برمامیں خون ِ مسلم کی ارزانی: خدایامددفرما!

مفتی محمدصادق حسین قاسمی کریم نگری

    ایک طرف عالم ِاسلام میں مسلمانوں نے عید الاضحی کوجوش وخروش سے منایااور قربانی کے ذریعہ عبدیت وبندگی کا ثبوت پیش کیا ،دوسری طرف برما کی سرزمین پربے قصور مظلوم مسلمان اسلام کے نام پر سفاک ووحشی بدھسٹ درندوں اوروہاں کے خونخوارفوجیوں کے ہاتھوں نہایت بے دردی کے ساتھ ذبح کئے گئے۔ جس کے دل میں رمق برابر بھی انسانیت ہوگی اور جو بھی اپنے سینے میں انسانی دل رکھنے والا ہوگا وہ یقینا برمی مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ مظالم اوربے دردانہ ظلم وجور پر تڑپ اٹھے گا۔ بے قصور مردوں ،عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں پر ایسے دل سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں کہ صرف تصاویر کو ہی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ جو سلوک انسان جانوروں کے ساتھ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا برما کے انسان نما بھیڑئیے مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ معصوم بچوں کو تڑپاتڑپاکر مارتے ہوئے،عورتوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کرتے ہوئے،بوڑھوں اور جوانوں کے ساتھ درندگیت کا ننگا ناچ کرتے ہوئے شیطانوں کو رحم تک نہیں آیااوران کے جسم میں کپکپی تک نہیں آئی ؟بستیوں کو جلاتے ہوئے ،دہکتی آگ میں مسلمانوں کو ڈالتے ہوئے ،گلوں پر چھرے چلاتے ہوئے،جسم کے ٹکڑے بناتے ہوئے،بدن کوزخموں سے چھلنی کرتے ہوئے ،نت نئے وحشیانہ طریقوں سے مسلمانوں کو مارتے ہوئے انہیں احساس تک نہیں ہوا کہ یہ تاریخ کے بدترین درندگیت کا کھیل کھیلنے والے دنیا کی نگاہوں سے کیسے چھپ سکیں گے؟اور مظلوم انسانوں کی آہیں وکراہیں ان کی دنیا کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیں گی؟

     برما( میانمار) کے مسلمان گزشتہ کئی سالوں سے وہاں کے بودھ شدت پسندوں کے نشانہ پر ہیں۔ اب تک ان ظالموں نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا،ان کی بستیوں کو اجاڑدیا،خاندانوں کو ختم کردیا،لاکھوں لوگوں کو شہر بدرکرکے جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبورکردیا،اپنے ہی ملک میں اجنبی بناکر رکھ دیا،تمام تر سہولتوں سے برمی مسلمانوں کو محروم کردیا،اپنی ذاتی اور داخلی زندگی میں بھی انہیں حکومت کی اجازت کا پابند بنادیا،نہ وہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ،نہ کاروبار کرسکتے ہیں ،نہ آزادنہ گھوم پھرسکتے ہیں اور نہ اپنی مرضی سے شادی بیاہ کرسکتے ہیں ،اولاد کی خواہش بھی ہوتو انہیں حکومت سے اجازت حاصل کرنا ہوگا،اگر ایک بچہ کے بعد دوسری اولاد بغیر حکومت کی اجازت کے ہوگی تو دوسال قیدکی سزا ہوگی۔

    برماکی حکومت نے یہ پالیسی بنارکھی ہے کہ مسلمانوں کاخاتمہ کردیا جائے،اس لئے وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کے خاتمہ کے لئے برماحکومت مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکاتی رہی ہے۔ 1942ء میں بدھسٹوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کی۔ مارچ  1942ء سے جون 1942ء تک تین ماہ میں دیڑھ لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ 1950ء میں دوبارہ مسلمانوں کے خلاف تحریک اٹھی،تشدد کاآغاز ہوااورہزاروں مسلمان شہید اور بے گھر کئے گئے۔ 1962ء میں برما کے اندر فوجی حکومت کا قبضہ ہوا۔ برماکی ملٹری حکومت نے آراکان ( برماکا ایک صوبہ)کے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ شروع کیاجووقفہ وقفہ سے 1982تک جاری رہااور اس عرصہ میں بیس لاکھ مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔ 1991ء اور1997ء میں بھی بڑے منظم حملے ہوئے اور ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔ جون2012ء سے ایک بار پھر مسلمانوں پر حملوں کا آغاز کیا گیا۔ یہ حملے اکٹوبر2016ء تک جاری رہے۔ رپورٹ کے مطابق پندرہ دنوں میں بیس ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔ اوراب 25اگست 2017ء کو ایک پھرمسلمانوں کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا۔

    برما کے مسلمان اس وقت سخت ترین آزمائشی دور سے گزررہے ہیں ،ہر طرف وحشی درندے ان کے خون کے پیاسے بنے پھررہے ہیں ،مذہب کا لبادہ اوڑھے بودھ شدت پسند مسلمانوں کے خون اور ان کی جانوں سے کھیل رہے ہیں ،بلکہ گاجر ومولی کی طرح مسلمانوں کو کاٹ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے مکتوب میں کہا گیاکہ’’ میانمار میں فوج اور حکومتی جتھوں کی جانب سے 5روزمیں 2100دیہات ،مسلمانوں سمیت جلادئیے گئے ،10ہزار افراد بھاگتے ہوئے مارے گئے ،1500سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی ،زندہ انسانوں کے اعضاکاٹ کرچیل اور کوے چھوڑے جارہے ہیں ،ایک لاکھ 30ہزار افراد شدید زخمی ،ایک لاکھ جنگلوں میں محصور ہیں ،بنگلہ دیشی حکومت کی سنگدلی کے باعث کشتیوں میں سوار20ہزار افراد سمند رمیں بھٹکنے پر مجبور ہیں ،لگتا ہے دنیا میں انسانیت نام کی چیز نہیں ،آئندہ 10دن میں کسی ملک کی مداخلت نہ کی تو اموا ت میں لاکھوں کااضافہ ہوسکتا ہے ،فوری طور پر امن فوج بھیجی جائے۔ ‘‘بلاشبہ برما کے مسلمان اس وقت سب سے زیادہ ستائے جانے والوں میں سے ہے ،جنہیں زندگی کا کوئی حق نہیں دیا گیااور ہر چیز سے محروم کرکے بدترین سلوک ان لوگوں سے کیاجارہا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ یہ الم ناک برتاؤ کیاجارہا ہے اور دوسری طرف پوری دنیا میں خاموشی کا ماحول چھایاہوا ہے،خود کو امن کے ٹھیکیدار بتانے والے اور معمولی فسادوظلم کے خلاف بولنے والے اس قیامت خیزی اور مسلم کشی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بقول ایک نامہ نگار کہ :امن کا نوبل انعام پانے والی آنگ سانگ سوچی کی ناک کے عین نیچے روہنگیا جل رہے ہیں ،مررہے ہیں ،بین الاقوامی میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں اور محترمہ خاموش تماشائی ہیں۔ ‘‘ کم از کم مذہب کی عینک سے نہ دیکھ کر انسانیت کے نام پر ہی سہی ان مظلوموں کی حمایت میں اور ظالموں کے خلاف آوازاٹھائی جاتی اور ظلم کے ماروں ،ستم رسیدوں کو ظلم ستم سے نجات دلانے کی کوشش کی جاتی ؟؟کیا صرف زبانی قراردادوں سے مسئلہ کا حل ہوجائے گایاایک آدھ ہنگامی میٹنگ طلب کرنے سے امن قائم ہوجائے گا؟اقوام ِمتحدہ نے جب اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ اس روئے زمین پر برماکے مسلمان سب سے زیادہ ستائی جانے والی مظلوم اقلیت ہے،تو پھر انہیں اس ظلم سے نجات دلانے کی فکر کیوں نہیں ہورہی ہے،کیابرما میں مرنے والے انسان نہیں ہیں ؟اس قدردردناک قتل ِ عام اور خاموش دنیا؟یقیناانسانیت کی بڑی بڑی باتیں کرنے والوں اور خود کو انسانیت دوست اور امن کے علم بردار بتانے والوں کی انسانیت کھوئی ہوئی ہے اور ان کے دل بھی مردہ پڑے ہوئے ہیں۔

     خداجزائے خیر دے اور اپنے حفظ وامان میں رکھے ملت ِ اسلامیہ کے قائداورمظلوم مسلمانوں کے حامی رجب طیب اردگان کو جنہوں نے برماکے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف جھنجھوڑدینے والی صدا لگائی اور ہمیشہ کی طرح مظلوموں کا ساتھ دینے میں آگے رہنے والے اردگان کی جانب سے بنگلہ دیشی حکومت سے کہا کہ وہ روہنگیا کے مسلمانو ں کے لئے اپنے ملک کی سرحدوں کو کھول دیں اورروہنگیاں کے مسلمانوں کو پناہ دیں ،اس کے لئے جو مصارف ہوں گے وہ ترکی حکومت اٹھائے گی۔  اور اردگان نے یہاں تک کہاکہ’’جمہوریت کا ماسک پہن کر کی جانے والی اس نسل کشی پر خاموش رہنے والا ہر کوئی اس قتل ِ عام کا برابر حصہ دار ہے۔ ‘‘

      ان حالات میں ہر مسلمان کا دل یقینا اپنے اندر ایک غم اور اپنے سینے میں چبھن محسوس کرتا ہے۔ کیوں کہ ہمیں اسلام نے ایک ایسی لڑی میں پرویا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں کسی پر ظلم ہو ایک مسلمان تڑپ جاتا ہے۔ اس موقع پر ہماری ذمہ داری ہے ہم ان تمام مسلمانوں کی سلامتی اور بھلائی کے لئے ،عافیت اور راحت کے لئے ،امن وامان کے لئے بارگاہ ِ الہی میں دعا کریں ،دعا ہی ہمارے پاس ایک مضبوط ہتھیار اور اہم ترین سہارا ہے ،یقینا ان مظلوموں کی آہیں ضائع نہیں ہوں گی اور بلکتی ہوئی ماؤں کے نالے بے کار نہیں جائیں گے،بچوں کی سسکیاں اور بوڑھوں کی کراہیں ،جوانوں کی شہادت ضرور رنگ لائے گی ،مگر ہماری اخوت ِایمانی اور حمیت ِاسلامی کا تقاضا ہے کہ ر دنیا کے ہر مظلوم انسان کے حق میں خدا سے ضرور دعا کریں ،اور دنیا بھر میں عافیت کے طلب گار رہیں۔ اللہ کسی مسلمان کی دعا کو اس کے بھائی کے حق میں غائبانہ جلد قبول فرماتے ہیں۔ ولاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون انما یؤخر ھم لیوم تشخص فیہ الابصار۔ (ابراھیم:۴۲)’’اور یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو کچھ یہ ظالم کررہے ہیں ،اللہ اس سے غافل ہے۔ وہ تو ان لوگوں کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔