نفسیاتی شكست

محمد شاہد خان

ایک کسان اپنے گدھے کو باندھنے کے لئے رسی تلاش کرتا ہوا پڑوسی کے گھر پہونچا اور اس سے رسی طلب کی، پڑوسی کے پاس دینے کیلئے رسی تو نہیں تھی البتہ اس نے سائل کو ایک حکیمانہ مشورہ دیا، اس نے کہا،  تم جاؤ اور گدھے کی گردن کے چاروں طرف اپنے ہاتھ اس طرح گھماؤ کہ جیسے تم اسے رسی سے باندھ رہے ہو , گدھے کے اندر یہ احساس پیدا ہوجانا چاہئے کہ تم نے اسے رسی سے باندھ دیاہے اور اب وہ اپنی جگہ سے بھاگ نہیں سکتا۔

کسان واپس اپنے گھر گیا اور اس نے بالکل ویسا ہی کیا جیسا کہ پڑوسی نے مشورہ دیا تھا۔ دوسری صبح جب وہ اٹھا تو دیکھا کہ گدھا بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اسے بڑی حیرت ہوئی، البتہ جب اس نے گدھے کو کام پر لے جانے کے لئے ہانکا تو وہ اپنی جگہ سے جنبش کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھا، اس نے پوری کوشش کر لی لیکن ناکام رہا، بالآخر ہانپتا کانپتا پھر پڑوسی کے پاس پہونچا اور اپنی مشکل بیان کی کہ گدھا تو اپنی جگہ سے ہلنے کو بھی تیار نہیں ہے، پڑوسی  نے پوچھا کیا تم نے اسکی رسی کھولی؟ کسان نے جواب دیا کہ رسی! کیسی رسی؟  اس کے گلے میں تو سرے سے کوئی رسی ہے ہی نہیں۔ پڑوسی نے کہا  کہ یہ تو تم سمجھ رہے ہو ناں لیکن گدھا تو ایسا نہیں سمجھ رہا، بلکہ وہ تو اب تک اسی خیالی رسی سے بندھا ہوا ہے جو  کل تم نے اسکے گلے میں باندھی تھی ،  لہذا اب جاؤ اور اس کے گلے کی رسی اسی طرح کھول دو جس طرح کل باندھی تھی، کسان بھاگتا ہوا گیا اور اس نے اس نسخہ کو آزمایا، اسکے بعد گدھا اسکے ساتھ کھیت جانےکو تیار ہوگیا۔

یہ بڑی سبق آموز کہانی ہے، کیونکہ تقریبا یہی حال انسانوں کا بھی ہوتا ہے۔ انسان بھی بسا اوقات تقلید وروایات، رسم ورواج اور توہم پرستی کی زنجیروں میں خود کو اس طرح جکڑ لیتا  ہے کہ وہ انہیں حرف آخر سمجھ لیتا ہے اور ان کے خلاف کچھ بھی سننے کا روادار نہیں ہوتا۔  فرسودہ روش سے ہٹ کر سوچنے کو گناہ کبیرہ خیال کر تا ہے، اس طرح اس کے تخلیقی ذہن پر گہرا زنگ لگ جاتا ہے، فکر وتدبر کے راستے بند ہوجاتے ہیں، قدرت کے راز ہائے سربستہ تک اس کی رسائی نہیں ہوپاتی، کائنات کی سچائیاں اس پر کبھی منکشف نہیں ہوتیں، کن فیکون کا سر نہاں اس پر کبھی نہیں کھلتا اور پھر وہ ایسی پستی میں جا گرتا ہے جہاں انسان وحیوان میں فرق باقی نہیں رہ جاتا۔

ہمارے گردوپیش میں علماء، ائمہ صوفیاء، اولیاء اور پیروں فقیروں سے عقیدت کا ایک ہالہ بنا ہوا ہے، لوگوں کی آنکھوں پر شخصیت پرستی کی پٹی اتنی دبیز ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے کا اجالا انھیں نظر نہیں آتا۔ چنانچہ عام رجحانات کے برخلاف جب گلیلیو یہ دعوی کرتا ہے کہ زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے تو 1633 میں اسے قید کردیا جاتا ہے اور بالآخر قید کی حالت میں ہی 1642 میں اس کی موت ہو جاتی ہے۔

اسی طرح دنیا ہزارہا ہزار سال سے یہ سمجھ رہی تھی کہ زمین چپٹی ہے لیکن سر فرانسس ڈریک نے 1597 عیسوی میں سمندری راستے سے زمین کا چکر لگا کر یہ ثابت کیا کہ زمین گول ہے۔ سارا زمانہ قرآن کے مخلوق ہونے کا قائل ہوتا جا رہا تھا لیکن حضرت امام احمد بن حنبل نے قرآن کے مخلوق نہ ہونے کی دلیل دی تو بدلے میں ان پر کوڑے برسائے گئے۔

ابن رشد، ابن باجہ، فارابی، بو علی سینا اور نہ جانے کتنے جیالے ہیں جن کے کارناموں سے تہذیب انسانی درخشاں ہے اور تاریخ انسانی کے محسنین کی فہرست میں ان کا نام ماتھے کے جھومر کی طرح چمک رہا ہے۔ لیکن جن روایت پرستوں اور خرافات کے اسیروں نے انھیں تعذیب کی چکی میں پیسا آج ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔

یورپ نے جب کلیسا کے فرسودہ اور ازکار رفتہ خیالات سے چھٹکارا حاصل کیا تب جاکر وہاں نشاۃ ثانیہ کی بہار آئی  اور یورپ اپنے پورے علمی جاہ و جلال کے ساتھ صفحہ ہستی پر نمودار ہوا، لیکن جب یورپ میں چھاپہ خانے، مشین گن اور بم بنائے جارہے  تھے، صنعتی ترقی اور ٹکنالوجی کا دور شروع ہورہا تھا اس وقت مسلمان ازکاررفتہ فلسفیانہ موشگافیوں اور فقہ و کلام کے فروعی مسائل و مناظرات میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہے تھے۔

دنیا میں اس وقت جو بھی ترقی ہو رہی ہے، علوم وفنون کے جتنے بھی سر چشمے بہہ رہے ہیں وہ دراصل انھیں عظیم انسانوں کی عقل کی زکاۃ ہے۔

اسلئے خود کو شخصیت پرستی اور فرسودہ روایات کے خول سے باہر نکالئے، اپنے ذہن ودماغ کو  فکروتدبر سے روشن کیجئے اور میرا یقین کیجئے کہ زندگی کی صبح نو آپ کی منتظر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔