کسی کا اشک بہانا بھی سانحہ ٹھہرا

احمد کمال حشمی

کسی کا اشک بہانا بھی سانحہ ٹھہرا
ہمارا قتل بھی معمولی واقعہ ٹھہرا
۔
اس ایک بوسۂ نم کو گزر گئے برسوں
مگر لبوں پہ ابھی تک ھے ذائقہ ٹھہرا
۔
غزل میں ایک وہی شعر اچھا تھا، جس میں
تمہارا درد مرے غم کا قافیہ ٹھہرا
۔
تمہاری یادوں سے مغلوب اب نہیں ہونگے
دل و دماغ میں اب کے معاہدہ ٹھہرا
۔
کبھی وہ متن، کبھی مرکزی خیال رہا
اور ایک میں کہ ہمیشہ ہی حاشیہ ٹھہرا
۔
وہ میرے ساتھ نہیں ھے تولگتا ھے کہ وہ ھے
مرا خسارہ ہی اب میرا فائدہ ٹھہرا
۔
نتیجہ کچھ ہو مری جیت تو یقینی ھے
کہ آج مجھ سے مرا ہی مقابلہ ٹھہرا
۔
یہ کھونے پانے کا بھی سلسلہ عجب ھے بہت
پتہ جب اسکا ملا خود میں لاپتہ ٹھہرا
۔
کماؔل! اس نے جہاں میرا ساتھ چھوڑا تھا
میں چل رہا ہوں مگر ھے وہ راستہ ٹھہرا

تبصرے بند ہیں۔