نظر کو خواب قدم کو سفر دیا جائے

مجاہد ہادؔی ایلولوی

ہر ایک عضو کو اک اک ہنر دیا جائے
"نظر کو خواب قدم کو سفر دیا جائے”

حکومتوں کا یہی کام رہ گیا ہے اب
کہ بے گناہوں پہ الزام دھر دیا جائے

مری دعا سے لرز جائے قصرِ باطل بھی
مری دعا میں خدا وہ اثر دیا جائے

ہمیں تو صرف ہمارے حقوق چاہئے تھے
یہ کب کہا کہ ہمیں تو قمر دیا جائے

یہ راحتیں ہوں جہاں والوں کو مبارک سب
مجھے تو موت کا ہر لمحہ ڈر دیا جائے

مجھے نہیں ہے طلب تیرے میکدے کی اب
بس ایک جام مرے نام کر دیا جائے

جو ہنس رہے ہیں مری چاک دامنی پہ خدا
ذراسا موت کا ان کو بھی ڈر دیا جائے

بجھا رہے ہیں محبت کی شمع جو ہادؔی
انہیں کے دل کو محبت سے بھر دیا جائے

تبصرے بند ہیں۔