نقش فریادی ہے!

تقدیس نقوی

آج علی الصبح  میر صاحب نے  ہمارے دروازے پر دستک دینے کے بجائے ہمیں بلند آواز میں ہمارا نام لیکر دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو ہمارے ساتھ ہمارے سارے پڑوسی بھی حیرت میں ڈوب گئے۔  سب کے لبوں پر ایک ہی سوال تھا کہ میر صاحب کو آخر یہ کیا سوجھی کہ انھوں نے اپنی ساری تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر کسی پھیری والے کی طرح یوں آوازیں لگانا شروع کردیں اور دروازے پر ایک ہلکی سی دستک دینا تک گورا نہ کیا۔

ہماری بیگم نے سرگوشی کرتے ہوئے یہ شک ظاہر کیا کہ کہیں غنیم و دشمناں میر صاحب کے ہاتھ میں کوئی چوٹ تو نہیں آگئی جس کے باعث وہ دروازے پر دستک دینے سے قاصر رہے۔

   کیونکہ میر صاحب کا اس طرح دق الباب  نہ کرنے کی غرض سے دست گریزی کرنا برسوں کے ہمارے پڑوسی ہوتے ہوئے انکی عادت کے خلاف تھا اس لئے ہم نے بھی دروازہ بڑی عجلت اور گھبراہٹ میں کھولا۔ دروازہ کھلنے پر میر صاحب نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے آو دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے کمرے میں چلتا ہوا سیلنگ فین بند کردیا۔ یہ دیکھ کر ہمیں مزید گھبراہٹ ہوئی کہ آخر میر صاحب کے ساتھ ایسا کیا ماجرا ہوا ہے کہ جو وہ اسطرح کی حرکتیں کررہے ہیں۔  ہم نے میر صاحب کو ٹھنڈا پانی پیش کرکے انھیں آرام سے بیٹھ جانے کے لئے کہا تو وہ اپنے ما تھے پر ہاتھ مارکر گھبرائے ہوئے لہجے میں کہنے لگے :

” جناب غضب ہوگیا۔ اس بار کا یہ الیکشن جانے کیا کیا رنگ دکھائیگا”

” اجی میرصاحب کچھ فرمائیگا بھی یا یونہی پہیلیاں بوجھتے رہینگے” ہم سے بھی انکی یہ حرکات دیکھ کر خاموش نہ رہا گیا۔

میر صاحب نے بغل میں دبایا ہوا آک آخبار جھٹ سے میز پر پھیلا دیا اور ایک خبر پر انگلی رکھتے ہوئے ہماری ساری توجہ اسی کی جانب مبذول کرائی۔

” اس خبر کو پڑھئے اور بتائیے کہ کیا اب ہمارے ملک میں عام آنسان اس الیکشن کے دوران چین سے رہ سکتا ہے ؟ "

ہم نے بھی معاملہ کی سنگینی اور عجلت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی عینک لگا کر جلدی جلدی وہ خبر پڑھنی شروع کی کہ جس کے باعث اج ہماری صبح کا سکون پارہ پارہ ہوا تھا۔ خبر کچھ یوں تھی:

” اندھرا پردیش کے چتوڑ میں الیکشن کمیشن کے مقامی عہدیداروں کو تیلگو دیسم پارٹیTDP کے ایک ڈیلیگیشن نے یہ شکایت درج کرائی ہے کہ اندھرا حکومت کے سب ہی دفاتر سے تمام ” سیلنگ فین” آتروادئے جاییں کیونکہ ‘ سیلنگ فین’ انکی مخالف پارٹی کا الیکشن نشان ہے۔  جس کو دفاتر میں لگا دیکھ کر ووٹروں کی انتخابی رائے مخالف پارٹی کے حق میں متاثر ہوسکتی ہے۔ "

دراصل مذکورہ خبرعام انسان کی روزمرہ کی زندگی کے حوالے سے تھی تو بہت سنسنی خیز اور دلچسپ کیونکہ اج ٹی ڈی پی نے حکومتی دفاتر سے سیلنگ فین اترو انے کی بات کی ہے تو کل کو انکی مانگ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پورے ملک یا کم ازکم پورے اندھرا پردیش میں الیکشن کے نتائج آنے تک سیلنگ فین بین ہونے چاہئے۔ اندھرا پردیش میں یوں بھی فضائی ٹیمپریچر ہائی رہتا ہے اور اب الیکشن کے دوران ماحول کا پارہ مزید بڑھنے کی امید ہے تو اب ایسی صورت حال میں بغیر سیلنگ فین کے عوام کا کیسے گذارا ہوگا ؟ اس سوال پر میر صاحب نے کچھ دیر سوچ کر رائے دی کہ پورے آندھرا پردیش میں الیکشن کمیشن کی نگرانی میں  اوراس کے ہی خرچے پر گھر گھر اے سی لگوانے کا بندوبست کرایا جائے اور اتارے ہوئے سیلنگ فین پڑوسی ریاست کرناٹک کو تحفتا” بھجوادینا چاہئے کہ جہاں کے حکومتی دفاتر میں لگے سیلنگ فینوں کی برابر اور منصفانہ تقسیم پر کانگرس اور جے ڈی یو اس میں ابھی بھی رسہ کشی جاری ہے اور نتیجتا” وہاں لگے ہوئے تمام سیلنگ فین وہاں کی موجودہ ریاستی حکومت کی طرح منجمد ہوکر رہ گئے ہیں۔

ہم نے بھی آندھرا پردیش سے آئی ہوئی اس  پسینہ امیز خبر سے متاثرمیرصاحب کی دلجوئی کے لئے انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر الیکشن کمیشن اس بابت کوئی فوری ایکشن لیتا بھی ہے تو انکے گھر کے سیلنگ فین اترتے اترتے تو مہینوں لگ جائیں گے کیونکہ حکومتی کاموں

 کے لئے ٹنڈر نکالنا اس کام سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔

مگر ساتھ ہی ہم نے ان سے اس بات کی بھی وضاحت چاہی کہ آخرانھوں نے اج ہمارے دروازے پر اپنی دستک دینے سے کیوں گریز کیا۔ جواب میں انھوں نے اپنا داہنا پنجہ کھول کر دکھاتے ہوئے ہمیں تنبیہ کی :

 ” جناب یہ بھی تو کانگرس پارٹی کا انتخابی نشان ہے اب اگر ہم لوگ یونہی الیکشن کے زمانے میں  اپنے ہاتھ کھلیعام استعمال کرتے رہے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ کانگرس مخالف پارٹیاں ہاتھ کو اس طرح کھلے عام استعمال ہوتے ہوئے دیکھ کر الیکشن کمیشن میں ضابطہ الیکشن کی خلاف ورزی کے طور پر شکایت نہ کردیں کہ دستک دیتے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر کہیں کوئی ووٹر کانگوس کی موافقت میں متاثر نہ ہوجائے اور EVM کا بٹن دبانے سے پہلے ہی گانگریس کی فتح ہوجائے اورہم ہاتھ دھرے کے دھرے رہ جائیں۔  اس لئے میں نے اج ہی سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دستک دینے کے بجائے آواز دیکر ہی کام چلا یا کرونگا اس سے پہلے کہ ہمیں کوئی اور ہاتھ دکھادے۔”

میر صاحب کی اس مدلل گفتگو سن کر کچھ دیر کے لئے تو ہمیں بھی پسینے آگئے اور ہم نے اپنے دونوں ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنی بغلوں میں دبا لئے۔

میر صاحب ہمیں فکرمند دیکھ کر کہنے لگے کہ ایسی خبروں کو سن کر تو مجھے اپنے خانساماں کی طرف سے بھی بڑی فکر ہورہی ہے۔ اگر اس کے انے جانے میں اس طرح کی رکاوٹیں پڑیں تو ہم تو پورے الیکشن کے دوران بھوکے ہی مرجا ئیں گے۔ ہم نے حیرت سے ان سے پوچھا کہ اخر سیلنگ فین سے اور اپ کے خانساماں کے انے جانے سے کیا تعلق ہے ؟ تو وہ ایک طنزیہ تبسم کرتے ہوئے مزید ہمارے ہوش اڑاتے ہوئے کہنے لگے : ” اور جناب بائیسکل کا کیا ہوگا ؟۔  وہ بھی تو سماج وادی پارٹی کا نشان ہے۔ اب اگر ہمارا خانساماں اپنی سائیکل چلاتا ہوا کسی سماج وادی پارٹی مخالف سیاسی پارٹی کے دفتر کے سامنے سے گذر گیا تو کیا آندھرا پردیش والوں کی تاسی کرتے ہوئے وہ لوگ بھی الیکشن کمیشن میں شکایت درج  نہیں کراسکتے کہ ہمارے خانساماں کی سائیکل دیکھ کر کوئی ووٹر بھی سماج وادی پارٹی کی موافقت میں ووٹ ڈالنے کے لئے متا ثر ہوسکتا ہے۔ چلتے چلاتے بے چارے کو سائیکل سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔ ویسے سنا ہے کہ لوگوں کے ایسے متوقع نقصانات کو پورا کرنے کے لئے بہوجن سماج پارٹی اپنی الیکشن ریلیوں میں سماج وادی پارٹی کی جانب سے جذبئہ خیر سگالی کے طور پر لوگوں میں سائیکلیں مفت بانٹنے کا پروگرام بنا رہی ہے اسی لئے وہاں لوگ بسوں میں بھر بھر کر لائے جارہے ہیں تاکہ وہ سائیکل سے واپس جاسکیں۔ "

"مگر اس طرح تو سماج وادی پارٹی کے لئے بہوجن سماج پارٹی کے اس عظیم جذبئہ خیرسگالی کا جواب دینا مشکل ہوجائیگا۔ ” ہم نے میر

 صاحب کے سیاسی تدبر کو جھنجھوڑا۔

” کیوں اپکو اس میں بھلا کیا قباحت نظر آرہی ہے ؟ ” میر صاحب نے اپنی بھنویں چڑھاتے ہوئے پوچھا۔

” جناب کیا اتنے کم وقت اور اس قحط ہاتھی کے دور میں اتنی تعداد میں ہاتھی مہیا کئے جاسکیں گے ؟ اپکو معلوم ہے ہمارے پورے ملک میں ہاتھیوں کی کل تعداد بہوجن سماج پارٹی کے زریعے پارکوں میں آیستادہ کرائے گئے پتھروں کے ہاتھیوں سے بھی کم ہوگئی ہے۔ یوں بھی جس امیدوار نے کسی چھوٹے سے ٹٹو کی سواری بھی کبھی نہ کی ہوگی وہ بھی اپنی الیکشن ریلی ہاتھی پرنکالتا ہے۔” ہم نے بھی میر صاحب کو زیر کرنے کی کوشش کی۔

” ارے بھئی اگر اگلی بار یوپی میں دونوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت بنی تو پھر اس کمی کو باقی پارکوں میں پتھروں کے ہاتھی آیستادہ کرکے پورا کردیا جائیگا۔ آخر ملک میں کچھ وکاس کے کام بھی تو کرنا پڑیں گے ” میر صاحب نے ایک شاطر سیاستدان کی طرح بہت نپے تلے انداز میں ہمیں تسلی دینے کی کوشش کی۔

میر صاحب کی بات معقول تھی اس لئے ہم نے بھی اپنے بچوں کی سائیکلیں گھبراہٹ میں  جلدی جلدی الیکشن کے نتائج انے تک احتیاطا” چھپا دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔