نوٹ بندی کے معاملے میں حکومت کی بری طرح ناکامی

عبدالعزیز

 نوٹ بندی کے معاملے میں مودی جی کی ایسی ناکامی ہوئی ہے کہ انھیں ہندستانی قوم سے معافی مانگنی چاہئے کیونکہ انھوں نے نوٹ بندی کے سلسلے میں تین بڑے مقاصد بتائے تھے۔ ااس کے مقاصد تھے کہ کالا دھن حاصل ہوگا، دہشت گردی کو ختم کیا جاسکے گا اور نکسل وادیوں پر ضرب پڑے گی۔ نہ تو کالا دھن ہاتھ آیا اور نہ دہشت گردی میں کمی آئی بلکہ دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ قابو سے باہر ہے، نکسل وادیوں کے بھی کئی حملے ہوچکے ہیں۔ 8نومبر 2016ء کو نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ اگر 30دسمبر تک حالات نارمل نہیں ہوئے تو جو سزا عوام چاہیں گے ان کو دے سکتے ہیں۔ مشکل سے حالات فروری، مارچ میں نارمل ہوئے۔ عوام آہستہ آہستہ مصائب اور مشکلات بھول گئے اور عوام کی سمجھ میں آیا کہ عوام کے بجائے خواص خاص طور سے امیر طبقہ مشکلات کا شکار ہوا جبکہ امیر طبقہ نہ مشکلات میں مبتلا ہوا نہ قطار میں کھڑا ہوا اورنہ کوئی ان میں بینک کے سامنے لائن لگاتے وقت موت سے دوچار ہوا۔

ریزرو بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں حکومت کو بے نقاب کر دیا یہ کہہ کر کہ حکومت نے جن مقاصد کا اعلان کیا تھا ان میں سے کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ 1946ء میں نوٹ بندی ہوئی تھی اور 1947ء کے آخر میں ختم ہوئی تھی۔اس وقت کے وزیر خزانہ چنتا منی دیش مکھ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت بھی حکومت بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ مودی جی نے ماضی سے بھی سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور کروڑوں انسانوں کو مشکلات اور مصائب میں مبتلا کردیا۔ لاکھوں لوگ بیکار اور بے روزگار ہوگئے اور ہزاروں کل کارخانے بند ہوگئے۔ جن کو نوکریوں کا انتظار تھا وہ بھی مایوسی کے شکار ہوئے۔ نومبر 2016ء سے مئی 2017ء 17.526 کروڑ روپئے غیر اعلانیہ آمدنی ہوئی اور 1003کروڑ پر چھاپے ماری سے دستیاب ہوئے۔ اب تحقیق اور چھاپے کا کام جاری ہے۔ جو انکم ظاہر نہیں کی گئی اور Assessment اور اپیل کے بعد جو حاصل ہوگا حکومت اس میں بھی بہت کچھ کھو دے گی اور جو کچھ آخر میں حاصل ہوگا وہ بہت کم ہوگا۔

16 ہزار کروڑ نئی نوٹوں کے چھاپنے میں خرچ ہوا اور اس سے بہت کم رقم نوٹ بندی سے حکومت کے ہاتھ آئی ۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ نوٹ بندی سے پولرائزیشن (Polarisation)یوپی میں ہوا۔ گوا اور منی پور میں فریب اور دھوکہ بازی کا مظاہرہ ہوا، یوپی اور جھار کھنڈ میں بچوں کی اموات واقع ہوئی اور ہریانہ میں عوام کی طرف سے تشدد کا بڑے پیمانے پر مظاہرہ ایک بار نہیں کئی بار ہوا اور سیکڑوں جانیں تین بار کے تشدد آمیز مظاہرے میں تلف ہوئیں۔ اربوں کی جائیداد اور املاک تباہ و برباد ہوئی۔ اس طرح دیکھا جائے تو این ڈی اے ایسی انتہا پسند اور عجوبہ سیاست کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے سماجی اور معاشی تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آرہا ہے۔

 تعجب خیز بات یہ ہے کہ عوام میں کوئی بے چینی اور اضطراب نہیں ہے۔ مہنگائی سے عوام ضرور پریشان ہیں۔ جی ایس ٹی سے ٹیکس کی مار غریب سے لے کر امیر تک بھگتنے پر مجبور ہیں مگر وقت کے حکمراں پر بال برابر فرق نہیں پڑ رہا ہے بلکہ اس کے برعکس اپوزیشن کے ایم ایل اے اور ایم پی بکاؤ مال کی طرح بک رہے ہیں بلکہ حکومت تک جیسے بہار میں ہوا این ڈی اے کے قبضہ میں چلی جارہی ہے۔ اپوزیشن میں کمزوری اور افتراق پیدا کرنے میں حکمراں جماعت کامیاب ہے۔ آگے کیا ہوگا خدا ہی جانتا ہے مگر مرکزی حکومت جو عوام کے دکھوں مصیبتوں میں روز بہ روز اضافہ کر رہی ہے وہ حیلے اور بہانے سے کام لے رہی ہے۔ روز ایک نہ ایک ایسا مسئلہ اٹھا رہی ہے جو کوئی مسئلہ ہی نہیں اور عوام کے بنیادی مسائل سے چشم پوشی برتی جارہی ہے۔ غریبی، افلاس، بیماری اور جہالت کو ختم کرنے کیلئے جو وعدے ہوئے تھے۔ ان میں کوئی ایک بھی پورا ہوتے نظر نہیں آرہا ہے۔ اچھے دن تو دور کی بات ہے جو برے دن آرہے ہیں نہیں بلکہ آگئے ہیں۔ اس برے دن سے کیسے نجات مل سکتی ہے، عوام کو سوچنا چاہئے اور کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں مارنا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔