نہ جانے سانحہ کیسا ہوا ہے

مقصود عالم رفعت

نہ جانے سانحہ کیسا ہوا ہے

کہ چہرہ چاند کا اترا ہوا ہے

وہ دنیا سے الگ ٹھہرا ہوا ہے

حصار ذات میں الجھا ہوا ہے

نہیں یوں ہی وہ دیوانہ ہوا ہے

کہ اس کے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے

تمیز اچھے برے کی ہوگی کیسے

نشہ دولت کا جو چھایا ہوا ہے

ہوئی ہے کیا خطا مجھ سے بتادے

اے میرے دوست کیوں روٹھا ہوا ہے

وہ جس کی ذات میں تھی حق بیانی

سر محفل وہی رسوا ہوا ہے

ذرا تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجے

جوقطرہ تھا وہی دریا ہوا ہے

کہاں تدبیر کارآمد  ہے رفعت

 وہی ہوگا کہ جو لکھا ہوا ہے

تبصرے بند ہیں۔