جاگا ہوا ہوں اور نہ سویا ہوا ہوں میں

احمد کمال حشمی

جاگا ہوا ہوں اور نہ سویا ہوا ہوں میں
ایسا ترے خیال میں کھویا ہوا ہوں میں
۔
سب کو سنا رہا ہوں لطیفے نئے نئے
حالانکہ پھوٹ پھوٹ کے رویا ہوا ہوں میں
۔
خود کو کسی طرح نہیں کر پاتا ہوں الگ
کچھ اس طرح سے اس میں سمویا ہوا ہوں میں
۔
تجھ سے ترا خیال زیادہ حسین ھے
چپ رہ، کہ تیری یاد میں کھویا ہوا ہوں میں
۔
مرجھا رہا ہوں اور نہ پھل پھول آتے ہیں
کیا جانے کس زمین میں بویا ہوا ہوں میں
۔
لگتی ھے اجنبی سی مجھے خود مری صدا
برسوں پہ اپنے آپ سے گویا ہوا ہوں میں
۔
تو اپنے سر پہ سارے گنہہ لے لے اے کماؔل
سب کہہ رھے ہیں ”دودھ کا دھویا ہوں میں ”

تبصرے بند ہیں۔