نوشتئہ دیوار پڑھ لیں مسلمان

19مئی 2014 کو پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج سامنے آگئے، نتائج اندازے کے مطابق ہی آئے ہیں۔ مغربی بنگال اورتمل ناڈومیں بالترتیب ممتابنرجی اورجے للتیاکی پارٹیوں کو پھر سے کامیابی ملی ہے، کیرل میں حسب سابق سرکار بد ل گئی ہے اورکانگریس کی جگہ لیفٹ فرنٹ سرکار قائم ہوگئی ہے۔ البتہ آسام میں بی جے پی بازی مار لے گئی۔ دوسری ریاستوں کے نتائج حیران کن نہیں ہے اورکم وبیش یہی اندازے تھے لیکن آسام کا نتیجہ بہت سے لوگوں کے لیے تعجب خیز ہوسکتاہے۔ حالانکہ بہت سے سیاسی پنڈتوں کی یہ رائے تھی کہ اس مرتبہ بی جے پی کو ریاست میں سرکار بنانے کا موقع مل جائے گا لیکن مسلمانوں کا ایک بڑاطبقہ اس رائے سے مطمئن نظر نہیں آتا تھا۔ راقم الحروف کو الیکشن سے قبل اورالیکشن کے بعد آسام کے سفر کا موقع ملااورپہلے ہی دورے میں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ بی جے پی حکومت سازی کے بہت قریب پہنچے گی،حالانکہ اس وقت بھی آسام کے بہت سے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ فضا میں تبدیلی واقع ہورہی ہے اورکانگریس پھر سے سرکار بنالے گی لیکن مجھے اس امکان نہیں لگ رہاتھا اوراس کی وجوہات بہت واضح تھیں۔ ایک تو آسام کے وزیراعلیٰ تروون گگوئی کسی قیمت پر بھی کسی سیاسی مفاہمت کی جانب مائل نہیں تھے دوسرے بی جے پی نے ریاست کی دودیگر اہم جماعتوں کے ساتھ کامیابی کے ساتھ مفاہمت کرلی تھی، تیسرے بنگلہ دیشی تارکین وطن کے موقف پر خود بنگالی ہندوووٹ بھی بی جے پی کی جانب کھسکتا محسوس ہورہاتھا۔ اسی بنیادپر یہ محسوس ہورہاتھاکہ نتیجہ بدل جائے گا۔ ان وجوہات کے علاوہ تیسری سب سے اہم وجہ اس تجزیے کی یہ تھی کہ کانگریس کا ایک بہت بڑا لیڈر جو ترون گگوئی کے بعد وہاں وزیراعلیٰ بننے کا سب سے بڑادعویدار تھا۔ یعنی ہمینت وسواس شرما، وہ عین وقت پر کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوگیا اوراس کے ساتھ دیگر ۹کانگریس ایم ایل اے بھی بی جے پی میں شریک ہوگئے جس نے یہ واضح کردیاکہ آسام کی سیاست کے مطلع پر کنول کھل جائے گا۔نتائج آنے سے قبل اورالیکشن ہوجانے کے بعد میں ایک بار پھر آسام گیا،وہاں کی تنظیموں کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں تب تک بھی وہاں کے مسلمان اسی خوش فہمی کا شکار تھے کہ کانگریس سرکار بنالے گی اوریو ڈی ایف کی سیٹوں میں اضافہ ہوجائے گالیکن ان کی رائے کے برخلاف میں نے اعلانیہ یہ کہاتھاکہ نتائج آپ کی خواہش کے خلاف آنے جارہے ہیں اوربی جے پی کی سرکار آسامی مسلمانوں کے مسائل بڑھانے والی ہے، اس کی تیاری آج ہی سے شروع کردینی چاہیے۔ چنانچہ آسام کے انتخابی نتائج انھیں خطوط پر برآمد ہوئے ،حالانکہ ان پانچ ریاستوں میں ہونے والے اس چناو¿ میں بی جے پی کی کہیں کوئی حیثیت نہیں تھی اورہر ریاست میں اس کا ووٹ بہت مختصر تھا، اس لیے اگر بی جے پی کو کہیں کچھ بھی نہ ملتاتو بھی بی جے پی کے لیے یہ کوئی بڑامرحلہ نہ ہوتا، لیکن جہاں کچھ نہیں تھاوہاں ایک ریاست میں اپنی سرکار بنالینا اوردیگر تمام ریاستوں میں اپناووٹ بڑھا لینابھی کوئی کم بات نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ نتائج کو ہر پارٹی اورہرطبقہ اپنی اپنی نظر سے دیکھے اوراپنے مفاد کے مطابق تجزیہ کرے گا۔کہنے کو یہ کہاجاسکتاہے کہ کانگریس کو مجموعی طور پر بی جے پی سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں اورووٹ بھی زیادہ ملے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی کیسے انکار کیاجاسکتاہے کہ کم سیٹیں اورکم ووٹ ہونے کے باوجود پچھلے الیکشن کے مقابلے بی جے پی نے کافی توانائی حاصل کی ہے اورکانگریس زیادہ ووٹ اورزیادہ سیٹیں لینے کے باوجود دوریاستوں میں اقتدار سے ہاتھ دوبیٹھی اوراپنی توانائی گم کردی۔ کانگریس کے لیڈران ایک طرف یہ دلیلیں دے رہے ہیں کہ  ہمارا ووٹ برقرارہے دوسری جانب یہی لیڈر ان نتائج کے بعد کانگریس قیادت پر تنقیدیں بھی کررہے ہیں، تبدہلی کی بات کررہے ہیں اورپارٹی میں جراحت کا ذکر بھی کیاجارہاہے۔ ان دونوں مختلف بیانوں سے صورت حال کا تجزیہ کیاجاسکتاہے۔
آسام کے انتخاب کو اگر ماڈل کی حیثیت سے لے لیں تو یہ تجزیہ تمام ریاستوں پر صادق آسکتاہے ۔آسام کے 126سیٹیوں میں سے بی جے پی کو 60 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں جب کہ اسے 29.5 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ کل ووٹ (4992185) ملے ہیں۔ جب کہ کانگریس کو کل 26 سیٹیں ملی ہیں اوراس کا ووٹ بی جے پی سے ڈیڑھ فیصد زیادہ یعنی 31 فیصد ہے کل ووٹ 5238655 ہے۔ تجزیہ کرنے کی اصل بات یہی ہے کہ ایساکس طرح ہوتاہے کہ کسی پارٹی کو ووٹ تو خوب ملے لیکن سیٹیں ہار جائے۔ جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ 2011 کے آسام اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو محض ۱۱فیصد ووٹ ملے تھے اور۵سیٹیں جیتی تھی جب کہ کانگریس کو 39 فیصد ووٹ پر 78 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ گویا ۸فیصد ووٹوں کے نقصان پر 52 سیٹیں گنوانی پڑی ۔اسی طرح اے جی پی کو پچھلے انتخاب میں 16 فیصد ووٹ پر 10 سیٹیں ملی تھیں۔ اس مرتبہ اس پارٹی کو محض ۸فیصد ووٹ پر 14 سیٹیں ملی ہیں،یعنی آدھاووٹ گنوادینے کے باوجود اس کی 4 سیٹوں میں اضافہ ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اس کو بی جے پی ووٹ کا فائدہ ملا۔ اسی طرح یو ڈی ایف کے ووٹ میں آدھافیصد اضافہ ہوجانے کے باوجود اسے پچھلے انتخاب کے مقابلے ۵سیٹوں سے ہاتھ دھوناپڑا۔ یہی حال بوڈوپیوپلز فرنٹ کا بھی ہے،جسے پچھلے انتخاب 6 فیصد ووٹ پر 12 سیٹیں ملی تھیں جب کہ اس مرتبہ 4 فیصد ووٹ پر بھی اسے 12 ہی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ انتخابی حساب کتاب صاف بتاتاہے کہ ووٹوں کی جمع وتفریق کی حکمت عملی ہی کسی پارٹی کو اقتدار کے قریب لانے میں مددکرتی ہے۔ یہ تجربہ 2013 کے ریاستی اسمبلی انتخابات سے اب تک مسلسل جاری ہے کہ بی جے پی کم ووٹ حاصل کرکے بھی زیادہ سیٹیں جیت لیتی ہے اوراقتدار کے قریب پہنچ جاتی ہے جب کہ دوسری پارٹیاں زیادہ ووٹ لے کر بھی اپنی سیٹیں ہار جاتی ہیں۔ انتخابی جمہوریت کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کو زیادہ ووٹ ملے وہ اقتدار میں پہنچے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے کہ کم ووٹ والااقتدار میں جارہاہے اورزیادہ ووٹ والا اقتدار سے بے دخل ہورہاہے۔ یہ نئی قسم کی حکمت عملی ہے جسے سمجھے جانے کی سخت ضرورت ہے۔ آسام کی بیشتر سیٹوں پہ کانگریس اوربی جے پی کے درمیان براہ راست مقابلہ ہوااورکانگریس بہت تھوڑے سے ووٹوں کے فرق سے ہارگئی اوراکثر جگہوں پر ووٹوں کی تقسیم اس کی ہار کا سبب بنی۔ چنانچہ جہاں کانگریس نے کامیابی حاصل کی وہاں اس کی جیت کا فرق زیادہ ہے اورجہاں ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہاری وہاں اس کی ہار میں ووٹوں کا فرق بہت کم ہے جس کی وجہ سے کانگریس کا ووٹ بڑھ گیا مگر سیٹیں کم ہوئیں۔ یہی حال 2014 کے لوک سبھاانتخابات میں بھی ہواتھا۔ بی جے پی نے کل 16 کروڑ ووٹوں کے ذریعے ۲۸۲سیٹیں جیتی تھی اورکانگریس ۱۱کروڑ ووٹ لینے کے باوجود محض 44 سیٹیں لے سکی جب کہ بی ایس پی ۳ کروڑ سے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود ایک سیٹ بھی نہیں لے سکی۔ اسی طرح دیگر علاقائی پارٹیوں کو بھی ووٹ بہت کم ملامگر سیٹیں زیادہ ملیں۔ یہ نتائج انتخاب کی اس حکمت عملی کو ظاہر کرتے ہیں کہ جہاں ریاضی زیادہ کام کرتی ہے اورمسائل کم کام کرتے ہیں۔ اس ریاضی پر عمل کرنے میں بی جے پی کو مہارت حاصل ہے اورکانگریس اسے سمجھ بھی نہیں سکی یاسمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
ملک میں سیاست کا منظر نامہ یکسر تبدیل ہوچکاہے۔ لیکن اکثر سیاسی پارٹیاں ابھی تک پرانی ڈفلی ہی پیٹ رہی ہے۔ وہ انتخابی مفاہمت اورسیاسی گول بندی کرنے میں ناکام ہیں اورذاتی مفادات، علاقائیت اورحصول اقتدار کے پیش نظرایک گٹھ جوڑ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتیں یا کرنانہیں چاہتی۔ خصوصا آسام میں تو جان بوجھ کر ووٹوں کو تقسیم ہونے دیاگیا۔ ترون گگوئی ریاست میں نرم ہندوتواکی سیاست ایک لمبے عرصے سے کررہے ہیں، انھیں کے زیراقتدار نہ تو بنگلہ دیشی تاریکین وطن کا مسئلہ حل ہوا، نہ شہری رجسٹرمکمل ہوسکا، نہ بوڈوکا مسئلہ حل ہوسکا اورنہ ریاست کو ہی کوئی معاشی استحکام حاصل ہوسکا، مزید برآں ان کے اکثر بیوروکریٹس بی جے پی کی ذہنیت کے لوگ رہے ہیں۔ خاص طور پر ریاست کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولس کھاجن شرماتو اس زہریلی ذہنیت کا مظاہرہ ہمیشہ کرتے رہے اورریٹائرڈ ہوتے ہی بی جے پی میں شریک ہوگئے۔ ایسے میں بی جے پی کو راہداری دینے کی ذمہ داری سے کانگریس بچ نہیں سکتی۔ ان انتخابات کے بعد کانگریس مکت بھار ت کا نعرہ اگر پوری شدت کے ساتھ اٹھاہے تو یہ بھی سمجھ لیناچاہیے کہ خود کانگریس ہی اس کی ذمہ دارہے جو پھولوں کی تھالی میں رکھ کر مرکزی سرکار بھی بی جے پی کو دے چکی ہے اورریاستی سرکاربھی۔
یہاں ایہ امر بھی ملحوظ خاطر رہناچاہیے کہ کشمیر کے بعد آسام ہی وہ ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی مقیم ہے۔ آسام میں مسلمانوں کے تقریبا۱کروڑآبادی ہے اوریہ ووٹ 126 میں سے 53 سیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں اور38 سیٹوں پر اپنے دم پر جیت لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ووٹ کے اعتبار سے ریاست میں سب سے بڑایکمشت ووٹ مسلمان ہی ہے باقی ووٹ مختلف طبقوں میں تقسیم شدہ ہے۔ اتنا بڑامتحدہ ووٹ ہونے کے باوجود مسلمان آسام میں کبھی حکومت سازی کے قریب نہیں پہنچ سکے۔ خود کانگریس نے بھی اتنے لمبے عرصے حکمرانی کے دوران اتنی کثیر مسلم آبادی والی ریاست میں محض ایک مرتبہ ایک سال کے لیے ایک مسلم وزیراعلیٰ دیا۔ مسنر اندراگاندھی نے سیدہ انورہ تیمور کو تھوڑے عرصے کے لیے ریاست میں وزیراعلیٰ بنایاتھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انورہ تیمور کا تعلق مقامی آسامی مسلمانوں کے طبقے سے تھاجب کہ آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ جنھیں یہ موقع اندراگاندھی نے بھی نہیں دیا۔ گویاخود کانگریس کا ذہن بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے لیے کبھی صاف نہیں رہا۔ یہ بھی واضح رہناچاہیے کہ آسام ہی وہ ریاست ہے جہاں دومرتبہ مسلم سیاسی جماعت کا تجربہ کیاجاچکاہے۔ پہلے یونائیٹیڈ مائناریٹیز فرنٹ بنایاگیاتھاجس کے 17 ایم ایل اے اسمبلی میں رہتے تھے اورایک ممبر پارلیمنٹ، ابھی تمام مسلم تنظیموں کے اتحاد کے ذریعے یوڈی ایف قائم کیاگیاجس کی صدارت بدرالدین اجمل کے سپرد کی گئی تھی۔ اس پارٹی نے پہلے 12 سیٹیں اوردوسرے انتخابات میں 18 سیٹیں جیتی تھیں جو گھٹ کر اب 13 رہ گئیں۔ اسی پارٹی کے ۳ممبران پارلیمنٹ بھی آسام سے منتخب ہوئے ہیں۔ اس بار یہ دعوى کیاجارہاتھا کہ بدرالدین اجمل کی یہ پارٹی کنگ میکر ثابت ہوگی لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ یہ دعویٰ کھوکھلاہے۔ نتائج کا تجزیہ صاف ظاہرکرتاہے کہ مسلم ووٹوں کی عمودی تقسیم کی وجہ سے بی جے پی کو یہ موقع ملاہے اورووٹوں کی اس تقسیم کا ایک ہی سبب ہے۔ پورے ملک کی طرح آسام میں بھی یہ واویلامچایاگیاکہ اگر یوڈی ایف کو ووٹ دیاگیا تو بی جے پی جیت جائے گی، چنانچہ اس کو ہرانے کے لیے کانگریس کو ووٹ دیاجائے۔ اگر یہ مفروضہ نہ پھیلایاجاتا تو ایک مسلم سیاسی جماعت کے پاس آسام میں اس وقت کم سے کم 40 سیٹیں ہوتیں تب وہ کنگ میکر کی صورت میں اپنا وزیراعلیٰ بھی بناسکتے تھے۔ ان انتخابات کا سب سے بڑاعبرتناک پہلویہی ہے کہ جہاں مسلمان اپنے دم پر جیت کے حکومت میں جاسکتے ہیں وہاں بھی بی جے پی کو ہرانے کا مفروضہ ان کے ووٹوں کو بے اثر کردیتاہے۔ سردست بی جے پی کی حکمت عملی بھی یہ ہے کہ مسلمانوں کے بڑے سے بڑے ووٹ کو بھی بے اثر کرکے حاشیے پر کھڑاکردیاجائے اورکوئی بھی سیاسی پارٹی اس ووٹ کو منہ لگانے سے خوف محسوس کرتی رہے۔ گویا بی جے پی بہت کامیابی کے ساتھ 15 فیصد ووٹ کو ملک کی سیاست سے بے دخل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے، ایسے میں اس 15 فیصد ووٹ کی حکمت عملی صرف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ فسطائیت اورسکولرزم جیسے نعروں کے فریب سے بالاتر ہوکر 15 فیصد ووٹ کو تنہا موثر بنانے کی کوشش کرے اوراس مفروضے سے بالاتر رہے کہ کون جیتے گا اورکون ہارے گا، وہ اپنے ووٹ کو متحدکرلیں۔ بھلے ہی انتخاب ہار جائیں۔ سیکولر پارٹیوں سے بھی آج تک نقصان کے سوا کچھ ملا تو ہے نہیں اور ہمارے پاس کھونے کو بھی ا ب کچھ بچا نہیں ہے ایسے میں اگر ملک گیر سطح پر ہم اپنے ووٹ کو اپنی ہی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے بینر تلے لانے میں کامیاب ہوگئے تو اقتدار کی لالچی علاقائی اورفرد واحد کی سیاسی جماعتیں اس متحدہ ووٹ کو اپنے حق میں لینے کے لیے اس سے سیاسی مفاہمت پر بالآخر مجبور ہوجائیں گی تب یہ متحدہ ووٹ رکھنے والی سیاسی جماعت اقتدار کے قلب میں پہنچنے میں کامیاب ہوسکے گی۔ اس کیلئے خلوص اور للہیت پر مبنی زمینی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سردست مسلمانوں کے سیاسی مرض کی اس کے سواکوئی دوسری دوانہیں ہے۔ مسلمانوں کے ارباب حل وعقد سرجوڑ کے بیٹھ کر اگر اس قسم کی ایک ملک گیر سیاسی جماعت پیداکر سکے تو اگلے چند سال میں ہی ان کا یہ مسئلہ تو کم از کم حل ہوسکتاہے۔ ہم بار بار ملت کو متنبہ کررہے ہیں کہ وہ فسطائیت کو ہرانے اورنام نہاد سیکولرپارٹیوں کو جتانے کی 36 سالہ ناکام حکمت عملی کو ترک کرکے نئے سیاسی ماحول میں نئی سیاسی حکمت عملی وضع کریں ورنہ مرض بڑھتاہی جائے گا جوں جوں دواکی جائے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔