اُمتِ مسلمہ کی تاسیس

ڈاکٹر محمد رفعت

جن انبیاء کرام کاتذکرہ قرآن مجید میں کثرت سے ہوا ہے اُن میں ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں ۔ اُن کی زندگی کا خاص پہلو اللہ کے راستے میں ایثار و قربانی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے دو نبیوں کی زندگی کو اہلِ ایمان کے لیے اسوہ قرار دیا ہے۔  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًاۭ(سورہ احزاب۔  آیت نمبر21)

’’یقیناً تم اہلِ ایمان کے لیے اللہ کے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کی ذات میں بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جواللہ (سے ملاقات کی ) اور آخرت (کی آمد ) کی توقع رکھتاہو اور اللہ کوکثرت سے یاد کرے۔ ‘‘

اِسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے طرزِ عمل کوبھی اسوہ قرار دیا گیا ہے:

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (سورہ ممتحنہ۔ آیت نمبر4)

’’تم اہلِ ایمان کے لیے ابراہیم اوراُن کے ساتھیوں ( کے طریقے) میں اچھا نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے بَری  ہیں اورتمہارے ان معبودوں سے بھی ، جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ ہم نے تمہارے طریقے کا انکار کیا اورہمارے تمہارے درمیان بغض اورعداوت قائم ہوگئی ہمیشہ کے لیے۔  یہاں تک کہ تم ایمان لاؤ اللہ واحد پر۔ ‘‘

دعائے ابراہیمی:

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ، اللہ کے حکم کے مطابق ، مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر ہے۔ اللہ کے گھر کی تعمیر کے اِس کا م میں آپ کے ساتھی آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام تھے۔ اِس موقع پر دونوں نے بہت سی دعائیں مانگیں ۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کا یہ کام ایسے حالات میں انجام پارہا تھا کہ پوری دنیا میں شرک کا دور دورہ تھا۔ اس ماحول میں اللہ کے اِن مخلص بندوں نے جو خاص دعا مانگی وہ امتِ مسلمہ کے ظہور کی دُعا تھی۔  ایک ایسی امت کے ظہور کی دُعا ، جوشرک سے بچے اور دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے ، صرف ایک اللہ کی عبادت کرے۔

 وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۝۰ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۱۲۷ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّكَ۝۰۠وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۲۸ (سورہ بقرہ۔ آیات 127 و128)

( اور یاد کرو وہ موقع جب ابراہیم اوراسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں اُٹھارہے تھے (اور دعا کرتے جاتے تھے ) کہ اے ہمارے رَب ! ہمارے اِس کام کوقبول کر۔ بے شک توہی سننے اور جاننے والا ہے۔  اے ہمارے رَب !ہم کواپنا مطیع فرمان بندہ (مسلم ) بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت اٹھاجوتیری مسلم ہو اورہم کواپنی عبادت کے طریقے  سکھااور ہمیں معاف کردے۔  بے شک توبڑا توبہ قبول کرنے والا اوررحم فرمانے والا ہے۔ )

ڈھائی ہزار سال بعد اِس دعا کے مطابق اُمتِ مسلمہ ظہورمیں آئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخر ی نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کواُس مکہ مکرمہ میں مبعوث فرمایا جہاں پچیس صدیوں کے اِس طویل عرصے میں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔  آپ نے اُمتِ مسلمہ کی تاسیس کی اور تربیت فرمائی۔ ابراہیم علیہ السلام کی دُعا میں اُمتِ مسلمہ کی تعلیم وتربیت کا ذکر ہے۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۲۹ۧ  (سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر 129)

’’اے ہمارے رَب! اُن کے اند ر انہی میں سے ایک رسول بھیج جو اُن کو تیری آیات پڑھ کر سنائے، اُن کو کتاب اورحکمت کی تعلیم دے اوراُن کا تزکیہ کرے۔  بے شک توبہت زبردست اوربڑی حکمت والا ہے۔ ‘‘

اُمتِ مسلمہ کی تعلیم کا کام دواہم اجزاء پر مشتمل تھا یعنی تعلیمِ کتاب اورتعلیمِ حکمت۔  جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں ۔

’’علمِ کتاب سے مراد، معانی ومطالبِ ضروریہ ہیں جو(کلامِ الٰہی کی ) عبارت سے واضح ہوتے ہیں اور حکمت سے مُراد ، اسرارِ مخفیہ  اوررموزِ لطیفہ ہیں ۔ ‘‘

 اُمتِ مسلمہ کی تربیت کے لیے دو بنیادی امورکا ذکر کیا گیا ، تلاوتِ آیات اورتزکیہ۔  تلاوت آیات سے مراد کلامِ الٰہی کی آیات کا سنانا ہے اورآفاق و انفس میں پائے جانے والی نشانیوں کی جانب توجہ دلانا بھی ہے ، جوحق کی طرف طالبِ حق کی رہنمائی کرتی ہیں ۔  اسی طرح تزکیہ سے مراد انسانی نفوس کی اِصلاح ،تطہیر اور تکمیل ہے۔  جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :

’’ نفس  کا سنوارنا اورپاک کرنا ( یعنی تزکیہ ) یہ ہے کہ قوتِ شہویہ اور قوتِ غضبیہ کوعقل کے تابع کرے اور عقل کو شریعتِ الٰہیہ کا تابع دار بنائے تا کہ روح اور قلب دونوں ، تجلی الٰہی کی روشنی سے منور ہوجائیں ۔ ‘‘

مزید فرماتے ہیں :

’’تزکیہ نفوس ( کے معنی ہیں ) نفسانی آلائشوں اور شرک و معصیت سے اُن کوپاک کرنا اور دِلوں کومانجھ کر صیقل بنانا۔  یہ چیز، آیات اللہ کے عام مضامین پر عمل کرنے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اورقلبی توجّہ و تصرّف سے ، باذن اللہ حاصل ہوتی تھی۔ ‘‘

اُمتِ مسلمہ کی تربیت:

اللہ تعالیٰـ نے اُمتِ مسلمہ کواس لیے وجود بخشا کہ وہ اللہ کی مطیع فرمان (مسلم ) بنے اورباقی دنیا کو راہِ راست دکھائے:۔

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ ( سورۂ آلِ عمران۔  آیت نمبر110)

’’تم  بہترین اُمت ہو، جس کو انسانوں کے لیے بھیجاگیا ہے۔  تم معروف کا حکم دیتے ہواور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ ‘‘

اللہ کے دین کی اطاعت، اُس کی طرف دعوت، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر جسے عظیم کاموں کی انجام دہی کا فرض، جس اُمت کے سپر د کیاگیا ، اللہ نے اُس کی تربیت کا انتظام بھی کیا۔  تربیت کے اس اہتمام سے مقصود یہ تھا کہ اُمت کا شعور ہمیشہ بیدار رہے، اُس کا ایمان قوی اور توانا ہو، اُس کے افراد ان ہدایات سے اچھی طرح واقف ہوں جوزندگی کے مختلف معاملات کے لیے اللہ نے اُن کو دی ہیں ، وہ اپنی کمزوریوں اورخامیوں کے ازالے کے لیے مسلسل کوشش کریں ، اُن کے جذبات واحساسات میں سب سے قوی جذبہ اللہ کی محبت کاہو اور رضائے الٰہی کی طلب میں وہ ایک دوسرے سے  سبقت لے جائیں ۔

اُمت کی تربیت کے لیے انجام دے جانے والے اہم امور یہ تھے۔

1۔  تحویلِ قبلہ کا حکم

2۔  صبر اور اقامتِ صلوٰۃ کی تلقین

3۔ حجِ بیت اللہ کی فرضیت

4۔  صومِ رمضان کی فرضیت

5۔ جہاد فی سبیل اللہ کی مشروعیت

6۔ معاشرتی زندگی کے لیے احکام

7۔ سود کی حُرمت اورآدابِ انفاق کی تعلیم

جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :

’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو سولہ سترہ مہینے، بیت المقدس ہی کی طرف (رُخ کرکے ) نماز پڑھتے رہے۔  اس کے بعد کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آگیا۔ ‘‘

تحویلِ قبلہ کا یہ حکم، اِس بات کی علامت تھی کہ اب دنیا کوراہِ راست دِکھانے کا جوکام، بنی اسرائیل کے سپرد کیا گیا تھا ، وہ اُن کے بجائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والی ، اُمتِ مسلمہ کے سپرد کیا گیا۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۝۰ۭ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَۃً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللہُ۝۰ۭ وَمَا كَانَ اللہُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۴۳ قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضٰىھَا۝۰۠ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ۝۱۴۴ (سورۂ بقرہ۔ آیات نمبر143و144)

’’اور اس طرح ہم نے تم کواُمت وسط بنایا ہے تا کہ تم انسانوں پر گواہ ہواور رسول تم پر گواہ ہو۔ جس قبلے کی طرف تم ، پہلے رُخ کررہے تھے اُس کوہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تا کہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اورکون اُلٹے پاؤں پھرجاتا ہے۔  بے شک یہ بات بھاری ہوئی لوگوں پرسوائے اُن کے جن کواللہ نے ہدایت بخشی ہے اوراللہ تمہارے ایمان کوضائع نہ کرےگا۔  بے شک وہ اِنسانوں پر بڑا شفیق اور مہربان ہے۔ ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں ۔ لوہم تم کو اُسی قبیلے کی طرف پھیرے دیتے ہیں جس کوتم پسند کرتے ہو۔ پس اپنا رُخ مسجد حرام کی طرف پھیر لو اورجس جگہ بھی تم ہو اُسی طرف اپنا رُخ پھیرو۔  جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم ) حق ہے اُن کے رُب کی طرف سے۔ اورجو کچھ وہ کرتے ہیں ، اللہ اُ س سے بے خبر نہیں ہے۔ ‘‘

اقامتِ صلوٰۃ و حج:

اُمتِ مسلمہ کوجوکام انجام دینا ہے وہ اللہ کی مد د کے بغیر ممکن نہیں ۔ اللہ کی مدد کا مستحق ہونے کے لیے صبر اور نماز کا اہتمام ضروری ہے۔  چنانچہ اُمت کو اِن امور کی تلقین کی گئی۔

 فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳(سورۂ بقرہ۔ آیات نمبر 152و153)

’’ پس تم مجھےیاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اورمیرا شکر ادا کرواورناشکر ی مت کرو۔ اے لوگو، جوایمان لائے ہو! صبر اورنماز سے مدد لو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘

اِن آیات کی تشریح کے ذیل میں جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :

’’ذِکر، شکر اور ترکِ کفران،……..تمام طاعات اور منہیاتِ شرعیہ کومحیط ہیں ، جن کا انجام دینا دشوار امر ہے۔  اس کی سہولت کے لیے یہ طریقہ بتلایا گیا کہ صبر اور صلوٰۃ سے مدد لو۔ اُن کی مداومت سے تمام امور تم پر سہل کردیے جائیں گے۔ ‘‘

ارکانِ اسلام میں بڑا رُکن حج ہے۔  حج کی ادائیگی اُس وقت اپنے برکات ظاہر کرسکتی ہے جب حج کے آداب کا اہتمام کیا جائے۔

اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ۝۰ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ۝۰ۙ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ۝۰ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْہُ اللہُ۝۰ۭؔ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ۝۱۹۷ (سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر197)

’’ حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں ۔  جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے ، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزدنہ ہواور جونیک کام تم کروگے ، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ، اورسب سے بہتر زادِ راہ پرہیز گاری ہے۔  پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ ‘‘(تقویٰ اختیار کرو)

صوم وجہاد:

اقامتِ صلوٰۃ کے ذریعے ایمان لانے والے اللہ کے ذکر کا اہتمام کرتے ہیں اِسی طرح حج، اہلِ ایمان کے قلوب کے اندر اللہ کی محبت کے جذبات کوجِلا بخشتا ہے۔ اہلِ ایمان کی تربیت کے اس عمل میں صوم اورجہادبھی اپنا حصہ ادا کرتے ہیں ۔ صوم کا مقصد، حصولِ تقویٰ ہے۔

 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ  (سورۂ بقرہ۔ آیت 183)

’’ اے لوگو! جوایمان لائے ہو ، تم پرروزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرووں پرفرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ ‘‘

مولانا اشرف علی تھانوی ، اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی، نفس کواُس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اس عادت کی پختگی بنیاد ہے تقویٰ کی۔ یہ روزے کی ایک حکمت کا بیان ہے لیکن حکمت کا اس میں انحصار نہیں ہوگیا۔  خدا جانے اورکیا کیا ہزاروں حکمتیں ہوں گی۔ ‘‘

اللہ کے راستے میں جہاد ، اللہ پر ایمان لانے کا راست تقاضا ہے۔

 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۱۰ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۱ (سورۂ صف۔ آیات نمبر10،11)

’’اے لوگو جوایمان لائے ہو، میں بتاؤں ایسی تجارت جوتمہیں عذابِ الیم سے بچادے ؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر۔ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اوراپنی جانوں سے۔  یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگرتم جانو۔ ‘‘

سید ابوالاعلیٰ مودودی اِن آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال ، وقت، محنت اور ذہانت وقابلیت اِس لیے کھپاتا ہے کہ اُس سے نفع حاصل ہو۔  اسی رِعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کوتجارت کہاگیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤگے تووہ نفع تمہیں حاصل ہوگا جوبیان کیا جارہا ہے۔ ‘‘

احکام وہدایات ربّانی:

قرآن مجید کی سب سے بڑی سورت، سورۂ بقرہ ہے۔  سورہ فاتحہ کے فوراً بعد، قاری سورۂ بقرہ کو پڑھتا ہے۔  منصبِ امامت سے بنی اسرائیل کے معزول کیے جانے کے بعد، اس سورت میں اُمتِ مسلمہ کی امامت کا اعلان کیا گیا ہے۔  پھر اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کواُس کی اجتماعی زندگی کے لیے اپنی ہدایات سے نوازا ہے اور احکامِ شریعت اُسےعطا کیے ہیں ۔  صبر ، اقامتِ صلوٰۃ، صوم اورحج کی ادائیگی اور جہاد فی سبیل اللہ کے اہتمام سے اہلِ ایمان کوجو تربیت حاصل ہوتی ہے ، اُس کی تکمیل اللہ کی ہدایات  واحکام پر عمل کے ذریعے ہوتی ہے۔ یوں تو یہ ہدایات پورے قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں لیکن ان کے بڑے حصے کا تذکرہ سورۂ بقرہ میں آگیاہے۔  اللہ کے یہ احکام مندرجہ ذیل امور سے متعلق ہیں :۔

کھانے پینے کے سلسلے میں حلال وحرام کی قیود، قصاص و وصیت ، اکلِ حلال، رشوت کی ممانعت، حج سے وابستہ بے بنیاد رسوم کی اصلاح، قتال فی سبیل اللہ ، حج وعمرہ، انفاق کے مواقع ، حرام مہینوں میں قتال کا معاملہ، خمرو میسر کی حرمت ، مشرکین سے نکاح کی ممانعت، یتیموں سے برتاؤ، حیض، ایلاء، طلاق ورضاعت کے احکام ، انفاق کے آداب، سود کی حُرمت اور قرض کے احکام۔

آج بھی امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اُس کی تعلیم وتربیت کے لیے مؤثر اورجامع حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ جو مخلص اصحاب، اُمت کے حال کودرست کرنا چاہتے ہیں انہیں اس ضرورت کی تکمیل پر توجہ کرنی چاہیے۔  اُمت کی تعلیم وتربیت کے لیے اُس کے عوام و خواص کوصبر و استقامت ، اقامتِ صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ، اورادائیگی صومِ رمضان و حجِ بیت اللہ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ پھر اس تربیت کی تکمیل اس وقت ہوگی جب اہلِ ایمان ، اللہ کی اُن ہدایات پر عمل کریں جواللہ نے اجتماعی زندگی کی درست تنظیم کے لیے اُن کو دی ہیں ۔ معیشت و معاشرت سے متعلق ان احکام کا بڑا حصہ ایسا ہے جس کی تعمیل کے لیے سیاسی اقتدار، لازمی شرط نہیں ہے۔  چنانچہ دنیا کے ہر حصے میں رہنے والے اہلِ ایمان معاشرے کواپنی تعلیم وتربیت کے لیے، شرعی ہدایات پر عمل کا اہتمام کرنا چاہیے۔  اُمت کی تربیت کے بغیر اُس کا کھویا ہوا مقام اُسے حاصل نہیں ہوسکتا۔

تبصرے بند ہیں۔