نفرت کی آگ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے

عبدالعزیز

گزشتہ روز گجرات میں کانگریس کے نائب صدر نے اپنی کم عمری اور کم تجربہ کاری کے باوجود بہت تجربہ اور کار آمد باتیں اپنی تقریر کے دوران بیان کی ہیں ان باتوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہاکہ مجھ سے کہا جاتا ہے کہ نفرت کمزوری کی علامت ہے۔ یہ ہے میرے خاندان کی سوچ۔ میرے والد کو تمل ٹائیگر کے چیف پپلولو پل لائی پربھا کرن نے قتل کیا لیکن جب میں نے پربھا کرن کی لاش دیکھی تو مجھے تکلیف ہوئی۔ میں نے اپنی بہن پرینکا سے پوچھا کہ کیا یہ تعجب اور حیرت کی بات نہیں ہے کہ میں اپنے والد کے قاتل کی لاش دیکھ کر غم زدہ ہوا۔ مجھے اس کی لاش دیکھ کر اپنے قصور وار ہونے کا احساس ہوا۔ میری بہن کو بھی تکلیف ہوئی۔ ایسا لگا کہ وہ چیخنے اور چلانے نہ لگے۔ میں غم و غصہ کو سمجھ سکتا ہوں ۔ کانگریس میں ہوں لیکن میں اپنے آپ کو پارٹی کا آدمی (Prty Man) نہیں سمجھتا۔ میں اپنے آپ کو ہندستان کے اظہار کا ایجنٹ سمجھتا ہوں ۔ مجھے آپ بیوقوف، الو کہہ سکتے ہیں ، لیکن میں جو کچھ ہوں بس یہی ہوں ۔ میں ایسے لوگوں کو جو کانگریس مکت بھارت کہتے ہیں یا میرے خاندان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں ان کے جیسا کام نہیں کرسکتا۔ راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ انہی لوگوں نے جو آج انسانیت کے درپے ہیں ، انسانوں سے نفرت کر رہے ہیں ۔ مہاتما گاندھی جیسی عظیم شخصیت سے محض نفرت و عناد کی بنیاد پر قتل کیا۔ راہل گاندھی نے اثر انگیز باتیں کہی ہیں ۔ ہر ہندستانی کو ان باتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

 آر ایس ایس 1925ء میں قائم ہوئی۔ آج اسے قائم ہوئے 90/92 سال ہوگئے۔ اس مدت میں نفرت کے جس ایجنڈے کو لے کر کام کر رہی تھی وہ ایجنڈا کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ جو لوگ آر ایس ایس کے سنچالک ایک کے بعد ایک ہوئے وہ نفرت کا زہر گھولتے رہے۔ ایڈوانی اور واجپئی کا بھی دور آیا۔ ان لوگ نہیں جنتا پارٹی کے راج میں بھی وزیر رہے اور پانچ سال بھاجپا کی مخلوط حکومت تھی مگر آج جو تین سال میں ہوا اور ہورہا ہے وہ ہندستان میں کبھی نہیں ہوا۔ 2002ء میں احمد آباد میں نریندر مودی کے ساتھ واجپئی ایک پریس کانفرنس کو خطاب کیا تھا۔ وہ ویڈیو شوسل میڈیا میں وائرل ہوا ہے۔ مودی کی موجودگی میں اٹل بہائی واجپئی نے کہاکہ نریندر بھائی مودی کو راج دھرم کا پالن (احترم) کرنا چاہئے جو حکمراں ہوتا ہے وہ ذات پات، برادری اور فرقہ کی بنیاد پر حکومت نہیں کرتا، وہ سب کا حکمراں ہوتا ہے۔ سب کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے۔ واجپئی مودی کے بزرگ تھے۔ اپنے بزرگ سیاست داں کی باتیں سن کر مودی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی تھی۔ مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ واجپئی جی جو بھی نصیحت کریں گے وہ اس کی ان سنی کردیں گے۔ وہ آر ایس ایس کے پرچارک ہیں ۔ آر ایس ایس کے نظریہ اور اصول پر چلیں گے۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر مودی کام کرتے رہے ہیں ۔ مودی نے اپنی مادر آرگنائزیشن سے مکمل وفاداری کی جس کی وجہ سے آر ایس ایس نے ان کے گرو ایڈوانی کو پیچھے کر دیا اور مودی کو آگے بڑھا دیا۔

 ہندستان میں ایک کمیونٹی مارواڑیوں کی ہے۔ یہ پیدائشی جن سنگھ ہوتے ہیں ۔ میں روزانہ اپنے گھر سے قریب ایک پارک میں چہل قدمی کرنے کیلئے جاتا ہوں ۔ ایک مارواڑی سے اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ ایک بار گفتگو کے دوران اس نے کہاکہ ’’عزیز صاحب میں پیدائشی طور پر آر ایس ایس کا آدمی ہوں ۔ میں ان کی شاکھاؤں میں جاتا تھا۔ اگر بی جے پی کا کوئی گدھا بھی الیکشن میں کھڑا ہوگا تو اسی کو ووٹ دوں گا۔ میں نے مذاقاً کہاکہ ’’بی جے پی کو گدھا ہی ووٹ دیتا ہے‘‘۔ وہ ہنسنے لگا۔ میں اس سے اکثر ہنسی مذاق کرتا رہا اور اچھا سلوک کرنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ جب وہ نہیں آتا ہے تو اس کی خیریت فون سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا۔ اسے یہ بات اچھی لگتی۔ جب پارک میں آتا تو سب کو کہتا کہ ’’حاجی صاحب نے کل مجھ کو فون کیا تھا‘‘۔ ایک دن اس نے اندر کی بات بتاتے ہوئے کہاکہ ’’حاجی صاحب! اگر آپ کے چہرے پر داڑھی نہ ہوتی اور آپ سر پر ٹوپی نہ پہنتے تو میں آپ کو اپنے گھر لے جاتا؟‘‘ جب میں نے کہاکہ ’’مودی کی بھی داڑھی ہے‘‘۔ جواب میں اس نے کہاکہ وہ داڑھی الگ طرح کی ہے‘‘۔ میں کہنے والا تھا کہ ہندوؤں میں اب داڑھی رکھنے کا رواج ہوگیا ہے اور ان کے بہت سے رشی منی داڑھی رکھتے تھے مگر میں نے سوچا کہ زیادہ کٹھ حجتی کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے اس کے ساتھ حسن سلوک میں کمی نہیں کی۔ ایک دن اس کے دل میں نہ جانے کیا آیا وہ کہنے لگا حاجی صاحب آپ دونوں (میرے ساتھ میرے ایک دوست بھی تھے) آج میرے گھر چلئے۔ ہم لوگ اس کے کہنے پر چلے گئے۔ اس نے اچھی طرح سے ہم لوگوں کی نہ صرف خاطر مدارات کی بلکہ جب واپس آنے لگے تو گھر کا بنا ہوا ستو کا لڈو ایک پلاسٹک کے ڈبے میں رکھ کر اپنی بیوی کو دینے کیلئے کہا۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مودی کے آنے سے اس کاروبار پر بڑا اثر پڑا ہے مگر کہتا ہے جو بھی ہوجائے وہ ووٹ دے گا تو بی جے پی کو ہی دے گا۔

 ایک اور واقعہ سنئے۔ میں ایک ایسی عمارت میں رہتا ہوں جس میں ہندو بھی رہتے ہیں ۔ تین خاندان مارواڑیوں کا ہے۔ ایک مارواڑی کے دو تین پوتے ہیں ۔ ہمارے دو پوتوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں ۔ بلڈنگ کے دوسرے بچوں کے ساتھ آپس میں کھیلتے بھی ہیں ۔ سب بچے میرے گھر میں آتے ہیں اور میرے دونوں پوتے جو ایک 10 سال کا ہے اور دوسرا 13 سال کا وہ بھی مارواڑیوں کے گھروں میں کبھی کبھار جاتا ہے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میرا ایک پوتا بتانے لگا کہ اس کے دو دوست نے جو ماروڑی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، ہم دونوں بھائیوں کو ان لوگوں نے کہاکہ آج ہمارے یہاں پارٹی ہے، تم دونوں چلو۔ جانے سے پہلے اس نے اپنی ماں کو میرے لینڈلائن سے فون کیاکہ عبداللہ اور احمد کو پارٹی میں لا رہے ہیں ۔ اس کی ماں نے فوراً کہاکہ ان لوگوں کو پارٹی میں مت لانا، وہ لوگ مسلمان ہیں ۔ ماں کی عمر 25 سے 30 کے درمیان ہوگی۔ اس کے سسر نے مجھے اس کی شادی میں دعوت دی تھی۔ میں دعوت میں گیا بھی تھا۔ اس کی ساس اور سسر مجھ سے مشورہ کیلئے کبھی کبھار آتے ہیں ۔ مارواڑی خاندان کے دونوں بچوں کی عمر 8 اور 10 سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔

 ایک مسلم خاتون نے مجھے بتایا کہ ایک بار اس کی بلڈنگ میں ایک مارواڑی عورت سیڑھیوں پر بیہوش ہوکر گر پڑی۔ میں اسے اٹھا کر گھر لائی اور اس کو ایک گلاس پانی پیش کیا۔ اس نے کہا کہ’’ ہم لوگ مسلمانوں کے گھر میں پانی نہیں پیتے‘‘۔

 ایک کاروباری مسلمان نے بتایا کہ اسے Higher Rent (زیادہ کرایہ) پر ایک فلیٹ لینے کی ضرورت ہوئی۔ مکان مالک نے نام پوچھ کر دینے سے انکار کردیا۔ بنگالی مالک مکان نے بھی ایسا کیا۔ بہت مشکل سے ایک مارواڑی مکان دینے کیلئے تیار ہوا مگر اس نے بتایا کہ وہ چمڑے کا کاروبار کرتا ہے اس لئے دے رہا ہے۔ حالانکہ مارواڑیوں کے یہاں مسلمان کو کرایہ پر مکان دینے کا چلن نہیں ہے‘‘۔

ایسی خبریں مختلف شہروں سے آرہی ہیں ۔ بمبئی شہر میں تو اب مشکل ہی سے کوئی ہندو مالک مکان مسلمان کو کرایہ پر فلیٹ دیتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جس عمارت میں ہندو ہی رہتے ہیں اگر کوئی ہندو پروموٹر نے کسی مسلمان کو کرایہ پر یا Ownership (مالکانہ) میں فلیٹ دے دیا تو سارے لوگ مل کر مخالفت کرتے ہیں اور پروموٹر کو مجبوراً مخالفین کی بات ماننی پڑتی ہے۔ یہ زہر ملک کے کونے کونے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کے ذمہ دار افراد کو نفرت اور دشمنی کی اس آگ کو بجھانے کی ضرورت ہے۔

 ایک طریقہ جو سب سے موثر ہوتا ہے وہ ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا اور ہر ایک کے مسائل اور مصیبت میں کام آنا ہے۔ حسن کردار سے کٹر سے کٹر دشمن بھی بدل جاتے ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورہ حٓمٓ سجدہ میں دشمنوں یا شدید نفرت کرنے والوں سے بھی حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ ہدایت کی ہے کہ ’’برائی کو بھلائی سے دفع کرو، دیکھوگے وہ تمہارے جگری دوست ہوجائیں گے‘‘۔

  سورہ حٓمٓ سجدہ کی 34 اور 35 آیتوں کی تشریح کرتے ہوئے صاحب تفہیم القرآن حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے۔

  ’’دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ محض نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو؛ یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کردو تو یہ محض نیکی ہے۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو‘‘۔

اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بدترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا۔ اس لئے کہ یہی انسانی فطرت ہے۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہوگی مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کرسکے؛ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہوکر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بدکلامی کیلئے کھل سکے گی۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہوجائے لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچالیں تو وہ آپ کے قدموں میں آرہے گا، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے؛ تاہم اس قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا۔ دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں ، ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا، لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان کے قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان میں کمیاب ہیں ۔

 یعنی یہ نسخہ ہے تو بڑا کارگر مگر اسے استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اس کیلئے بڑا دل گردہ چاہئے۔ اس کیلئے بڑا عزم، بڑا حوصلہ، بڑی قوتِ برداشت  اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں ، اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بدمست ہورہے ہوں ، وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کیلئے کام کرنے کا پختہ عزم کرچکا ہو، جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کرلیا ہو اور جس کے اندر نیکی و راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہو کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتار لانے میں کامیاب نہ ہوسکتی ہو‘‘۔

  تیسری بات جو کم ضروری نہیں ہے کہ مسلمان فرقہ بندی یا فرقہ واریت کو اپنے دل و دماغ سے پورے طور پر نکال دیں اور سب مل کر مشترکہ طور پر، اجتماعی پلیٹ فارم سے ایسی جدوجہد کریں اور ایسا پروگرام مرتب کریں کہ جیسے نفرتوں کا موسم بہار میں بدل جائے اور پیار و محبت کا موسم شروع ہوجائے۔ کاروان محبت نکالیں ، کٹر سے کٹر دشمنوں سے مل کر ان کو شانت کرنے، سمجھانے بجھانے کی کوشش کریں ۔ سکھوں کی ایک تنظیم On Khalsa Aid روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے اندر کام کر رہی ہے۔ NDTV پر رویش کمار نے اس تنظیم کے کارکنوں سے انٹرویو لیا۔ اس میں سے ایک نے بتایا کہ جب وہ لوگ  ریلیف ورک کر رہے تھے تو ایک ہندو آیا اور ہم لوگوں کو ورغلانے لگا کہ یہ مسلمان مچھلیوں کو قتل کرتے ہیں۔ بکرے ذبح کرکے کھاجاتے ہیں ۔ یہ بہت بدمعاش اور برے ہیں ۔ اس نے اس ہندو کو بٹھایا اور سمجھایا کہ یہ لوگ غریب اور کمزور ہیں۔ یہ دکھ کے مارے ہیں۔ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے ننھے منے بچے ہیں۔ پانی دانے کی وجہ سے بلک رہے ہیں۔ ہم ان مصیبت کے ماروں کی تکلیف دور کرنے آئے ہیں۔ آپ بھی ہمارا ساتھ دیں ۔ ہندو کی سمجھ میں بات آگئی۔ وہ جانے سے پہلے ریلیف میں چندہ کے طور پر اپنا دس روپیہ دیا اور کہا ’’تم لوگ اچھا کام کررہے ہو‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جمہوری نظام ہوتے ہوئے آج تک شودروں اور دیگر کمتر قوموں کوبرابری کا درجہ نہیں مل سکا ،آج بھی انہیں بھگوان کی پوجا کے لیے مندروں میں جانے سے روک دیا جاتا ھے ، اور مذہبی صحائف کی تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ھے۔ جمہوری نظام بھی برہمن واد کو ختم نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ھے کہ ہندستان میں بھی اچھوت سمجھی جانے والی قومیں مذہب بدل رہی ہیں۔ان کا رحجان بدھسٹ کی طرف ہورہا ھے۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ھے کہ آج بھی جمہوری نظام کے تمام تر برابری کے دعوے جھوٹے اور بے اثر ثابت ہوئے ہیں ، کیونکہ جمہوری نظام بھی ایک طرح کی آمریت کی طرف داری کرتا ھے۔ جمہوری نظام میں بھی سرمایہ دار طبقہ اور طاقتور افراد کمزوروں کا استحصال کررہے ہیں۔ یہ صورتحال تمام تر جمہوری ممالک میں یکساں طور پر موجود ھے۔

تبصرے بند ہیں۔