ننھی پری

اختر سلطان اصلاحی

دادی جان جب سے لکھنؤ سے واپس آئی ہیں ہر دم ان کی زبان پرننھی پری ہی کا نام ہے ننھی پری روزآنہ سوتے وقت میرے سر پر تیل رکھتی تھی۔ ننھی پری میرے کپڑے دھو کر ان پر استری کرتی تھی۔ ننھی پری صبح پانچ بجے خود بھی بستر چھوڑ دیتی ہے اور پورے گھر کو بھی نماز کے لئے جگا دیا کرتی ہے، ننھی پری کو طرح طرح کے کھانے پکانے کا بڑا شوق ہے، بہت عمدہ اور لذیذ کھانے پکاتی ہے ۔ جب میں واپس آرہی تھی تو ننھی پری کے آنسو نہیں رُک رہے تھے وہ بار بار ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ نانی آپ دوبارہ کب آئیں گی۔
ابو، امی ، باجی اور چچا بھی داد ی کی باتوں میں شامل ہو جاتے اور سب ننھی پری کی محبت اور خدمت کے قصّے سنانے لگتے مگر گوہر اور نعیمہ کی سمجھ میں کچھ نہ آتا، چند روز پہلے نعیمہ اسکول کی لائبریری سے ’’جل پری کی کہانی‘‘ نام کی ایک کتاب لے کر آئی تھی۔ اس نے گوہر کو بھی جل پری کی کہانی سنائی تھی۔ دونوں کو یہ جان کر بڑی خوشی اور حیرت ہوئی تھی کہ جل پری کے پر ہوتے ہیں اور وہ پرندوں کی طرح جہاں چاہتی ہیں اڑ کر چلی جاتی ہیں۔ دادی جان ننھی پری کی بات تو بار بار کرتی تھیں مگر کبھی اس کے خوبصورت رنگ اور رنگ برنگے پروں کے بارے میں کوئی بات نہ کہتی تھیں۔ گوہر نے نعیمہ سے پوچھا ’’اپیا دادی تو پری دیکھ کر آئی ہیں، آئیے دادی کے پاس چلیں اور ان سے پری کے بارے میں مزیدار کہانیاں سنیں۔
دادی کو دونوں کے سوالات سن کر ہنسی آگئی، انہوں نے چٹ چٹ دونوں معصوموں کی بلائیں لیں اور بولیں آج میں ضرور اپنے لاڈلوں کو ننھی پری کا قصہ سناؤں گی۔ تم لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر آنا، دیر ہوئی تو میں سو جاؤں گی ویسے بھی تم جانتے ہو مجھے نیند جلد آجاتی ہے ۔
نعیمہ اور گوہر کو صبر کہاں تھا، دونوں نے جلدی جلدی عشاء کی نماز ادا کی اور دادی کے کمرے کی طرف دوڑے، اتفاق سے وہاں ابو بھی بیٹھے ہوئے تھے، دونوں نے ادب سے سلام کیا مگر بولنے کی ہمت نہ ہوئی ، دادی دونوں کے آنے کامقصد جانتی تھیں اس لئے ان کی بے قراری دیکھ کر ہنس پڑیں اور بولیں ’’گھبراؤ نہیں آج ہم لوگ تمہارے ابو ہی سے ننھی پری کا قصہ سنیں گے‘‘۔
ابو حیرت سے بولے ’’مجھے تو ننھی پری کا کوئی قصہ معلوم نہیں ہے اگر آپ کو معلوم ہو تو بتائیے میں بھی غو ر سے سنوں گا‘‘۔
دادی نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہانی سنانے لگیں۔ لکھنؤ میں تمہاری پھوپھی قمر رہتی ہیں ان کے دو بیٹے ہیں شہزاد اور بہزاد، شہزاد بڑے ہیں اور بہزاد چھوٹے، بہزاد کی شادی آگرہ میں ہوئی ہے۔ شادی کے بعد جب دلہن رخصت ہوکر آئی تووہ قد کی چھوٹی بالکل دھان پان جیسی تھی۔ خوبصورت ایسی جیسے چینی گڑیا، بہزاد کے ابو نے جب بہو کو دیکھا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا دلہن نہیں جیسے کوئی ننھی پری ہے ‘‘ بس اسی دن سے بہزاد کی بیوی کو سب ننھی پری کہنے لگے۔ اب کسی کو اس کا اصل نام بھی معلوم نہیں ہے۔ ہم لوگ اسی ننھی پریکی بات کرتے ہیں۔ وہ بہت نیک اور خدمت گزار ہے اسی لئے پورے گھر کی آنکھ کا تارا ہے ۔ کوئی مہمان چند دن کے لئے جاتا ہے تو اس کی اتنی خدمت کرتی ہے کہ مہمان ہمیشہ اسی کی تعریف کرتا ہے۔
نعیمہ اور گوہر کی سمجھ میں پوری بات آگئی تھی مگر انہیں اس کہانی میں کوئی مزہ نہ آیا وہ تو پری کی حیرت انگیز کہانی سننے آئے تھے۔ گوہر نے دادی کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ’’پیاری دادی جان آپ ہم کو حقیقی پری کا قصہ سنائیے ، ہمیں اس کہانی میں مزہ آئے گا‘‘۔
دادی جان نے کہا ’’حقیقی پری کی کہانی تو میں نے تم کو سنائی مگر تم کو مزہ اور لطف نہ آیا، کتابوں میں پریوں کے جو قصے تم پڑھتے ہو وہ سب فرضی اور بنائے ہوئے ہوتے ہیں، اس میں کوئی سچائی نہیں ہوتی۔ تم اس طرح کی کہانیاں جب بھی پڑھو یہ سوچ کر پڑھو کہ سب جھوٹی ہیں۔ لکھنے والوں نے یہ کہانیاں بچوں کو بہلانے کے لئے لکھی ہیں‘‘۔
گوہر اور نعیمہ کی سمجھ میں پوری بات آگئی۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی دادی جان سے پریوں کی کہانی سننے کے لئے ضد نہ کی۔

تبصرے بند ہیں۔