نظام جمہوریت اور مذہب اسلام

مظہر اقبال خان

انسان کو دوسرے حیوانات کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ دوسرے حیوانات اپنی طاقت میں محدود رکھے گئے ہیں اور پیدائیشی طور پر اُن کے حسبِ ضرورت محدود سامان بلا اُن کی کوشش کے دے دیا گیا ہے ۔ لیکن انسان کو موقعہ دیا گیا ہے کہ جس قدر کوشش کرے گا ترقی کا میدان اپنے سامنے وسیع پائے گا ۔ انسانوں میں جو انسان زیادہ بلندی پر پہنچ جاتا ہے ، وہ چونکہ اپنے سوا دوسرں کو پیچھے یا نیچے سمجھتا ہے۔ اس لیے اگر چہ وہ حقیقتاً کامل نہیں ہوتا لیکن نسبتاً کامل اور دوسرے اُس کے مقابلے میں ناقص ہوتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں ۔ کہ انسان کی فطرت میں عبودیت یعنی حقیقی واہب ترقیات کی فرما نبرداری اور ودیعت کی گئی ہے۔ جوانسان سب سے اوپر اور سب سے آگے نظر آتا ہے ۔ وہ ایک مجازی اور نسبتی خیال رکھتا ہے ۔ لہذا عام انسان اپنی فطرت کے تقاضے سے مجبور ہیں ۔ کہ اُس کے سامنے فرمانبرداری کا اظہار کریں ، اور یہی بادشاہت اور حکومت کا فلسفہ ہے ۔ چونکہ انسانی نسل جہاں ایک طرف اُس کی فطرت میں یہ بات داخل ہے ۔ کہ وہ کسی ایک اعلیٰ اور طاقتور ہستی کو اپنا مرکز اور رہبر بنا کر رہے ۔ جس کے لئے مذہب رسول، پیغمبر، نبی، اولیاء، اور علماء، کو منتخب کرتا ہے ۔ اور دوسری طرف شیطانی فریب کاریوں کے سبب انسان نے حکومت و سلطنت کے لیے قابلیت
اور صفاتِ حسنہ کو فراموش کر کے جمہوریت حکومت کے نام سے فریب کا ر، بد مزاج ، اور ناقابل انسانوں کو ترجیع دی ہے ۔ جمہوری حکومت میں تین یا پانچ سال مدت کے لئے ایک عام شخص کو عام رعایا اپنا حکمران منتخب کرتی ہے ۔ جس کو صدر جمہوریہ یا بعض ملکوں میں صدر اور وزیراعظم کے طور پر چُناجاتا ہے ۔ اس صدر جمہوریہ کو وہ پورے وہ اختیار ات حاصل نہیں ہوتے جن کی نوع انسان کے ایک شفیق انسان کو ضرور ت ہوتی ہے ۔ بعض معمولی کاموں میں بھی صدر کو مجبور ہوجانا اور اپنی خوہش کے خلاف کام کرنا پڑتا ہے ۔ گویا حکومت کا کوئی ایک حقیقی مرکز نہیں ہوتا اور امر سلطنت منقسم ہو کر تمام افراد مُلک یا افراد سے قوم سے متعلق ہوتا ہے ۔ بظاہر یہ نظام حکومت بہت ہی دل پسند اور خوشگوار معلوم ہوتا ہے ۔ اور عوام چونکہ خود اپنے اوپر حکومت کرنیکا موقعہ پاتے ہیں ۔اور جبر و استبداد کی زنجیرں کو ٹوٹاہوا دیکھنے سے خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنا بہت کچھ سیاست اور جمہوریت پہ لٹا دیتے ہیں ۔ نسل انسانی کی شرافت اور خلیع الرسن اور بہمہ جہت آزاد کے خلاف ہے ۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اور فرانس وغیرہ میں جہاں جمہوری نظام قائم کرنا چاہتا ہے ۔ وہاں روحانیت جو مذہب قائم کرنا چاہتا ہے ۔ بالکل تباہ و برباد ہو گئی ہے ۔ روحانیت اور مذاہب کے سیکھائے ہوئے اعلیٰ اخلاق کسی بھی ایسی جگہ قائم نہیں ہو سکتے جہاں نظام جمہوریت کاسیلاب موجیں ماررہا ہو آج ہر گھر میں سیاست کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ بھائی سیاست اور الیکشن کی وجہ سے بھائی سے الگ ہوتا جارہا ہے ۔ قوم و فرقہ ومذاہب جداجداہوتے جارہے ہیں ۔ جمہوری نظام میں قوم پرستی ، مذہب پرستی، فرقہ پرستی، عام ہوتی ہے ۔ لیکن مذہبی سلطنت اس چیز کے قطعی خلاف ہے ۔ مذہب نہیں چاہتا کہ سماج میں یا ریاست میں مذہب پرستی ، قوم پرستی ، رنگ، جنس، کلچرکی بنیاد تقسیم ہو ۔ اور گھر گھر میں لڑاہیاں ہوں ۔ لوگ ایک دوسرے کے بزرگوں کی پگڑیوں پر کیچڑ اچھالیں ۔یہ تمام طرح کی پرائیاں ایک جمہوری نظام میں عام طور پر پائی جاتی ہیں ۔ جمہوریت کا نظام انسان کوایسی آزاد روش پر ڈالنا اوراس قدر خلیع الرسن بنانا چاہتا ہے ۔ کہ انسان خدا شناس اور خدا پرستی کے خیالات کو تا دیر قائم نہ رکھ سکے ۔ جمہوری نظام حکومت سب سے ذیادہ قومی تحریکِ دہریت اور لا مذہبیت کی ہے ۔ جس طرح ریگستان میں کھیتی پیدانہیں ہو سکتی۔پانی سے نکل کر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی ۔ اسی طرح خالص جمہوری نظام حکومت کے تحت مذہبی خیالات، مذہبی پابندیاں ، مذہبی عباراتِ نشو نما نہیں پا سکتے۔ مذہب کے اصل الاصول پابندیاں و فرمانبدار رہی ہے ۔اور سچے مذہب کی پابند ی انسانی فطرت کے اُس صحیح جذبہ کو زندہ رکھتی ہے کہ ہر اعلیٰ ہستی کو اعلیٰ مقام دیا جائے اور اُس کی تکریم کی جائے۔ اُنہیں اعلیٰ ہستیوں میں انبیاء کرام سب سے اہم ہیں ۔ کی بدولت انسانوں نے ہمیشہ فلاح پائی ہے ۔ اور اُنہیں کی فرمانبرداری کے نتیجے میں نسل انسان نے ذلت و پستی کے مقامات سے کر اوج اور ترقی کے مقام پر آئی ہے ۔ پس جو چیز یا جو نظام حکومت اس روشِ ستودہ کیلئے سِم قاتل ہو ۔اور انسان کو ہر ایک پابندی سے آزاد ہو کررہنے کی ترغیب دیتا ہو وہ نتیجہ میں نوع انسان کیلئے ہرگزمفید ثابت نہیں ہو سکتا ۔ دنیا میں ہر ایک باپ اپنے بیٹے سے فرمانبداری کی توقع رکھتا ہے ۔اور استاد اپنے شاگرد سے فرمانبرداری کا خواہاں ہے بیٹے اور شاگرد کے لئے یہی مفید ہے کہ وہ اپنے باپ اور استادکی فرمانبرداری کریں ۔ ہر لیڈر ، رہبر اپنے پیرؤوں سے پیروی کی اُمید رکھتا ہے ۔ اُنہیں چائیے کہ وہ اُن کی پیروی کریں ۔ جمہوریت کا مجموئی اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ انہیں اپنے لئے نمونے کے طور پر رکھ لیتے ہیں ۔ اور اُن کے طور طریقوں کو اپناتے ہوئے لا مذہبیت اور دہریت کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ۔جمہوریت کا مقام چونکہ مذہب کے خلاف واقع ہواہے ۔ لہذا جس قدر مذہب کو خطرہ اور صدمہ پہنچے گا۔ اُسی قدر امن وامان اور راحت واطمینان ملک وقوم سے فناہو جائیگا ۔ کیونکہ حقیقی امن وامان صرف مذہب ہی کی بدولت دنیا میں قائم ہوسکتاہیحکومت و جمہوریت اس معاملے میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں ۔ اگر زمین کے تمام باشندے لامذہب ہوجائیں توزمین کشت وخون ،قتل وغارت،چوری، زنا، جھوٹ، فریب ، وغیرہ بدتمیزیوں اور شرارتوں سے لبریز ہو کر نوع انسان کیلئے جہنم بن جائے گی۔ یورپ اور امریکہ کی جمہوریتوں میں ہم کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتے ۔جس کیلئے بجاطور پر ہمارے لئے رشک پیدا ہوسکے۔ اِنہیں ملکوں میں لامذہبیت زیادہ پائی جاتی ہے۔اِنہیں میں معاشرت انسانی بے حیائی کی طرف زیادہ مائیل ہے ۔اُنہیں میں وعدہ خلافی بے وفائی خود مطلبی،دروغ بیانی، دھوکہ دہی وغیرہ لوگوں کے چال چلن کے جزوبن چکے ہیں ۔ انسانی فریب خوردگیوں اور انسانی پست ہمتوں کی غالباً یہ سب سے زیادہ بدنما اور عظیم الشان مثال ہے۔ کہ ہم آج بہت سے مسلمانوں کو بھی یورپ اور امریکہ والی جمہوریتوں کا خواہشمند دیکھ رہے ہیں ۔ جو اسلامی تعلیم اورنوع انسان کے بہت ہی خطرناک ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔