نگا راج راؤ، محمد عمران راؤ کیسے ہوئے؟

عبدالعزیز

 ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے پیغام حق کی دعوت نہ صرف زبانی طور پر دنیا کے سامنے پیش کی بلکہ اپنے کردار و عمل سے اسلام کی ایسی سچائی اور صداقت پیش کی کہ آج ہندستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلے جائیے مشکل سے کوئی جگہ یا مقام ہوگا جہاں پانچ وقت کی اذانوں کی آواز نہ گونجتی ہو مگر کردار و اخلاق کی وہ کشش جو ہمارے بزرگوں اور اسلاف میں تھی وہ ہم میں برائے نام رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود جہاں بھی جس میں بھی حق کی ذرا بھی چنگاری یا روشنی ہوتی ہے وہ کٹر سے کٹر کافر (انکارِ حق کرنے والا) پر اپنا اثر چھوڑے بغیر نہیں رہتی۔ علامہ اقبال نے کردار کی کشش کی تصویر کشی کی ہے۔ وہ مبالغہ سے پاک ہے   ؎

صف جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر

جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز

 آج کل ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے۔ اس ویڈیو میں آر ایس ایس کے ایک کٹر ممبر نگا راج نے قبول حق کی اپنی کہانی جس دانشورانہ انداز سے بیان کی ہے وہ سننے اور سمجھنے کے لائق ہے۔ اس میں غور و فکر کا عنصر شامل ہے۔ صداقت اور سچائی سے لبریز ہے۔ کسی ایک جملہ یا بات میں نہ تصنع ہے اور نہ بناوٹ۔ حق کا تصور اور باطل کی کمزوریوں اور خامیوں کی زبردست عکاسی ہے۔ جھوٹے خداؤں کی ایسی تجزیہ نگاری ہے جس کے سامنے کٹر سے کٹر باطل پرست کو ہتھیار ڈالے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ مثلاً رام کے بارے میں اپنی سوچ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جب میں نے رام، گنیش، گنپتی اور دیگر خداؤں کا ناقدانہ تجزیہ کیا تو وہ کہیں سے نہ خدا معلوم ہوئے اور نہ ہی ان کے اندر کسی طاقت اور قوت کا سرچشمہ نظر آیا۔ رام اگر خدا ہوتے تو انھیں اپنے دشمن راون کے ہر منصوبہ کا علم ہوتا۔ وہ ان کی بیوی کو اغوا کرتا ہے مگر رام لاعلم رہتے ہیں اور وہ کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ راون کے قبضہ سے اسے چھڑانے کیلئے ہنومان (بندر) کی مدد لینی پڑتی ہے۔

اگر وہ بھگوان ہوتے تو ان کو کسی کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اپنی بیوی پر شک و شبہ کرتے ہیں ۔ انھیں اس کی بے گناہی کا علم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بیوی کو اگنی پریکشا سے گزرنا پڑتا ہے۔ سیتا خود بھگوان ہوتے ہوئے اپنی حفاظت نہیں کر پاتیں ۔ انھیں بھی بھگوان کہنا یا کہلوانا ایک مشکل کام ہے۔ اسی طرح راؤ گنیش، گنپتی اور ایشور کی کہانی کا ذکر کرتا ہے کہ گنپتی گنیش کی اس وقت محافظت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں ۔ جب گنپتی نہا رہی ہوتی ہیں تو ایشورا اندر جانا چاہتا ہے۔ جب گنیش اسے اندر نہیں جانے دیتا ہے تو ایشورا اس کا سر قلم کر دیتا ہے۔ جس پر گنپتی چیختی چلاتی ہے اور ایشور کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس کا سر لگا دیں مگر ایشورا کہتا ہے کہ اس کا سر تو لگایا نہیں جاسکتالیکن ہاتھی کا سر کاٹ کر اس کے سر کی جگہ پہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایشورا ایسا ہی کرتا ہے۔ راؤ کہتا ہے کہ خدا ایسی بے رحمی کیسے کرسکتا ہے؟ اور وہ منفی کام تو کرسکتا ہے جب اسے مثبت کام کرنے کی بات کہی جاتی ہے تو اپنی کمزوری اور مجبوری بتاتا ہے۔ اگر وہ خدا ہوتا تو پہلے ایسی بے رحمی کا کام ہر گز نہیں کرتا اور جو سر قلم کرسکتا ہے وہ آخر سر لگا کیوں نہیں سکتا۔ اس طرح دوسرے خداؤں پر راؤ نے ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔

عیسائیوں کے یہاں جو تصور خدا کا ہے وہ بھی اسے ناقص نظر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا کو اپنے بیٹے کی مدد کی کیا ضرورت ہے؟ اگر وہ خدا ہے تو خود سب کچھ کرنے کا اہل ہوتا۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جانے کے بعد خدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھے تو کوئی شخص خود داہنے پر نہیں بیٹھتا۔ اس کے معنی یہی ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام الگ ہیں اور خدا الگ ہے۔ وہ خدا کے معزز مہمان ہوسکتے ہیں کہ وہ خدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھے ہیں لیکن وہ خود خدا نہیں ہوسکتے۔ اس طرح عیسائیوں کے ہاں توحید کا تصور ہونے کے باوجود اس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے جو قابل قبول نہیں رہتا بلکہ خود اپنی تردید کرتا ہے۔ وہ اس طرح دیگر مذاہب کے اندر پائے جانے والے تصور خدا کا موازنہ قرآن میں پائے جانے والے تصورِ خدا سے کرتا ہے تو اسے سمجھ میں آجاتا ہے کہ قرآن میں خدا کا صحیح اور سچا تصور پایا جاتا ہے اور یہی صحیح ہے اور اسے ہی تسلیم کرنا چاہئے۔ مگر جو بات سب سے اہم ہے وہ اس کی تقریر کا وہ حصہ ہے کہ وہ قرآن تک کیسے پہنچا؟ پہلے تو بتاتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے نفرت ہی نہیں ان کا منہ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا ، ان سے بیحد نفرت کرتا تھا۔

 وہ اپنی سچی کہانی کا آغاز کچھ اس طرح کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرا خاندان میسور میں رہتا تھا۔ میرے والد ایک ٹیکسٹائل کمپنی میں انجینئر تھے ۔ کمپنی جب بند ہوگئی تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ بنگلور منتقل ہوگئے۔ ان کو بہت جلد نوکری مل گئی مگر میرے خاندان کے اخراجات کچھ زیادہ تھے۔ وہ آمدنی سے پورے نہیں ہوتے تھے؛ حالانکہ میری ماں بھی اسکول ٹیچر تھی۔ میرے والد کو جب احساس ہوا کہ مزید انکم بڑھانے کی ضرورت ہے تو وہ کچھ کاروبار کے بارے میں سوچنے لگے۔ ایک ہمدرد شخص نے انھیں سید کلیم سے ملایا۔ ان کا اچھا خاصا کپڑے کا کاروبار تھا۔ میرے والد نے ان سے گزارش کی کہ وہ انھیں ایک چھوٹا سا کاؤنٹر دیدیں اور وہ جو کاروبار سے آمدنی کریں گے انھیں بھی آمدنی میں حصہ دار بنائیں گے۔ کلیم صاحب نے از راہ ہمدردی کہاکہ وہ میرے والد کی آمدنی میں سے کچھ نہیں لیں گے۔ میرے والد پر کلیم صاحب کے حسن سلوک کا بہت اچھا اثر پڑا۔ وہ اکثر و بیشتر کلیم صاحب کے حسن سلوک کا ذکر کرتے جو مجھے اچھا نہیں لگتا کیونکہ میری رائے مسلمانوں کے بارے میں اچھی نہیں تھی۔ میرے والد کا ہاتھ بٹانے کیلئے میری ماں بھی دکان پر جایا کرتی تھی۔ میری بہنیں بھی اکثر و بیشتر جاتی تھیں مگر میں نہیں جاتا تھا۔ میری ماں مجھے اکثر کہتی تھی کہ میں بھی اپنے والد کی مدد کروں ۔ ان کے کام سے دلچسپی لوں مگر میں کہتا تھا کہ میں ابھی پڑھ رہا ہوں اور مجھے ایک مسلمان کی دکان کے پاس جانا ہر گز پسند نہیں ہے۔

جب میری چھٹیوں کا دن آیا تو میری ماں نے بہت اصرار کیا تو میں دکان جانے لگا مگر کلیم صاحب جو بمبئی سے تعلق رکھتے تھے وہ مجھے اچھے نہیں لگتے تھے۔ ایک تو ان کی مسلمانیت مجھے بالکل نہیں بھاتی تھی۔ دوسرے اس پر طرہ یہ کہ انھوں نے کئی ہندو لڑکیوں کو اسلام کی طرف راغب کیا اور ان کی شادیاں مسلمان لڑکوں سے کرا دیں ۔ مجھے ان کا یہ عمل یا رویہ بالکل گوارا نہیں تھا، لیکن جب میں نے ان لڑکیوں سے پوچھا تو انھوں نے صاف صاف کہا کہ میں نے کسی لالچ اور حرص میں اسلام قبول نہیں کیا تو میرا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ کلیم صاحب نے جب میرا تیور دیکھا تو مجھے اسلام کی بات سمجھانا شروع کر دیا اور کہاکہ تم قرآن کا مطالعہ کرو، تمہاری ساری غلط فہمیاں جاتی رہیں گی۔ مجھے قرآن مجید پڑھنے کیلئے دیا۔ ترجمہ یوسف عبداللہ کا تھا۔ قرآن میں پڑھتا گیا اور میری دنیا بدلتی گئی پھر تو میں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ مجھے جن مصیبتوں اور تکلیفوں کا قبول حق کے بعد سامنا کرنا پڑا اس میں میری استقامت اور ثابت قدمی کام آئی لیکن اگر اللہ رب العزت کا سہارا اور عنایت نہ ہوتی تومیں ہر گز سچائی تک نہیں پہنچتا اور اگر پہنچتا تو اس پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہنا میرے لئے انتہائی مشکل ہوتا۔

جب میں گھر سے نکلا تو میری جیب میں صرف 100 روپئے تھے۔ میری بہن آشا راؤ جو اب فردوس راؤ ہے میرے ساتھ تھی۔ بڑی بہن وینا نے بھی گھر میں میری گفتگو اور میری بحث و مباحثہ سے متاثر تھی اور سچائی سے آشنا ہوچکی تھی مگر نہ وہ ہمارے ساتھ نکلنے کیلئے تیار ہوئی اور نہ مصائب برداشت کرنے کیلئے ہمت ہوئی اورنہ ہی اسے قبول حق کی توفیق ملی۔

 ایک شخص کے حسن سلوک نے بھائی بہن کی دنیا بدل دی اور آج جس طرح دونوں مل کر دین حق کی وکالت کر رہے ہیں اور اپنی تقریروں اور تحریروں سے لوگوں کو اسلام کے قریب لا رہے ہیں ، بڑے سے بڑے عالم دین میں ایسی غیر معمولی صلاحیت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ سچ کہا ہے جگر مراد آبادی نے  ؎

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں

تبصرے بند ہیں۔