پاکیزہ معاشرہ کی تعمیر میں حیا کی اہمیت

 اسلام نے انسانوں  کو اخلاق وکردار سے قیمتی جوہر سے نوازا ہے، اور زندگی گزارنے کے اصول وآداب سے سرفراز کیا ہے، کون سی چیز اچھی ہے او رکون سی بری اس کو تفصیل کے ساتھ نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمایا، کن چیزوں  کو اختیار کرنے سے ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ کی تعمیر ہوتی ہے اور کن چیزوں کو اپنانے کی وجہ سے معاشرہ داغدار ہوتا ہے اس کو بھی واضح فرمایا۔اور انسانوں  کے دلوں  حیا کے جذبات کو پروان چڑھایا،شرم والی کیفیات سے بہر ہ ور کیا،اور اس سے متعلق تعلیمات و ہدایات عطاکرکے انسانوں  کو اوج ِ ثریا کی بلندی پر پہنچایا۔بلاشبہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے ایک اچھے اور صاف ستھرے معاشرہ کو بنانے اور اس معاشرہ کے ہر فرد کو عادا ت واخلاق میں  بہتر بنانے کے لئے نہایت اہم اور ضروری تعلیمات عطا کی ہے۔اور جو چیزیں  معاشرہ کی صحیح رخ پر تشکیل کرنے والی ہیں  ان کی اہمیت کو دلوں  میں  جاگزیں  کروایا۔چناں  چہ ایک پاکیزہ معاشرہ کی تعمیر میں  ’’شرم وحیا‘‘ کی بڑی اہمیت ہے، نگاہ ودل جب تک پاک نہیں  ہوں  گے اس وقت تک پاکیزہ تصورات اور پاک خیالات ترویج نہیں  پاسکتے۔

 نبی کریم ﷺ نے بڑے اہتمام کے ساتھ شرم وحیا کی تعلیمات دی، اس کی قدر ومنزلت کو بیان فرمایا،اور ہر ایک کی اس سلسلہ میں  کیا ذمہ داریاں  ہیں  اس کو اجاگر کیا،مرد وعورت دونوں  کو باحیا بننے اور بااخلاق ہونے کی ترغیب دی، یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے بااخلاق ہونے کے لئے حیا کے زیور سے مزین ہونا ضروری ہے، ورنہ چاہے وہ جتنا بھی تعلیم یافتہ، قابل، تہذیب وتمدن کا دعوے دار ہو اگر حیا کے جوہر سے محروم ہے تو بہت بڑا بداخلاق اور بد کردار کہلائے گا۔اگر اس زوایہ سے دیکھاجائے تو صاف معلوم ہوگا کہ آج کی دنیامیں  جو اپنے آپ کو مہذب ہونے اور ماڈرن ہونے کا صبح وشام راگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں  وہ حیاکے قیمتی زیورسے محروم ہیں  اور پوری دنیا کو بے حیائی کا بازار بنارکھے ہیں ۔ ایسے لوگ کبھی مہذب اور شرافت والے نہیں  ہوسکتے جن کے یہاں  آئے دن مختلف بہانوں  سے اور دنوں  کے نام پر بے حیائی کو پھیلایا جاتا ہو،شرم وحیا کی چادر کو تارتار کیا جاتا ہو،بچوں  کو باغی اور نوجوانوں  کو بے راہ رو ہونے کا سامان فراہم کیا جاتا ہواور دلوں  میں  ہوس کی آگ بھڑکائی جاتی ہو۔

ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرہ اور سوسائٹی کو پاکیزہ بنانے کی فکر کرے، ا س کے مردوں  او رعورتوں  میں  پاکیزگی کے خیالات کو فروغ دیں ، بچوں  اور نوجوانوں  کو پاکیزہ اخلاق کا حامل بنائیں ، اس کے لئے ضروری ہے اسلام نے جوحیا والی تعلیمات عطا کی ہیں  ان پر عمل پیرا ہوجائے۔ تو آئیے ایک مختصر نظر ان تعلیمات اور ہدایات پر ڈالتے ہیں  جو اسلام نے اور پیغمبر اسلام سید نا محمد رسول اللہ ﷺ نے حیا کے سلسلہ میں  عطا کی ہیں۔

حیا کی اہمیت

 اسلام میں  حیا ء پر بہت زور دیا گیا، اور حیا والی تعلیمات کو بڑے اہتمام سے بیان کیا اور جو چیزیں  بے حیائی کو فروغ دینی والی ہوں  گی اور جو لوگ بے حیائی کو پھیلانے کی کوشش کریں  گے ان کے لئے سخت وعیدیں  بیان کیں  ہیں ۔ حیا کو انسان کا قیمتی زیور قرار دیا گیا، حیا انسان کے نیک اور پاکباز اور سعادت مندہونے کی علامت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ان لکل دین خلق وخلق الاسلام الحیاء۔ ( ابن ماجہ:4179)ہر دین کی ( خاص ) عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت حیا ہے۔  آپ ﷺ کا ایک ارشاد گرامی ہے :الحیاء لایاتی الابخیر والحیاء خیر کلہ۔ ( بخاری:5679)حیا کا نتیجہ خیر ہے اور حیا ساری کی ساری خیر ہے۔ ایک ارشاد ہے : ان الحیا ء والایمان قرناء جمیعا فاذا رفع احدھما رفع الاخر۔( بیہقی :)حیا اور ایمان دونوں  ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں  ان میں  سے کوئی ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔ آ پ ﷺ نے فرمایا :الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء فی النار۔ ( ترمذی :1928) حیا ایمان میں  سے ہے اور ایمان( یعنی اہل ایمان ) جنت میں  ہیں ۔ اور بے حیائی بد ی میں  سے ہے اور بدی ( والے ) جہنمی ہیں ۔ آپ ﷺ کا ایک ارشاد ہے کہ:ماکان الفحش فی شئی الاشانہ وماکان الحیاء فی شئی الازانہ۔( ترمذی:1893)بے حیائی جب کسی میں  ہوتی ہے تو اسے عیب دا ربنائے گی۔ اور حیا جب بھی کسی چیز میں  ہو گی تو اسے مزین اور خوبصورت ہی کرے گی۔اور ایک اہم ترین ارشاد کہ : الحیا شعبۃ من الایمان۔ حیا ایمان کا ( اہم ترین ) شعبہ ہے۔ (بخاری:9)آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:اذالم تستحی فاصنع ماشئت۔( بخاری:3248) جب تم میں  حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔ان ارشادات میں  بڑی تاکید کے ساتھ آپ ﷺ نے حیا کی تعلیم دی اور حیا کے ساتھ مزین ہونے کا حکم دیا۔اور جولوگ بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں  ان کے بارے میں  قرآن کریم میں  سخت وعید بیان فرمائی ارشاد ہے : اِنَّ الّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوْا  لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْم ٌ فِیْ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ  وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ النور : 19)بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں  کہ ایمان والوں  میں  بے حیا ئی پھیلے، ان کے لئے دنیا اور آخرت میں  درد ناک عذاب ہے۔ ( النور:19)

حیا کی تعلیمات

     اسلام نے بے حیائی پر روک تھام لگانے اور معاشرہ کو پاکیزہ بنائے رکھنے کے لئے ہدایات بھی دیں  ہیں  تاکہ ان پر عمل پیرا ہوکر صاف ستھری زندگی گذاری جائے، ان تما م اسباب و سائل پر سخت پابندی عائد کی جو بے حیائی کو پھیلانے والے ہیں  اور جس کے ذریعہ اخلاقی بگاڑ وجود میں  آئے اور حیاکی تعلیمات دی۔سب سے پہلے اس بات کا حکم دیا کہ مر د و عورت نگاہوں  کی حفاظت کریں ۔ چناں  چہ فرمایا گیا :قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم۔ ( النور30)مومن مردوں  سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں  نیچی رکھیں  اور اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کریں ۔ یہی ان کے لئے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ اور عورتوں  کے لئے حکم دیا کہ:وقل للمومنت یغضضن من ابصارھم ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الاما ظھر۔ ۔۔۔ (النور:31)اورمومن عورتوں  سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں  نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کریں  اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں ۔ اور پردے سے متعلق تفصیلی احکامات دیئے گئے۔اسی طرح غیر محرم سے باتیں  کرنے سے بھی منع کیا گیا۔ ازواج مطہرات کے ذریعہ ایک عمومی حکم دیا کہ :فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قبلہ مرض قولن قولا معروفا۔( الاحزاب:32)تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو، کبھی کوئی ایساشخص بیجالالچ کرنے لگے جس کے دل میں  روگ ہوتا ہے، اور بات وہ کہوجو بھلی والی ہو۔عورت کو غیر محرم مرد کے ساتھ تنہائی میں  بیٹھنے سے منع کیا گیا۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ:کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں  نہیں  ملتا ہے مگر تیسرا شیطان موجود رہتا ہے۔ ( ترمذی:1087)عورت کو خوشبو لگاکر باہر نکلنے سے منع کیا گیا اور ارشاد فرمایاکہ:جو عورت خوش بو لگاکر لوگوں  کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوش بومحسوس کریں  تو زانیہ شمار ہوگی۔(مسند احمد:19271)عورت کو بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع کیا گیا اور فرمایاکہ:کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔( بخاری:1738)کسی  دوسرے کے گھر میں  بلااجازت داخل ہونے سے بھی روکا گیا، قرآن میں  فرمایا:یایھا الذین امنوا لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا،ذلکم خیر لکم لعکم تذکرون۔ (النور 27)

ایمان والو! اپنے گھروں  کے سوادوسرے گھروں  میں  اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور ان میں  بسنے والوں  کو سلام نہ کرلو،یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ بلکہ بعض روایتوں  میں  نبی کریم ﷺ نے اپنے گھر میں  داخل ہونے کے لئے بھی اجازت لینے کاحکم دیا۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ کیا گھر میں  داخلے کے لئے میں  اپنی ماں  سے بھی اجازت لوں ۔ آپﷺنے فرمایاہاں  ماں  سے بھی استیذان ہے۔ (حیا اور پاک دامنی:225) حیا اور پاکیزگی سے متعلق چند احادیث نقل کی گئیں ۔ حیا کی بقا اور پاکدامنی کے سلسلہ میں  مستقل احکام وہدایات اور ارشاد ت موجود ہیں ۔ صرف مختصر اشارہ کے لئے یہ ذکر کیں  گئیں  باقی یہ کہ اسلام نے بہت ہی اہتما م کے ساتھ  حیا کی تعلیمات دی۔ دنیا کے کسی اور مذہب اور قوم کے پاس حیا کے باب میں  اس قدر بہترین تعلیمات نہیں  پائی جاتی۔ یہ صرف اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ ان تمام تعلیمات کو عملی جامہ پہنا کر معاشرہ کو صاف اور پاکیزہ بنائیں  اور اخلاق وحیا کے کردار کو پروان چڑھائیں۔

 لمحہ فکر

ایمان و حیا کے لٹیرے اخلاق وکردار اور حیا و پاکدامنی کے دشمنوں  نے پوری دنیا کوآج بے حیائی کا بازار بنارکھا ہے، انسان کی عفت و عصمت محفوظ نہیں ، حکومتیں  اور سربراہان ِ قوم بے حیائی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر حیران و پریشان ہیں ۔ آئے دن نئے نئے قوانین نافذ کرنے اور اصول وضابطے بنانے میں  لگے ہوئے ہیں ، عصری سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گہری نگاہ مجرموں  پر رکھنے میں  فکر مند ہیں اور عورتوں  کو تحفظ فراہم کرنے ان کو امن دینے کی کوشش مین لگے ہوئے ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان وقتی اور ظاہری کوششوں  سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں  ہوں  گے جب تک کہ اسلام نے شرم وحیا اور اخلاق و کردار کی جو تعلیمات دیں  ہیں  ان پر عمل پیرا نہ ہوا جائے۔ اسکولوں، کالجوں  اور یونیورسٹیوں  کے نظام اور ماحول میں  اس طرح کی بے ہودہ رسموں  اور رواجوں  پر پابندی عائد نہ کی جائے،غیر ضروری اور بے ہودہ دنوں  اور ایام کا بائیکاٹ نہ کیا جائے اور مخر ب اخلاق تمام عادات و اطوار سے کلی طور پر اجتناب نہ ہو۔اس لئے ضروری ہے موجودہ اور آئندہ نسلوں  کی حفاظت کے لئے اسلام کی ان ہی تعلیمات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ان کی تربیت کی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔