مجاہد ہادؔی ایلولوی
ہر ایک عضو کو اک اک ہنر دیا جائے
"نظر کو خواب قدم کو سفر دیا جائے”
…
حکومتوں کا یہی کام رہ گیا ہے اب
کہ بے گناہوں پہ الزام دھر دیا جائے
…
مری دعا سے لرز جائے قصرِ باطل بھی
مری دعا میں خدا وہ اثر دیا جائے
…
ہمیں تو صرف ہمارے حقوق چاہئے تھے
یہ کب کہا کہ ہمیں تو قمر دیا جائے
…
یہ راحتیں ہوں جہاں والوں کو مبارک سب
مجھے تو موت کا ہر لمحہ ڈر دیا جائے
…
مجھے نہیں ہے طلب تیرے میکدے کی اب
بس ایک جام مرے نام کر دیا جائے
…
جو ہنس رہے ہیں مری چاک دامنی پہ خدا
ذراسا موت کا ان کو بھی ڈر دیا جائے
…
بجھا رہے ہیں محبت کی شمع جو ہادؔی
انہیں کے دل کو محبت سے بھر دیا جائے
تبصرے بند ہیں۔