نوٹ بندی سے ابھرے سوال

وزیراعظم نریندرمودی نے نوٹ بندی کے بعد ملک کے عوام سے پچاس دن مانگے تھے جو پورے ہوگئے۔ سب کچھ ٹھک ہونے کے انتظار میں لوگ صبر کے ساتھ لائنوں میں لگے ہیں۔ حالات کب تک معمول پر آئیں گے، اور کہاں کتنا اثر پڑے گا اس بارے میں ابھی کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ نوٹ گورنر ریزروبینک کے وعدے ’’میں دھارک کو۔۔۔روپے اداکرنے کا وچن دیتا ہوں‘‘ کے ساتھ جاری ہوتا ہے۔ توپھر ایسا کیا ہوا کہ وزیراعظم کو یہ وچن توڑنے کااعلان کرناپڑا۔ کہیں یہ قدم موجودہ سرکار کی آئینی اداروں کے اختیارات میں مداخلت اور ان کو اپنی ٹرمس ڈکٹیٹ کرنے والی سوچ کا حصہ تونہیں؟ کیوں کہ کرنسی سے متعلق معاملات کا ذمہ ریزروبینک کا ہے لیکن سرکار کے وزراء،نیتی آیوگ کے نت نئے بیانوں وریزرو بینک کے بدلتے سرکلروں سے یہ گمان ہوتا ہے۔ ویسے نوٹ بندی کے فیصلے سے بھارت کی کاغذی کرنسی کا اعتماد اور اس کی ساکھ کم ہوئی ہے۔ نوٹ کے مقابلے’پلاسٹک منی‘ کارڈ کرنسی پر بھروسہ بڑھا ہے۔ جس پر ریزروبینک کے گورنر کے وعدے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو سرکار نے کارڈ کرنسی سے لین دین کرنے والوں کو انعام دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
نوٹ منسوخی کو کالا دھن، دہشت گردی اور جعلی کرنسی کے خاتمے کے لئے ناگزیر بتایا گیا تھا۔ اس وقت یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ سرکار کے اس قدم سے کرپشن، مہنگائی کم ہوگی اور غریبوں کو فائدہ ہوگا۔ نوٹ بندی کے فوراً بعد کے ا ین گوونداچاریہ نے اپنی فیس بک وال پر لکھاتھا کہ سرکار کو اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ مودی کا یہ فیصلہ کوئی دور رس نتائج نہیں لاپائے گا۔ صرف ایک اور انتخابی جملہ بن کر رہ جائے گا۔ وہیں پی چدمبرم کا ماننا تھا کہ چھوٹے فائدے کیلئے اس سے ملک کا بڑا نقصان ہوگا۔ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ نوٹ بندی کسی بھی ملک کے حق میں نہیں رہی۔ جی ڈی پی میں کم ازکم دوفیصد کی گراوٹ آئے گی جس سے چھوٹے ومنجھولے کاروبار پر بہت برا اثر اپڑے گا۔ بے روزگاری بڑھے گی۔ ماہر اقتصادیات کو شک بسو، امرت سین اور پالی کورگ مین کا ماننا ہے کہ اس سے نہ کرپشن کم ہوگا اورنہ مہنگائی۔ اس سے ایک ہی بدلاؤ آئے گا، بے ایمان اور ہوشیار ہوجائیں گے اورمعیشت گرت میں چلی جائے گی۔ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق 1000-500 روپے کے نوٹوں میں موجود کرنسی کا 90فیصد سے زیادہ پیسہ بینکوں میں واپس آچکا ہے۔ سرکار کو شاید کچھ ہی دنوں میں اس بات کا احساس ہوگیا تھاکہ اس فیصلے سے کوئی خاص فائدہ ہونے والا نہیں ہے تبھی تو اس نے کالے دھن کے ساتھ کیش لیس اکنامی اور پھر نقدی کے بغیر یا کارڈ کرنسی میں لین دین کی بات کرنا شروع کردیا۔
مودی سرکار کا ماننا تھا کہ کالی دولت کا بڑا حصہ1000-500روپے کے نوٹوں میں رکھا گیاہے۔ اگر نقدی کو ختم کردیا جائے تو کالا دھن بننا بند ہوجائے گا۔ بھارت میں 90فیصد لوگ نقد میں لین دین کرتے ہیں۔ ماہر معاشیات کے مطابق ان میں سے زیادہ تر لوگ کالی دولت کے دائرے میں نہیں آتے۔ ہماری 40فیصد آبادی غریب ہے، دنیا کے انتہائی غریب لوگوں میں شامل، کسان ہیں جن کی آمدنی ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتی۔ دوفیصد لوگ ٹیکس چکانے کے لائق ہیں ان میں بھی زیادہ تر نوکری کرنے والے ہیں جن کا ٹیکس تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ سبزی بیچنے والے، ہاکر، مزدور، میکنک اور گھوم پھر کر چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے، یا پھر پنشن پر منحصر لوگ اپنا گزارا مشکل سے چلاتے ہیں ان کے پاس کالا دھن کہاں ،تو پھر ان کروڑوں لوگوں پر نوٹ بندی کا فیصلہ کیوں تھوپا گیا؟ جن کا کرپشن اور کالے دھن سے کوئی تعلق نہیں۔ بقول این ڈی پنچولی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ’’ اس نوٹ بندی میں قانونی خامی ہے۔ آربی آئی کے سیکشن26کے تحت ریزوبینک کا مرکزی بورڈ اپنی میٹنگ کے بعد سرکار سے نوٹ بندی کی سفارش کرتا ہے۔ سرکار آرڈیننس پاس کر نوٹ بندی کااعلان کرتی ہے۔حزب مخالف کا مطالبہ تھا کہ نوٹ بندی پر پارلیمنٹ میں دفعہ56یا184 کے تحت بحث کرائی جائے۔جبکہ سرکار چاہتی تھی کہ دفعہ193کے تحت چرچا ہو کیوں کہ اس میں ووٹنگ کرانے کا پرویژن نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ میں بحث ہوتی تو بہت سی باتیں صاف ہوجاتیں۔بحث کرانے میں اکثریت والی سرکار کو کس بات کا ڈر تھا؟
بظاہر نوٹ بندی کی دووجہ سمجھ میں آتی ہیں، ایک پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات، مودی جی مانتے ہوں گے کہ کانگریس سمیت ریاستی پارٹیوں کے پاس بڑے نوٹوں کی تھپیاں ہیں، جنہیں وہ الیکشن میں جھونک کر بی جے پی کو چنوتی دے سکتی ہیں۔ نوٹ بند کرکے انہیں انتخابات میں کیش پول کرنے سے روک دیا جائے۔1978 میں ہزار، پانچ ہزار اور دس ہزار کے نوٹ بند کرنے کے وقت مورارجی دیسائی سے پوچھاگیا کہ انہوں نے اتنا سخت قدم کیوں اٹھایاتو ان کا جواب تھا’’ مسز گاندھی کو سبق سکھانے کیلئے‘‘ موجودہ وزیراعظم بھی گجرات کے ہیں اوران کے من میں بھی سریمتی گاندھی کے تئیں اتنی ہی ناپسندیدگی ہے۔ اس کا اندازہ ان کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہاتھا کہ الیکشن ہارنے کے ڈر سے سریمتی گاندھی نے نوٹ بند نہیں کیے۔ اگر انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہوتا توشاید آج ہمیں یہ مشکل قدم نااٹھاناپڑتا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے مورارجی بھائی دیسائی نے بڑے نوٹ بند کئے تھے کیاا س سے نوٹ بندی کا مقصد پور ا نہیں ہوا اگر ایسا ہے تو یوپی اے کی سرکار سے پہلے ساڑھے چھ سال این ڈی اے کی حکومت تھی۔ انہوں نے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ 2013میں منموہن سرکار نے فیصلہ لیاتھا کہ 2005سے پہلے کے پانچ سو روپے کے نوٹ چلن سے باہر کردیے جائیں۔ انہیں بینک میں جمع کرنے کی ایک مدت بھی مقرر کردی گئی تھی۔ بھاجپا نے سرکار کے اس قدم کی شدید مخالفت کی تھی کیوں؟
دوسرے نریندرمودی نوٹ بندی کے ذریعہ غریب، کسان، دلت مخالف، فرقہ پرستوں کی حمایتی، سوٹ بوٹ کی سرکار کی شبیہ کو بدلنا چاہتے تھے تاکہ غریب ووٹروں میں جگہ بنائی جاسکے۔ اسمارٹ سٹی، اسٹینڈ اپ انڈیا، پنشن، فصل بیمہ، اسٹارٹ اپ انڈیا، جن دھن اور سوچھ بھارت جیسے قدم انہیں یہ مقام نہیں دلاسکے۔ اس لئے وہ کوئی اتھل پتھل مچانے والا قدم اٹھانا چاہتے تھے۔ کیوں کہ بیرون ملک سفر کا ووٹروں پر محدود اثر ہوا۔ سرجیکل اسٹرائیک بھی گھاٹی کی برفیلی ٹھنڈ میں لڑکھڑا گئی۔شاید وہ روایتی چیرلیڈر کی تالیوں کے پار جاناچاہتے تھے۔ اسکے لئے انہوں نے بھاجپا کے راویتی ووٹروں متوسط طبقے اور کاروباریوں کی ناراضگی کا جوکھم اٹھانے کی ہمت کی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح اندرا گاندھی نے بینکوں کو نیشنالائز کرا میروں کو چوٹ پہنچانے کا غریبوں کو پیغام دیاتھا۔ جس پر پورے حزب اختلاف نے ان کی مخالفت کی تھی۔ اسی کے بعد اندراجی نے غریبی ہٹاؤ کا نعرہ دیا تھا۔ انہوں نے پوسٹر بینروں پر لکھوایا ’’ وہ کہتے ہیں اندرا ہٹاؤ، اندرا جی کہتی ہیں غریبی ہٹاؤ‘‘ اس سے ملتا جلتا نعرہ مودی نے اپنی سبھاؤں میں دیا اور حزب اختلاف کوا س مدے پر گھیرا۔ انہوں نے کم آمدنی والوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ سرکار کا یہ قدم سماج میں برابری لانے کی بڑی وجہ بنے گا اورامیر غریب کا فرق کم ہوگا۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ لائنوں میں یہی غریب طبقہ کھڑا ہے۔ رسوخ دار لوگوں کو ساری سہولتیں ان کے گھر پر مل رہی ہیں۔ نوٹ بندی سے متاثر ہونے والوں میں ہاتھ سے کام کرنے والے کاریگر، تعمیرات میں کام کرنے والے آرگنائزوغیر آرگنائز مزدور، زراعت کے کام میں لگے لوگ، میرٹھ کی قینچی، لدھیانہ کے سائیکل، آگرہ کے چمڑے کے سامان بنانے والے، بنارس کے ساڑی کے کاریگر، زری کا کام کرنے والے، قالین بنانے، کرگھوں میں کام کرنے والے، بیٹری اور کھیتی ہرمزدوروغیرہ شامل ہیں جنہیں نقدی میں اجرت ملتی ہے۔ ان کی تعداد کل آبادی کی تقریباً 80فیصد سے زیادہ ہے۔ پرائز واٹرہاؤس کوپرس(PWC) کی 2015کی رپورٹ کے مطابق دیش میں 23.3کروڑ لوگ اب بھی بینکنگ کے دائرے سے باہر ہیں۔ ریزرو بینک کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 131کروڑ عوام کیلئے کل1.34لاکھ برانچیں ہیں۔ لگ بھگ1000لوگوں کیلئے ایک بینک۔ ان میں بھی زیادہ تر بینک شہری علاقوں میں ہیں یعنی12گاؤں کیلئے ایک بینک۔ دیش کے80کروڑ لوگ گاؤں میں رہتے ہیں۔ بھاسکر کے ذریعہ کرائے گئے پانچ ریاستوں کے 1310گاؤں کے سروے سے معلوم ہوا کہ 61فیصد گاؤں میں اے ٹی ایم نہیں اور 86فیصد سواائپ مشینوں سے دور ہیں ۔سہکاری گرامیٹربینکوں میں نقدی نہ پہنچنے سے حالات اورخراب ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب لوگوں کو بینکوں سے کیسے جوڑا جائے گا؟ پہاڑی اورآدی واسی علاقوں میں یہ کام اور بھی مشکل ہے۔
سرکار نقدی کے بغیر پلاسٹک منی، کارڈ کرنسی کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔ یہ کام پہلے سے ہی بھارت میں بہت تیزی سے چل رہا ہے۔ ہمارے یہاں ای کامرس کا پھیلاؤ51 فیصد کی در سے ہورہاہے۔ جبکہ چین میں18اور جاپان میں11فیصد پراٹکا ہوا ہے۔ ریزرو بینک کے ہی آنکڑے ہیں کہ مارچ2016 تک کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ لین دین میں 27فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اورڈیبٹ کارڈ کے استعمال میں48فیصد کا۔ مارچ 2016 تک سات کروڑ 22لاکھ 20ہزار لوگوں نے کریڈٹ کارڈ سے اور 11کروڑ 28لاکھ 70ہزار لوگوں نے ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ لین دین کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کارڈ کرنسی کو بڑھاوا دینے کیلئے نوٹ بندی کی کیا ضرورت تھی؟جبکہ عوام خود الیکٹرونک لین دین میں دلچسپی لے رہے ہیں پھر بھی
سرکار پے ٹی ایم اور موبائیل والٹ (بٹوے)کا اشتہار کیوں کررہی ہے ؟ سرکار کا یہ سوچنا کہ نقدی کم کرنے سے کالا دھن ختم ہوجائے گا حقیقت پر مبنی نہیں ہے کیوں کہ جو ممالک کارڈ کرنسی میں زیادہ کاروبار کرتے ہیں وہاں بھی کالا دھن بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ چین اس کی مثال ہے جہاں صرف 45فیصد لوگ کیش میں کام کرتے ہیں وہاں کے کاروباری 249.7ارب ڈالر کالے دھن کے طورپر دنیا کے الگ الگ ٹھکانوں پر کھپا چکے ہیں۔ کارڈ کرنسی کی وجہ سے عوام کو کئی پریشانیوں کا سامناکرنا پڑے گا۔ ایک یہ کہ ڈجیٹل لین دین میں سائبر چوری کا خطرہ بنارہے گا۔ یہ پلک جھپکتے ہی کسی شخص کو کروڑ پتی سے کوڑی پتی بناسکتے ہیں۔ امریکہ، چین اور اسرائیل جیسے ممالک اس پر قابو نہیں پا سکے تو ہم کیسے اس کا مقابلہ کریں گے۔ دوسرے پلاسٹک منی کے استعمال سے لوگوں کی جیب فضول میں کٹے گی اورملکی و غیرملکی کمپنیوں کا موٹاپا بڑھے۔ یہ سراسر لوٹ نہیں ہے توکیا ہے؟ اس سے لوگوں کی پرائیویسی پر بھی اثر پڑے گا۔ کوئی کیا خرید رہا ہے یہ سرکار چاہے تومعلوم کرسکتی ہے۔ ساتھ ہی کسی بھی شخص کے ٹرانجکشن پر روک لگاسکتی ہے۔ اس سے لوگوں پر سرکار کی پکڑمضبوط ہوگی جو ان کی اقتصادی آزادی کے خلاف ہوگا۔ پچاس دن کی میعاد پوری ہونے کے بعد وزیراعظم کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ ملک کو اس کا انتظار ہے۔ دیش آئندہ کس طرف جائے گا یہ ان کے اگلے فیصلے پر منحصر ہوگا۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔