نوٹ بندی اور کالا دھن: ایمانی نقطہ نظر سے

انسان دن رات جس چیز میں منہمک رہتا ہے دنیا کی ہر چیز کو اسی نظریے سے دیکھنے لگتا ہے۔ایک دنیا دار شخص جب کسی چیز کو دیکھتا ہےتو اسے دنیا داری ہی نظر آتی ہے۔ ایک ڈاکٹر جب چیزوں کا جائز لیتا ہے تو ڈاکٹری کے زاویۂ نگاہ سے لیتا ہے۔ایک سیاست داں روزمرہ پیش آنے والے ہر واقعہ کو اپنے سیاسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔اسی طرح ایک مومن کے سامنے جب کوئی واقعہ یا معاملہ پیش آتا ہے تو وہ اسے ایمانی نقطۂ نظر سے ہی دیکھتا ہے اور اس میں وہ اپنے مطلب کی بات نکال لیتا ہے۔ کوئی ایسی بات جس سے اس کا ایمان تازہ ہوجائے یا آخرت کی یاد تازہ ہوجائے یا اللہ و رسول کی محبت میں اضافہ ہوجائے۔اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ایسے لوگوں کو’’ اولوالالباب‘‘ یعنی عقل مند کا لقب عطا کیا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

أَمّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّہِ ۗ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنّمَا يَتَذَكّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ(سورہ الزمر : آیت:9)
ترجمہ: بھلا مشرک اچھا ہے یا وہ جو رات کے وقت زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتاہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟کہو! کیاعلم والے اوروہ جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (ہرگز نہیں اور) نصیحت تو وہی لوگ پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں۔ایک بزرگ کا واقعہ :ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی گلی سے گزر رہے تھے کہ قریب ہی کسی مکان سے ایک چھوٹی بچی کے یہ اشعار گنگنانے کی آواز آئی کہ:ع
چھوٹی ہوں لیکن کمال کردوں گی

بظاہر یہ گانے کے بول ہیں اور عشقیہ شعر کا مصرعہ ہے لیکن جیسے ہی بزرگ نے سنا تو بے ہوش ہوگئے۔جب ان کو ہوش میں لایا گیا اور لوگوں نے پوچھا کہ اس گانے میں آپ کو کیا مل گیا کہ آپ برداشت نہ کرسکے اور بے ہوش ہوگئے؟ کہنے لگے کہ تم لوگوں نے غور نہیں کیا ؟ ارے انسان کے گناہ اور اس کی خطائیں جنہیں وہ چھوٹی سمجھ کر نظر انداز کرجاتا ہے وہ انسان کو مخاطب کرکے کہتی ہیں کہ میں اگرچہ آج تمہاری نظروں میں چھوٹی ہوں لیکن بروز محشر کمال کردوں گی۔چھوٹی چھوٹی خطائیں جمع ہوکر بہت زیادہ ہوجائیں گی اور بالآخر انسان کو جہنم پہنچادیں گی۔کاش ہمارے اندر بھی یہ جذبہ ،آخرت کی فکر اور خوف خدا پیدا ہوجائے۔ہر واقعہ و معاملہ کو ایمانی نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کردیں اور واقعات و حادثات سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کرتے رہیں تو ہماری زندگی میں انقلاب آسکتا ہے۔

پچھلے دو مہینوں سے پورے ہندوستان میں نوٹ بندی اور کالے دھن کو لے کر کافی ہنگامہ ہورہا ہے جو اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ہندوستان کے پردھان منتری کی طرف سے اعلان ہوا کہ 8؍نومبر 2016 ء کی رات 12؍بجے سے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ اب نہیں چلیں گے ،وہ اب محض کاغذ کے ٹکڑے کہلائیں گے۔ہندوستانی حکومت کا یہ فیصلہ سیاسی نقطۂ نظر سے صحیح ہے یا غلط ؟اس سے قطع نظر ہم یہاں ایک مومن کی حیثیت سے ان واقعات پر نظر ڈالتے ہیں اور اپنے لیے عبرت حاصل کرتے ہیں ۔

اس سے پہلے چند باتیں ہم اپنے ذہن میں تازہ کرلیں کہ ہم سب سے پہلے انسان ہیں پھر مسلمان ہیں اس کے بعد ہندوستانی ہیں۔ساری کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے لہٰذا انسان ہونے کی حیثیت سے اللہ رب العزت ہمارا خالق اور حقیقی مالک ہے۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ رب العزت ہمارا حاکم مطلق ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کردیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔وہی عزت دیتا ہے۔ وہی ذلت میں مبتلا کرتا ہے کیوں کہ وہ ہر چیز پر قادر مطلق ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔قُلِ اللَّہُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(آل عمران: 26) [اے بادشاہت کے مالک تو جسے چاہے حکومت عطا کرتا ہے جس سے چاہے چھین لیتا ہے،جسے چاہے معزز بنا تا ہے اور جسے چاہے ذلیل و رسوا کرتا ہے،تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے۔یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔]

ہم ایک ایسی حکومت کے فرد ہیں جس میں حکومت کی سزاوار صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّہِ (يوسف:40)اس حکومت میں داخل ہونے کے بعد ہمیں اپنے معاملات و کاروبار میں،احکام و فیصلوں میں ان قوانین کی پابندی کرنی ہوگی جنہیں خدائے حکیم و بصیر نے انسانی معاملات کے حل اور اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے قرآن عظیم میں عطا فرمایا ہے۔اس یقین کے ساتھ کہ ہم اپنے ہر کام کے لیے اللہ رب العزت کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ دلوں کے بھید کو بھی جانتا ہے۔ يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ [غافر: 19]اللہ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے۔

ذرا غور کریں500؍ اور 1000 ؍کے نوٹ ہندوستانی حکومت کی کرنسی ہیں اور حکومت کے ایک اعلان کے بعد ان کرنسی نوٹوں کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ نہ رہی۔حالاں کہ اس اعلان سے پہلے ان نوٹوں کی قیمت و اہمیت اتنی تھی کہ اس سے ہم اپنی ضروریات زندگی پوری کیا کرتے تھے۔ہم ان نوٹوں کے بدلے راشن پانی خرید سکتے تھے،دور دراز مقامات پر سفر کرسکتے تھے۔اپنا قرض چکا سکتے تھے ۔ موٹر سائیکل،کار ،فریج ،کمپیوٹر یا کوئی بھی قیمتی چیز خرید سکتے تھے لیکن صرف ایک اعلان کی وجہ سے اس کی قدر و قیمت یکسر ختم ہوگئی۔یاد رکھیں بالکل اسی طرح انسان کی آنکھیں بند ہوتے ہی دنیا میں چلنے والی ساری کرنسیوں کی قدر قیمت ختم ہوجائے گی ۔اللہ تعالی نے ہمیں روپے پیسے کے علاوہ بھی ہزاروں نعمتیں دنیا میں عطا فرمائی ہے۔ہمیں رشتوں کی لڑی میں پِرو دیا،ماں باپ جیسی عظیم ہستیاں عطاکیں۔ کبھی کبھی ہم اپنے ماں باپ یا کسی اثر و رسوخ والے رشتہ دار کے نام کو بھی کرنسی کے طور پر استعمال کرلیتے ہیں اور نوکری کے لیے سفارش یا زمین کے جھگڑوں یا پولیس اور کورٹ کچہری کے معاملوں کو حل کرتے ہیں۔انسان کی روح جسم سے نکلتے ہی ان ساری کرنسیوں کی ویلی ڈیٹی(Validity)ختم ہوجائے گی۔نہ آپ کی دولت کام آئے گی نہ عالیشان اور پرتعیش مکانات اور بنگلے کام آئیں گے،نہ قیمتی سواریاں کام آئیں گی نہ بڑے سے بڑے دنیاوی رشتے کام آئیں گے یہ ساری کرنسیاں منسوخ ہوجائیں گی اس دن صرف نیکیوں اور اچھے اعمال کی کرنسی ہی کام آئے گی۔

قبر میں سب سے پہلے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس نماز کی کرنسی ہے کہ نہیں؟ روزوں کی کرنسی ہے کہ نہیں؟ تقوی و طہارت اور تلاوت قرآن کی کرنسی ہے کہ نہیں؟دوستو! ذرا تصور کرو کہ اگر ہمارے پاس وہاں کی کرنسی نہ ہوئی تو ہمارا کیا حال ہوگا؟جہنم کی اس آگ کو کیسے برداشت کرسکیں گے جس کا سب سے ہلکاعذاب ہی یہ ہوگا کہ جہنمیوں کو آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔اس لیے خدارا ! وہاں کی کرنسیوں کوبھی جمع کرتے رہو، بلکہ یہاں کی کرنسی کے بدلے بھی وہاں کی کرنسی خرید لو کیوں کہ حدیث میں آیا ہے:’’الدُّنْیَا مَذْرَعَۃ الآخرۃِ‘‘دنیا آخرت کی کھیتی ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس عارضی دنیا کی کرنسیوں کو جمع کرنے کے چکر میں آخرت کو بھول نہ بیٹھیں بلکہ اس کی بھی تیاری کرتے رہیں۔

اگر آپ مزید غور کریں تو نوٹ بندی کے بعد پیش آنے والے واقعات میں قیامت کی جھلک نظر آئے گی۔جیسے ہی نوٹ بندی کا اعلان ہوا لوگوں کا روز مرہ کے ضروری سامان خریدنامشکل ہوگیا۔کیوں کہ ملک بھر میں %۶۵ فیصد کرنسی ہزار پانچ سو کے تھے اور صرف %35 ؍ فیصد کرنسی دس ،بیس،پچاس اور سو کے نوٹ بچے تھے۔بھلا 35 ؍فیصد 65؍فیصد کی بھرپائی کیسے کرسکتے تھے؟ لہٰذا بازار ٹھپ رہا،لوگ بنکوں کے سامنے بھوکے پیاسے صبح سے شام تک لائن میں لگے رہے اور کسی طرح صرف دو ہزار کی کرنسی حاصل کرپائے۔کتنے لوگ تو بنکوں کی لائن میں ہی انتقال کرگئے ۔ وہ بھی اس سہولت (Facility) سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے تھے جنہوں نے پہلے سے بنکوں میں اکاؤنٹ کھول رکھا تھا۔جولوگ پہلے کبھی بینک نہیں آئے تھے ان کو تو اور زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

البتہ جن لوگوں کے پاس پہلے سے سو پچاس کے نوٹ موجود تھے انہیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ بالکل اسی طرح جب کل بروز محشر دنیا کی کرنسی منسوخ ہوجائے گی۔لوگ پریشان اور سرگرداں ہوں گے،دنیا میں جو چھوٹی موٹی نیکیاں کی ہوں گی وہ میدان محشر کی تپش اور پیاس سے بچنے کے لیے ایک گلاس پانی میں یا کسی پر کیے ہوئے ظلم و زیادتی کے بدلے چلی جائیں گی اور جب حساب کتاب ہوگا تو کچھ بھی نہ ہوگا ۔یہ تو ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں کبھی کبھی مسجد کا رخ کرلیا کرتے تھے یا اللہ کے نیک بندوں کے پاس چلے جایا کرتے تھے اورپوری زندگی اللہ کی نافرمانی میں گذاردی ۔لیکن جن لوگوں نے کبھی مسجد کا رخ بھی نہ کیا ہوگا اور کوئی نیک کام بھی نہ کیا ہوگا ان کا حال تو بہت ہی برا ہوگا۔پھر حساب و کتاب کے بعد جہنم کا عذاب ان کا منتظر ہوگا۔ ہاں جولوگ دنیا میں دنیا کمانے کے ساتھ اللہ تعالی کو نہیں بھولے ہوں گے۔مسجدوں اور اللہ کے نیک بندوں کے پاس جانا آنا لگا رہا ہوگا تو ایسے بندے آرام سے رہیں گے۔
یہ تو صرف ایک تمثیل تھی ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کا تو کوئی موازنہ ہی نہیںہے۔آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے لاکھوں کروڑوں درجہ زیادہ ہوگا، اس لیے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ملک میں بلیک منی(Black Money)یعنی کالےدھن پر روک لگانے کے لیےیہ اقدام کیا ہے۔اب آئیے بلیک منی اور کالا دھن پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بلیک منی وہ دولت ہے جس پر گورنمنٹ کو ٹیکس نہ دیا جائے۔(Black money is any money on which tax is not paid to the government.)اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔اگر سونا چاندی یا روپیے کی شکل میں آپ کی دولت بینک میں جمع ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ دولت حکومت کی نظروں میں ہے۔ اس لیے لوگ اپنے سونے چاندی اور روپے پیسے کو نقدی طور پر گھروں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔جو حکومت کی نظروں میں نہیں ہیں اور ٹیکس کی مقدار ہونے کے باوجود ادا نہیں کرتے تو یہ بلیک منی ہے۔مثال کے طور پر آپ ہول سیل ریٹ میں سامان بیچتے ہیں۔کسی نے آپ سے سامان خریدا اور اس کی قیمت ادا کی۔اگر آپ نے اسے رسید نہیں دی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اس خریدو فروخت کو حکومت سے چھپادیا اور سیل ٹیکس ادا نہیں کیا۔تو یہ بھی بلیک منی ہے۔

مثال کے طور پر آپ دلی جیسے شہروں میں کوئی رجسٹر ڈ کیے بغیرسواری گاڑی چلاتے ہیں۔تو اس کا جو کرایہ آتا ہے اسے بھی گورنمنٹ سے چھپاتے ہیں۔یہ بھی بلیک منی ہے۔آپ ریل اسٹیٹ یا زمین کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔فرض کیجیے کسی زمین کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے تو آپ آفیشیلی دس ہزار روپے لیتے ہیں اور اس پر 12%؍ فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں اور نوے ہزار روپے چھپاکر لیتے ہیں جس پر آپ ٹیکس ادا نہیں کرتے تو یہ بھی بلیک منی ہے۔اسی طرح کسی سرکاری آفیسر کو رشوت میں جو پیسے دیئے یا لیے جاتے ہیں وہ بھی بلیک منی ہے۔

ٹیکس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کی حکومت کے اقتصادی،اجتماعی اور ملک کی ترقی کے لیے ایک مختصر سرمایہ اداکرتے ہیں جو اس شخص کے لیے لازم ہے جو اس کی قدرت رکھتا ہو۔مثلا اگر کسی کے پاس ڈھائی لاکھ روپے سے کم ہیں تو اس پر ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔ اگر ڈھائی لاکھ سے زائد ہے تو پانچ لاکھ تک 10؍ فیصد ٹیکس،پانچ لاکھ سے دس لاکھ تک 20؍فی صد ٹیکس اور دس لاکھ سے جس قدر زائد ہو اس پر 30؍فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے۔

یہ تو ہندوستانی حکومت کی بات ہوئی اب ذرا اسلامی نقطہ نظر بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔جس مسلمان پر زکاۃ واجب ہو یعنی وہ صاحب نصاب (ساڑھے باون تولہ[665 ؍گرام] چاندی یا ساڑے سات تولہ [85 ؍گرام]سونے کا مالک)ہو اور اپنے اس مال پر ایک سال گذر جانے کے بعد بھی زکاۃ ادانہ کرے تو اس کا یہ مال اسلامی نقطۂ نظر سے بلیک منی اور کالادھن کہلائے گا۔زکاۃ کی مقدار صرف چالیسواں حصہ یعنی سومیں ڈھائی روپے ہی ہے۔ملکی ٹیکس انسانوں کی طرف سے لاگو کیا گیا ہے جس میں ایمان داری بھی نہیں برتی جاتی،نہ ہی صحیح مصرف میں خرچ ہوتی ہے بلکہ مختلف آفیسروں میں ہی باٹ کر ختم کردیا جاتا ہے اور زکاۃ اس پروردگار کی جانب سے عائد کیا جانے والا فرض ہے جس کا ادا کرنا مسلمانوں کے لیے عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور جو دین کا ایک رکن ہے۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم حکومت کو10؍ سے لے کر 30؍ فی صد تک تو ادا کردیتے ہیں لیکن اللہ تعالی کے حکم پر صرف ڈھائی فی صد نکالنا ہمارے اوپر بوجھ بن جاتا ہے۔ہم ایک اہم عبادت جو ہمارے مال کو پاک کرتا ہے اسے ہم نے بھلادیا ہے ۔ چوں کہ ہم اللہ کے دیئے ہوئے مال کی صفائی نہیں کرتے اس لیے ہمارا پورا مال ’’بلیک منی‘‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔

ہمیں چاہیے کہ جس طرح ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا مال حکومت کی نظر میں صاف اور وائٹ (White)رہے۔اسی طرح اسلامی اعتبار سے بھی اس کو وائٹ بنائے رکھیں جس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم زکاۃ ادا کریں اور صحیح مصرف میں خرچ کریں۔کیوں کہ اللہ تعالی دلوں کے راز سے بھی واقف ہے اس کی نظر سے کچھ پوشیدہ نہیں ہے لہٰذا صرف کاغذی خانہ پری سے کوئی اللہ بصیر و خبیر کی نگاہ سے بچ نہیں سکتا ہے۔صحیح مصرف پر خرچ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے:’’الدنیا مذرعۃ الآخرۃ‘‘لہٰذا جس طرح دنیاوی تجارت کرتے وقت ہم اپنا مال چھان بین کے بعد ایسی جگہ لگاتے ہیں جہاںہمارا پیسہ نہ ڈوبے۔اسی طرح آخرت کے لیے پیسہ لگاتے وقت بھی ہمیں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کہیں ہمارا پیسہ ڈوب تو نہیں رہا ہے؟ اور اس کا استعمال غلط تو نہیں ہورہاہے؟آج اگر انکم ٹیکس کی طرف سے ایک نوٹس آئے تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں لیکن کبھی سوچاہے کہ کل بروز محشر جب رب تعالی زندگی بھر کے بلیک منی کے بارے میں پوچھے گا تو اس وقت کیا جواب ہوگا؟حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ: جو شخص اپنے مال کا حق (یعنی زکوٰۃ) ادا نہیں کرے گا قیامت کے دن اس کے مال کو آگ کے ٹکڑوں میں تبدیل کیا جائے گا اور انہیں جہنم کی آگ میں اچھی طرح گرم کیا جائے گا اور پھر ان کے ذریعے اس شخص کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا۔ وہ دن جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔احادیث میں اس سے بھی زیادہ سزاؤں کا ذکر ہے تو کیا کبھی سوچاہے کہ اس دن کیا جواب ہوگا؟ بہتر ہے کہ آج ہی جاگ جائیں اور اپنے مال کی صفائی کرکے اسے بلیک منی ہونے سے بچالیں۔اللہ ہمیں توفیق خیر عطا فرمائے۔آمین۔

تبصرے بند ہیں۔