نوہیرا شیخ: ایک متنازعہ شخصیت

رضی الہندی

پہلےتعلیم، پھرتجارت‘اب سیاست میں اتری نوہیرا شیخ آج ایک مشکوک شخصیت کی مالکہ بن چکی ہے اور اس کے شب و روز کی زندگی کے بارے میں جاننے کے خواہش مند افراد آپکو بہت مل جائیں گے کیونکہ یہ وہ خاتون ہے جس نے اپنی مہم کا آغاز تعلیمی میدان سے کرنے کے بعد تجارت کی دنیا میں کودی اور پھر سیاست کے میدان میں کود پڑی ہے اور ان کے ساتھ اتفاقات ہر رہے ہر جگہ کامیابی ھاتھ لگ رہی ہے انکی زندگی عجوبہ بنتی جارہی ہے کیونکہ اسلام کاحوالہ دیکر اپنی بات کا آغاز کرتی اور اسی سے لاعلمی کا شگوفہ بھی چھوڑتی جارہی ہے بھرے مجمع و محفل میں عام خطابات پہلے پردہ کی آڑ میں کرتی ہے اور فلا تخضعن قول کے خلاف شمع باندھ دیتی ہے اور غیر ملک میں جہاں کوئی سیکورٹی اور معاون نہیں وہاں پہلی تجارتی ڈیلنگ پردے کے ساتھ کرتی اور اپنی پارسائی کا ڈنکا پیٹ دیتی ہے اور اسکا دل گردہ دیکھئے کہ جہاں ہماری قوم کے افراد دبکر کلام کرتے وہاں یہ نہایت بہادری سے گفتگو کر جاتی ہے اسی لئے ایک زندگی شناش اور عالم دین کا تبصرہ ہے کہ یہ عورت کسی کا کالا پیسہ وہائٹ کر رہی ہے اور اب سیاست کی بازیگری میں کود کر اسلام کو چیلنج کی ایک عورت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی قابل اور مردوں سے بہت بہتر کر سکتی ہے جیساکہ آپ نیچے پڑھیں گے۔

کون ہے نوہیرا شیخ؟

اتنی دولت کہاں سے آگئی۔۔۔ دہلی‘ ممبئی ہو یا دوبئی کی فائیو اسٹار ہوٹلس میں میٹنگس۔۔۔ سیلی بریٹیز کی شرکت۔۔۔ آج یہاں تو کل سعودی عرب‘ پرسوں کویت۔۔۔ کبھی سائوتھ افریقہ تو کبھی دوبئی۔۔۔ کل تک ’’ہیرا گروپ‘‘ سے متعلق سوال اٹھا کرتے تھے۔۔۔ اب سیاسی جماعت قائم کرکے اس خاتون نے ہلچل بھی یپدا کردی۔

آخر یہ ہیں کون؟ ان کے پیچھے کون ہے؟

اب اس قسم کے سوالات کئی ذہنوں میں ابھر رہے ہیں ۔ حالیہ عرصہ تک ہیرا گروپ سے متعق میڈیا میں مختلف تبصرے ہوتے رہے‘ کچھ خبریں بھی شائع ہوئیں ۔ اس کی وضاحتیں بھی شائع ہوئیں ۔ کچھ ٹی وی چیانلس نے گمراہ کن ’اسٹوری‘ ٹیلی کاسٹ کی۔ بعد میں انہوں نے اس پر اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرلیا اور کل تک اکثر لوگوں کو ایک ’نقاب پوش‘ خاتون سے متعلق اندیشے تھے۔ اب اس خاتون نے نقاب اتار کر میدان میں قدم رکھا تو اس پر بھی سوالات کھڑے کئے گئے۔۔۔بہرحال! یہ ہیرا گروپ اور نوہیرا شیخ کی کامیابی ہی سمجھی جائے گی کہ انہیں مخالفت کے نام پر اس قدر شہرت ملی کہ آج یہ نام پورے ملک میں شناسا ہوگیا۔ مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کے قیام کے اعلان کے بعد ان سے متعلق کچھ جاننے کا تجسس اور بڑھ گیا۔

گواہ میں چھ برس پہلے بھی ان کا انٹرویو شائع ہوا اور میڈیا پلس کے ذریعہ ہیرا گروپ کے اشتہارات ہندوستان بھر کے اخبارات کے لئے جاری کئے جاتے ہیں ۔ اس لئے اکثر حضرات نوہیرا شیخ سے متعلق کچھ جاننے کے لئے ہم سے ربط پیدا کرتے ہیں ۔ ہم نے ایک خصوصی انٹرویو لیا‘ جس میں ان کی نجی زندگی، ماضی حال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے جو کچھ بتایا وہ من و عن آپ کی نذر ہے:

سوال: محترمہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کون ہیں ‘ آپ کا بیک گرائونڈ کیا ہے؟

نوہیرا شیخ: میرا تعلق ضلع چتور کے موضع کلور سے ہے۔ میرے والد شیخ ننھے صاحب کا ٹکسٹائل بزنس تھا۔ ٹکسٹائلز اور فروٹ‘ ہمارا فیملی بزنس رہا۔ ہم 4 بہنیں اور 3 بھائی ہیں ۔ والد صاحب نے اپنا بزنس تروپتی میں منتقل کیا۔ اس وقت ہم بہت چھوٹے تھے۔

بچپن میں مجھے یہ احساس ہوا کہ والدین بیٹی کو بھی چاہتے تو بہت ہیں مگر تعلیم کے معاملے میں بیٹوں کے مقابلہ میں ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ بیٹوں کو پڑھایا جاتا‘ بیٹی کو تعلیم سے دور رکھا جاتا۔

میں عمر میں چھوٹی تھی مگر جانتی تھی کہ اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ اپنے والد کو یہ بات بتائی۔ سوال کرتی کہ ہم سے امتیاز کیوں ؟ بہرحال! 12برس کی عمر میں مرضی کے خلاف شا دی کردی گئی۔ حالانکہ اسلام میں شادی کے لئے لڑکی کی مرضی ضروری ہے۔ بہرحال میں نے احتجاج کیا۔ گھر والوں سے مقابلہ کیا۔ اور یہ شادی ختم ہوگئی۔ میں پڑھنا چاہتی تھی۔۔۔ کچھ کرکے دکھانا چاہتی تھی۔ میں نے خود بھی پڑھنا شروع کیا اور چھ لڑکیوں کے ساتھ تدریس بھی شروع کی۔ بڑا مقابلہ کرنا پڑا۔۔۔ لوگوں کو سمجھانا پڑا کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری کیوں ہے۔ والد صاحب نے میری مدد کی۔ میں اردو کتابیں خریدتی۔۔۔ لڑکیوں کو پڑھاتی، انہیں پڑھنے دیتی۔ وقت گزرتا رہا۔ لڑکیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ 1998ء میں اردو۔عربک ڈیولپمنٹ سوسائٹی قائم کیا اور اس کے تحت مدرسۃ النسواں السلفیہ قائم کیا۔ اللہ رب العزت کا احسان اور شکر ہے کہ 19برس کے دوران آج یہ ایک جامعہ میں بدل چکی ہے۔ ایک ہزار لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ آٹھ سو ہاسٹل میں رہتی ہیں ۔ ایس ایس سی تک سرکاری نصاب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمیت‘ فضیلت اور دیگر کورسس کا انتظام ہے۔ کمپیوٹر کورسس کروائے جاتے ہیں ۔ بہترین لائبریری ہے اور بے مثال کیمپس میں یہ جامعہ ہے۔

آج الحمدللہ! جامعۃ النسواں السلفیہ کی فارغ التحصیل طالبات ملک کے مختلف مقامات پر تین سو سے زائد اسکولس چلارہی ہیں۔ اکثر و بیشتر نے فاصلاتی تعلیم کے ذریعہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا۔ جامعۃ النسواں السلفیہ میں ٹیچنگ اسٹاف میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں۔

جامعۃ النسواں السلفیہ کی کارکردگی‘ اس کے معیار کی وجہ ہے۔ اس وقت کم از کم چار ہزار لڑکیاں داخلہ کے لئے ویٹنگ لسٹ میں ہیں۔ یہاں 50فیصد داخلے آندھراپردیش سے یعنی مقامی طالبات کو اور مابقی 50فیصد دیگر ریاستوں کی طالبات کو دیئے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے تعلیم نسواں کو عام کرنے اور علم کی روشنی پھیلانے کا موقع دیا۔ ساتھ ہی میرا تعلیمی سفر بھی جاری رہا۔ اوپن یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ سری لنکا کی کولمبو یونیورسٹی سے بزنس اڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ علم کی پیاس ہے کہ بجھتی نہیں۔

ہر سال اس کا جلسہ عام منعقد ہوتا ہے۔ ملک کی ممتاز شخصیات شرکت کرتی ہیں ۔ اس سال ثانیہ مرزا کے علاوہ اور کئی مشہور شخصیات نے شرکت کی۔ اپنی تقاریر میں انہوں نے کہا کہ تروپتی کی جامعہ آنے سے پہلے ان کے پاس دینی مدرسہ کا تصور کچھ اور ہی تھا۔ یہاں آنے کے بعد ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔

تجارت

ہم نے بہت ہی چھوٹے پیمانے پر بزنس شروع کیا۔ صرف 500گرام سونا لے کر آپس میں بزنس کیا۔ اللہ پر بھروسہ۔ اس کے فضل و کرم کی بدولت آج ہمارا بزنس انٹرنیشنل ہوچکا ہے۔ آن لائن، سوشیل نیٹ ورکنگ نے ہمارے بزنس کو فروغ دیا۔ ہر ریاست میں سو سو سے زائد گروپس ہیں ۔ یہ گروپس خود بزنس مارکیٹنگ کرتے ہیں اور خود ہی فروخت کرتے ہیں۔

ہم نے آہستہ آہستہ مختلف بزنس میں قدم رکھا۔۔۔ سوپر مارکٹس کا جال بچھایا۔ فی الحال کوکٹ پلی حیدرآباد اور تروپتی میں سوپر مارکیٹ ہیں ۔ ہمارا بزنس‘ خواتین کی خود کفالت کا ذریعہ بنا۔ سوپر مارکٹ کی پیکیجنگ خواتین ہی کرتی ہیں ۔ ٹکسٹائلز ہو یا کوئی اور بزنس اکثریت خواتین کی ہے۔ دوبئی میں ہیرا فوڈیکس ایک معتبر قابل بھروسہ برانڈ کا نام ہے۔ ساٹھ سے زائد ممالک کو یہاں سے اشیاء سپلائی ہوتی ہیں ۔ الحمدللہ! کاروبار میں شفافیت ہے۔ اللہ نے توقع سے زیادہ کامیابی دی۔ سیلس ٹیکس ہو یا انکم ٹیکس کی ادائیگی‘ ہیرا گروپ کی نیک نامی ہے۔

سیاست

ہماری ترقی اور کامیابی تعلیم تجارت کے ساتھ ساتھ سیاست میں مضمر ہے۔ ہم لاکھ تعلیم یافتہ ہوں ‘ کتنی ہی دولت ہمارے پاس کیوں نہ ہو۔۔۔ بعض اوقات اپنے ہی حقوق کے لئے ہم بے بس ہوجاتے ہیں ۔ ایک معمولی کارپوریٹر جو کام کرسکتا ہے وہ دولت مند اور تعلیم یافتہ انسان نہیں کرسکتا۔ مجھے قدم قدم پر سیاسی طاقت کا اندازہ ہوتا رہا۔ کس طرح سیاسی پشت پناہی سے دو کوڑی کے لوگ بھی ہم پر حاوی ہوجاتے ہیں ۔ کس طرح قانون بھی سیاست دانوں کے آگے کبھی مجبور ہوجاتا ہے۔ ایک عورت ہونے کی وجہ سے ہر میدان میں امتیازی سلوک کیا جاتا رہا۔ خواتین کے حقوق و انصاف اور مساوات کی باتیں کی جاتیں ۔ مگر عملی زندگی میں کچھ نہیں ہوتا۔ تعلیم اور تجارت میں اللہ رب العزت نے کامیابی سے نوازا۔۔۔ میرے گروپ سے وابستہ خواتین مجھ سے ہمیشہ کہتیں ‘ آپا! آپ سیاست میں آجائیں ‘ آپ بولڈ ہیں ۔۔۔ ہمارے حق کے لئے لڑنے کی ہمت ہے آپ میں ۔ باجی! آپ میں مقابلہ کرنے کی ہمت ہے۔ آپ پالیٹکس میں آجایئے۔ ان کی بات دل کو لگی۔۔۔ اور ہم نے آپسی صلاح و مشورہ سے مہیلا امپاورمنٹ پارٹی قائم کی۔ یہ خواتین کے حق اور انصاف کی جماعت ہے۔ علاقہ واریت، مذہب، ذات پات، زبان سے بے نیاز یہ جماعت کسی کے کہنے پر، کسی کے اشارہ پر، کسی کی تائید کرنے، کسی کے ووٹ کاٹنے کے لئے نہیں ‘ اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے ہے۔ کامیابی و ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا رادہ نیک ہے۔۔۔ کامیابی یقینی ہے۔ میری کامیابی اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نوازشات اس کے فضل و کرم کا طفیل ہے میرے ارکان خاندان کی محبت ان کی حوصلہ افزائی‘ میرے گروپ ممبرس  http://www.scholarsimpact.com/urdu/?p=3852

محترمہ نوہیرا کا بیان پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ انکی دین کی سمجھ وہ بھی سلفیت کی کم ہی  کیونکہ ایک باپ اپنی بیٹی کی شادی کن حالات میں ، کب کیسے کرتا ہے اور اس کے لئے کیا مناسب ہے اسے وہی سمجھتا ہے اور اسی لئے اجبار کا شریعت نے دیا کہ بیٹیاں کم فہم و غیر مجرب ہوتی ہیں اور باپ اپنی ذمہ داری کو سمجھنے والا اور دیندار ہو تو وہ ہی بیٹی کی بھلائی کس میں ہے۔۔۔؟ جان پھٹک کر اپنی دختر کو وداع بعد نکاح کرتا ہے۔ آج محترمہ کو اگر وہ دینی تعلیمات سے آشنا   کا ہیں تو اپنے باپ کے فیصلہ کا شکوہ نہ کر کے  داد دینی چاہیئے تھی کہ شادی بعد انہوں نے جامعۃ النسوان السلفیہ کا قیام کیا اور کامیابی سے چلایا ہے اور شوہر کا ساتھ و اسکی چھوٹ دینی کام کیلئے ملی مگر انہوں نے ہیرا گروپ گولڈ نامی گروپ قائم کر اور اس میں لوگوں کو سرمایہ کاری کے لئے جس انداز میں اپنی پاکبازی و دینداری اور پردہ داری کے آڑ میں اسکا شو کیا تھا وہ مخفی نہیں اور اچھے اچھے دیندار اور شریف الطبع اور بھولے انسانوں نے اس کے نظم کو قبول کر سرمایہ کاری کردی مگر ابھی  حیدرآباد 08؍ اگست (فکروخبرنیوز) کی رپورٹ بھی توجہ کے قابل ہے کہ ہیرا گولڈ کمپنی کے پارٹنرس کے درمیان ہوئے تنازعہ اور پولیس تھانہ میں درج شدہ شکایات کے بعد ہیرا گولڈ گروپ ایک نئے تنازعہ میں گھرتی ہوئی نظر آرہی ہیں جب کہ اس کمپنی کو لے کر ویسے بھی ایک بہت بڑا طبقہ غیر مطمئن ہے۔ دکن کرونکل انگریزی اخبار میں شائع تفصیلی رپورٹ کے مطابق کمپنی کی سی ای او ڈاکٹر شیخ نوہیرا نے گولکنڈا پولیس تھانے میں شکایت کی ہے کہ اس کے شوہر محمد ثناء اللہ قریشی عرف سلمان دس کلو سونا لے کر فرار ہوگیا ہے۔ پولیس نے تحقیقات کے لیے سلمان کے دونوں بھائیوں کو گرفتا ر کیا جس کے بعد میڈیا کے سامنے سلمان کے والد کی جانب سے دئیے گئے ایک بیان کے بعدمعاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔

دکن کرونکل انگریزی اخبار میں شائع تفصیلی رپورٹ کے مطابقسلمان کے والدنے حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ سلمان دبئی سے دو سو کلو سونا لے آیا تھا اور دس کلو سونا اس کو بطور کمیشن کے ملا ہے۔ اس بات کا ابھی خلاصہ ہونا باقی ہے کہ یہ سونا ہندوستان قانونی طور پر لایا گیا ہے یا غیر قانونی طور پر ؟؟ اس سے پہلے انفورس مینٹ ڈائریکریٹ نے ٹولی چوکی میں موجود کمپنی کے جائیداد کی تحقیقات شروع کردی ہیں ۔ دوسری جانب سے سٹی کرائم برانچ پولیس افسران نے حیدرآباد کے ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی جانب سے درج کی گئی شکایت پرچھانبین شروع کردی ہے۔ کمپنی کی سی ای او ڈاکٹر نوہیرا کے سسر انور اللہ قریشی نے الزام لگایا ہے کہ سلمان نے جب کمیشن مانگنا شروع کیا تو نوہیرا نے اسے ہراساں کرنا شروع کردیا۔ جبکہ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر سلمان اور نوہیرا کے مابین شوہر بیوی کے جھگڑے ہیں یا پھر ان کا آپسی تنازعہ ہے تو ان کے بھائیوں کو پولس کیوں کر گرفتار کرسکتی ہے، سلمان کے والد نے اسے ناانصافی قرار دیتے ہوئے، جو غلطی کیا ہے اسی کو گرفتا کرکے تحقیقات کرنے کی مانگ کی ہے۔ اس دوران گول کنڈہ پولیس نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلمان کے دونوں بھائیوں کو تحقیقات کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔ ہم نے سلمان کے خلاف بھتہ خوری اور مجرمانہ دھمکیوں کا معاملہ درج کرلیا ہے۔معاملہ اس وجہ سے سے بھی سنگین ہورہا ہے کہ پولیس اور نوہیرا کے سسر انوار اللہ قریشی بھی نہیں جانتے کہ دو کلو سونا ہندوستان کیسے پہنچا۔ ذرائع سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دس کلو سونے کے بل پولیس تھانہ میں جمع کرائے گئے ہیں ۔ ملحوظ رہے کہ ہیرا گروپ ہندوستان میں سونے کا کاروبار کے ساتھ ساتھ دیگر تجارتیں بھی کرتی ہیں ۔ حیدر آباد سے ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے بھی ہیرا گروپ کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کرلیا ہے جس کے بارے میں سی سی ایس پولیس تحقیقات کررہی ہے۔ معاملہ کو طول پکڑتا دیکھ کر سنیچر کے روز مصعب ٹینک نامی علاقے میں واقع کمپنی کے دفتر کے باہر کمپنی میں سرمایہ لگانے والوں کی ایک بڑی تعداد نے احتجاج بھی کیا۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کمپنی میں جتنے بھی لوگوں نے سرمایہ لگایاہے وہ تشویش میں مبتلاہوگئے ہیں ،

مزید یہ بھی توجہ کا مقام ہیکہ آئی ایم اے نامی فرنٹ ابھی حال میں اپنے انہیں اقدام سے بے نقاب ہوئی ہے اور پولیس نے اس پر کاروائی کی ہے اور یہ بھی سرمایہ کاری کے ساتھ فائدہ دیتا اور پیسہ دیتا تھا اب بند ہو چکا ہے آئی ایم اے پر کارروائی کے بعد ممبئی میں سرگرم ہیرا گولڈ پر بھی نظریں مرکوز ہوگئی ہیں ۔ہیراگولڈ بھی کئی گنا منافع پر عوامی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور حلال سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کرتا ہے۔

واضح رہے کہ ادارہ معیشت نے ہیرا گولڈ کے حج عمرہ ٹورس کےذریعہ ہوئی بدعنوانیوں پر جب ہیرا گروپ کی مالکن عالمہ نوہیرا شیخ سے ملاقات کی تھی اور تفصیل سے انہیں اس مسئلے پر آگاہ کیا تھاتو انہوں نےاس کے بعد ہی اپنی حج ٹورس سروسیز بند کردی تھیں۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر اورپارسولی کارپوریشن کے سی ایم ڈی ظفر سریش والا کہتے ہیں ’’سرمایہ کاری کے معاملے میں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ High return high risk,low return low risk,اگرآپ نے لالچ میں آکر ایک روپئے کی چیز کو ۵۰ پیسے میں خریدا ہے تو یقیناً اس میں کوئی خرابی ضرور ہوگی،جب بینک ۸فیصد سے زیادہ منافع دینے سے قاصر ہے تو کوئی ادارہ ۴۰ فیصد اور ساٹھ فیصد کیسے دے سکتا ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔‘‘ظفر کہتے ہیں ’’گجراتی میں مقولہ مشہور ہے کہ جہاں لالچی لوگ موجود ہوں وہاں دھوکے باز بھوکے نہیں مر سکتا ہے۔لہذا جو لوگ بھی ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں بنیادی طور پر وہ لالچی ہی ہوتے ہیں ۔شاردا چٹ فنڈ کے بعد تو لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ نبی ﷺ کی حدیث کہ’’ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا ‘‘اس پربھی لوگ عمل نہیں کر رہے ہیں ۔‘‘۔۔۔الحدیث الصحیح۔۔

  ویسے یہ بھی رائے اور خیال کا اظہار کیا جا رہا ہیکہ نوہیرا صاحبہ جس انداز سے ترقی کر رہی ہیں اس سے اندازہ لگ رہا ہیکہ کسی کے بلیک مال کو وہ وائٹ کررہی ہیں اور کسی کے ہاتھ کا کھلونہ بنی ہوئی ہیں کل تک جو خاتون برقع اور نقاب میں تھی آج اسکے چہرے سے نقاب اتر چکا ہے۔اور یہ اصول رہا ہیکہ عورتوں سے پردہ ایسے ہی دھیرے دھیرے غائب ہو جاتا ہے اور انکا سیاسی پارٹی کا تشکیل دینا مزید اضافہ شکوہ کا موجب ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی جسکی رہنما عورت ہو۔۔۔”مفہوم الحدیث "۔  اللہ بہتر مدبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ یہ زمانہ اخیرہ کا فتنہ ہے یا وہ اس عورت کو ھندوستان کے لاچار مسلمانوں کا رھنما چن کر مردوں کو طمانچہ مار رہا ہے۔ ۔۔واللہ اعلم بالصواب

میں اپنی تحریر کو یہیں پر اس حدیث کے ساتھ ختم کروں گا کہ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے  ( کہ حلال ہیں یا حرام )  پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو  ( شاہی محفوظ )  چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے  ( اور شاہی مجرم قرار پائے )  سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں ۔ ( پس ان سے بچو اور )  سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔ (بخاري)

  اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ ھمیں امور مشتبہ سے بچائے اور اسلام اور قوم مسلم کی صحیح رہنمائی کی تو فیق عطا فرمائے۔ ۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. saera کہتے ہیں

    مجھے نہیں معلوم کہ رضی الہندی صاحب کون ہیں!کتنے بڑے صحافی یا قلم کار ہیں یا کو ئی سماجی مصلح ۔لیکن جس طرح سے انہوں نے شبہے کی بنیاد پر محترمہ نو ہیرہ شیخ پر لعن طعن کی ہے اور ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کو شش کی ہے،اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی کے اشارے پر وہ خود ہی اس خا تون کی کردار کشی کی کو شش کر رہے ہیں ۔ اللہ ہمارے معا شرے کوشر پسندوں سے محفوظ رکھے۔ڈھیروں احا دیث کے حوالے دے کر انہوں نے خود کو عالم ، فا ضل اور قابل بھی منوانے کی بھر پور سعی کی ہے لیکن شاید وہ بھول گئے کہ بلا تحقیق کس پر الزام ترا شی کرنابھی گنا ہ عظیم ہے۔وہ کس کی کا لی دولت سفید کر رہی ہیں ، کس کے اشارے پر سیا ست کے میدان میں کودی ہیں انہیں کچھ بھی نہیں معلوم نہ ہی انہوں نے اپنے مضمون مذکور میں اس کی وضا حت فر مائی ہے،بس اندیشے اور فتنے پیدا کرنے کی کو شش۔ معاذ اللہ۔ ایسی شر پسندانہ تحریر، شاید دل میں خوف الٰہی بالکل نہیں ہے۔ شوہر سے علاحدگی اور خاتون ہونے کے ناطے سیاست میں دخل اندازی پر محترمہ کی نکتہ چینی چہ معنی دارد! کیا وہ پہلی خاتون ہیں جن کی شو ہر سے علا حدگی ہو ئی ہے یا پھر وہ سیاسی میدان میں پہلی مسلم خاتون ہیں۔رضی الہندی صاحب کو کم از کم ہندستان کی پارلیمانی تاریخ ضرور پڑھ لینی چاہئیے۔ اپنی جانب سے اپنے بارے میں یہ و ضاحت کر دوں کہ نہ تو میں محترمہ نو ہیرہ شیخ کو جانتی ہوں نہ ہی ان کے سیاسی نظرئیے سے اتفاق کرتی ہوں،بس جھارکھنڈ کے ایک اردو روزنامہ ’جدید بھارت‘ میں کئی بار ان کے بارے میں مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔لیکن ہاں!میں ان کی حو صلے کی قدر دان ضرور ہوں۔کہاں وہ تروپتی کی رہنے والی اور کہاں میں رانچی میں۔ کہاں وہ ایک عالمہ اور کامیاب بزنس وومن اور کہاں میں،۔ بہر کیف یہ تحریر میں نے اپنے بارے میں جانکاری فراہن کرنے کے لئے نہیں لکھا ہے۔ محترمہ نو ہیرہ شیخ پر بے جانے بوجھے ،بغیر تحقیق کے رضی الہندی صاحب کی تحریر پڑھ کر چند سطر لکھنے پر ذہن کو مجبور پایا تو اپنی تحریر پیش کردی ۔برا لگے تو بھی میں معذرت خواہی کی طلب گار ہرگز نہیں ہوں،ویسے حقیقت کو قبول کرنے والے کسے کی بات کا برا نہیں مانتے۔ والسلام
    سائرہ۔۔
    رانچی۔ جھارکنڈ

تبصرے بند ہیں۔