ننگے بچے کیسے اسکول جائیں؟

حفیظ نعمانی

 اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی اسکول چلو مہم کا 02  اپریل کو افتتاح ہوگیا۔ ’’خوب پڑھو آگے بڑھو‘‘ کے نعرے کے ساتھ حکومت نے 02  اپریل سے 30  اپریل تک کے درمیان اسکول چلو کا ایک خصوصی پروگرام اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ سماج کے ہر سرپرست اور ہر بیدار شہری سے حکومت نے اپیل کی ہے کہ اسکول چلو مہم میں ہر بچہ کو اسکول پہونچانے میں مدد کریں۔

وزیراعلیٰ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اُترپردیش میں مسلمانوں میں ایک قریشی برادری ہے جو لاکھوں کی تعداد میں ہر ضلع میں آباد ہیں ان کے کروڑوں بچے ہیں جن کے سرپرست یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں یا ایسا کام کررہے ہیں کہ کبھی ان کے بچوں نے کھانا کھا لیا اور کبھی بھوکے سوگئے ایسے ہی کبھی تن پر کپڑا ڈال لیا ورنہ ننگے ہی گھومتے رہے۔ ان کے پاس نہ کپڑے ہیں نہ جوتے ہیں جو یہ اسکول جاسکیں اور وزیراعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ غیرقانونی سلاٹر ہائوس ختم کئے جائیں گے اور نئے سلاٹر ہاؤس بنائے جائیں گے جہاں جانور ذبح ہوں گے اور ان کا گوشت دکانوں پر بکے گا۔

ہم اس بحث کو نہیں چھیڑتے ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ان کروڑوں بچوں کو اسکول جانے کا حق نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کیا کوئی حکومت برداشت کرے گی کہ لنگوٹی یا چڈھی پہنے ہوئے ننگے بچے وزیراعلیٰ کے اسکول چلو پروگرام کا حصہ بنیں؟ اور ٹی وی اور اخبارات کے ذریعہ دنیا میں یہ پیغام جائے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ کے یہ مسلمان بچے ہیں جن کے باپ اور بھائی کو حکومت نے ایک سال سے بے روزگار بنا دیا ہے۔

اخبارات میں ہی یہ خبر چھپی تھی کہ اب بلدیاتی ادارے سلاٹر ہائوس نہیں بنائیں گے۔  شہر سے باہر جو بنانا چاہے وہ قانونی پابندیوں کے ساتھ بنالے۔ یہ اجازت نہیں تھی بلکہ ایک طرح کا چیلنج تھا کہ دیکھیں کون بناتا ہے۔ اب خبر ہے کہ حکومت نے کوئی آرڈی نینس پاس کردیا ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کون کیا کررہا ہے ۔ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وزیراعلیٰ اسے برداشت کریں گے کہ ننگے لڑکے اور ننگی لڑکیاں اسکول چلو کی رونق بڑھائیں؟

جس برادری نے سیکڑوں برس پہلے اپنا ذریعہ معاش جانوروں کے گوشت کھال دانت ہڈی اور سینگ کو بنالیا ہے اب یہ کوشش کرنا کہ وہ آلو پیاز اور پالک بیچے ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی سنیاسی یا یوگی سے یہ چاہے کہ وہ گوشت کی دوکان کھولے۔ بی جے پی کے اقتدار سے پہلے ہی اس برادری کے خلاف ایک سازش یہ کی گئی تھی کہ ملک سے باہر بھیجنے والی فیکٹریوں کی اجازت دے دی گئی اور ناکارہ بھینس یا بھینسا وہاں مشینوں کے ذریعہ کاٹ کر مسلم ملکوں کو یا گوشت خور ملکوں کو بھیجا جانے لگا اور بھینس کا جو گوشت 35  روپئے کلو بکتا تھا وہ اچانک دو سو روپئے کلو ہوگیا جس سے ملک کے غریب مسلمانوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ اور سلاٹر ہائوس سب کے سب بند ہوجانے سے ان فیکٹریوں کا ناکارہ گوشت دو سو روپئے میں چوری سے بک رہا ہے وزیراعلیٰ کا پروگرام کہ بہتر تعلیم کے بنا کوئی بھی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا کی کون مخالفت کرسکتا ہے لیکن قریشی برادری کے وہ لاکھوں کہاں سے بچوں کے کپڑے اور جوتے لائیں؟ اور ایسا کون باپ ہوگا جو یہ برداشت کرے کہ اس کے ننگے بچے اپنا مذاق بنوائیں؟

اس کا آسان حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت ان کو اجازت دے دے کہ وہ شہر سے باہر جانور ذبح کریں اور گو شت شہر میں لاکر فروخت کرلیں۔ اور انہیں اس کی اجازت دی جائے کہ ایک سال میں دوکان معیاری بنا دی جائے اس کے بعد انہیں لائسنس دے دیا جائے اس وقت وہ اس حال میں نہیں ہیں کہ قانون کی پابندی کرسکیں ایک سال کی بے روزگاری آج کی مہنگائی میں گذارکر انہوں نے بغیر جرم کے سزا کاٹی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔