مقصود عالم رفعت
نہ جانے سانحہ کیسا ہوا ہے
کہ چہرہ چاند کا اترا ہوا ہے
…
وہ دنیا سے الگ ٹھہرا ہوا ہے
حصار ذات میں الجھا ہوا ہے
…
نہیں یوں ہی وہ دیوانہ ہوا ہے
کہ اس کے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے
…
تمیز اچھے برے کی ہوگی کیسے
نشہ دولت کا جو چھایا ہوا ہے
…
ہوئی ہے کیا خطا مجھ سے بتادے
اے میرے دوست کیوں روٹھا ہوا ہے
…
وہ جس کی ذات میں تھی حق بیانی
سر محفل وہی رسوا ہوا ہے
…
ذرا تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجے
جوقطرہ تھا وہی دریا ہوا ہے
…
کہاں تدبیر کارآمد ہے رفعت
وہی ہوگا کہ جو لکھا ہوا ہے
تبصرے بند ہیں۔