہ مدارس کا  مقصد صرف اسلامی  علوم   پڑھاناہے ناکہ عصری۔ جب  کے تاریخ  کے اوراق  گواہ ہیں  کہ جب تک  ملا نظام الدین کا مرتب کردہ  نصاب  اپنی  کامل  صورت میں داخل  درس رہا  اس وقت سے لیکر  عہد گزشتہ  کے تمام  ادوار میں  کوئی  دور ایسا نہ گذرا  کہ جس میں  رائج  الوقت  اہم علوم  کو اہل  اسلام نے  ناصرف قبول  کیا بلکہ  اہل اسلام نے ان علوم  میں حیرت انگیز  تحقیقات  اور  اکتشافات کیں۔ عصر حاضر  میں  بھی اگر باقتدار علمااور ذمہ داران اس طرف توجہ  دیں  تو   مدارس کی دنیا  میں انقلاب  آسکتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔