نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والوں!

سید مسیح اللہ ندوی

موجودہ عالمی حالات کا عموماً اور ملکی حالات کا خصوصاًغیر جانبدارانہ اور بغور جائزہ لینے پر ہر صاحب علم و ادراک اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ حالات کا دھارا کس سمت بہ رہا ہے، کیا کیا بہا لے جا رہا ہے اور اس کے نتائج کتنے خطرناک ہیں ، مجموعی طور پر پوری دنیا میں ایک منظم سازش کے تحت اسلام و مسلمان اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، آئے دن اخبار ات کی سرخیا ں اور مختلف نشریاتی اداروں کے بیانات اس بات کے شواہد سے بھرے پڑے ہیں ، اور ہر خبر بظاہر مسلمانوں کی مایوسی میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے، جبکہ طاقت و قوت ،عقل وفہم ، اعداد وشمار اور اسباب و وسائل کے اعتبار سے مسلمان اس مایوسی اور ناامیدی کے ہر گز حقدار نہیں ، لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگاکہ ان حالات کے ذمہ دار غیروں سے زیادہ خود مسلمان ہیں ، یا یوں کہا جائے کہ مسلمانوں کی غفلت و کوتاہی اور بر وقت صحیح اقدام کے نہ کرنے کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں ،مسلمانوں کا ماضی اور حال دونوں ہمارے سامنے موجود ہیں ، تاریخ میں وہ بھی مسلمان ہی تھے جن کی مثالیں آج بیان کی جاتی ہیں ، دنیا نے جن کے علم و ادب ، تہذیب و تمدن، حکمت و بصیرت اور طاقت و قوت کا لوہا مانا تھا، مشرق و مغرب میں انہی کا چرچا تھا، مختلف طرح کی مفید ترین ایجادات دنیا کے سامنے لانے والے یہی مسلمان تھے، جن کے سامنے آج کی’’مہذب ‘‘ قومیں زانوئے تلمذ تہ کیا کرتی تھی، دنیا میں ہر جگہ ان کا وجود باعث سعادت سمجھا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے اور اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری نے اپنا اثر دکھایا، یہاں تک کہ حالات یکسر مخالف ہو گئے۔

جیسا کہ کہا گیا کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار مسلمان بھی ہیں کہ مسلمانوں نے غفلت و کوتاہی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں اغیار اور زیادہ تیز اور چالاک ہوگئے ، جتنے علوم و فنون اور تہذیب و تمدن مسلمانوں سے سیکھے گئے خود مسلمانوں کے خلاف ہی ان کا استعمال کیا جانے لگا، جن عادات و اطوار اور اخلاق و کردار میں مسلمان ماہر تھے وہ تمام کی تمام کسی اور کی پہچان بن گئے ، وقت تھا کہ تب بھی مسلمان ہوش کے ناخن لیتے اور دشمنان اسلام کی جانب سے پیدا کئے جانے والے آپسی اختلافات و انتشارات کو بالائے طاق رکھ کردینی و اسلامی اخوت کا مظاہرہ کرکے باطل قوتوں کو منہ توڑ جوب دیتے ، لیکن وقت گذرتا گیا اور ہر گذرتے لمحہ کو دشمنان اسلام نے اپنی طاقت و قوت میں اضافہ کا ذریعہ بنایا اور مسلمانوں نے آپسی اختلافات کو مزید ہوا دی، جو نتیجہ ہونا تھا وہ آج ظاہر ہے، آج فریق مقابل اتنا طاقتور بن چکا ہے کہ مسلمان اس سے خوف کھانے لگے ، اس کی ہر مرضی قانون بن کر بلکہ قانون سے بڑھ کر مسلمانوں کی مخالفت میں قابل عمل مانی جارہی ہے۔

فطرت کا قانون ہے کہ ہر انسان کو اس کی محنت کا پھل ضرور ملتا ہے، مخالفین کی محنتوں سے کسے انکار ہے ؟ نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ان کی کوششیں اور اپنے عزائم کے لئے ان کی قربانیاں ، ہر طرح کے مزاج اور عادات کے لوگوں سے ملاقات اور ان کی ذہن سازی ، ملازم سے لے کر مالک تک ، تاجر سے لے کر گاہک تک ہر ایک سے ربط و تعلق ، گاؤں کا جاہل ہو یا شہر کا پڑھا لکھا انسان ، ادنی سا ملازم ہو یا اعلیٰ افسر، سرکاری ہو یا خانگی ، امیر ہو یا غریب، قریب ہو یا بعید ، ہر فرد سے ملاقات اور اپنے عزائم کے متعلق ان کی ذہن سازی اور آپسی معاونت کی ہر کوشش انہوں نے کی ، اندھیرے میں صبحیں کی ، پانی سے بھوک مٹائی ، ذمہ داروں کی ہر بات سر آنکھوں پر ، ہر بات کو قبول کیا ، انتھک محنتیں اور کوششیں کی اور اس میں کامیابی بھی ایسی پائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہی سب بن گئے ، وہی قانون داں بھی اور قانون شکن بھی، چور بھی اور پولس بھی، حکام بھی اور عوام بھی، انہیں کا سکہ چلنے لگا،غرض کہ بظاہر وہ اپنے ہر ارادہ میں کامیاب رہے۔

اس کے بر خلاف مسلمانوں کا حال یہ کہ اپنی سادگی کی وجہ سے اغیار کے فریب میں آگئے اور معمولی معمولی بات پر امت کا شیرازہ بکھیر دیا، مسلک بدلا تو محلہ بھی بدل دیا اور مسجد بھی ، لباس بھی بدل دیا اور مزاج بھی، جہاں محبت تھی ان کی جگہ نفرتوں نے لے لی ، جہاں اخوت و ہمدردی تھی ان کی جگہ دشمنی اور حسد نے چھین لی، اتحاد میں جو ضرب المثل تھے اب اختلاف میں ان کا ثانی بمشکل ملے، خدا کو چھوڑ کر دین کے ایک بڑے حصہ کو اختلافات کا سبب بنا دیا، اور انہی اختلاف میں بعض مسلمانوں نے دفاع کے لئے اور بعض نے نقد کے لئے اپنی کوششیں اور صلاحتیں صرف کردیں ، کاش کہ یہ وقت اور صلاحیت صحیح جگہ استعمال ہوتی۔

دونوں فریقین اور ان کی محنت کے تنائج ہمارے سامنے ہیں ، ایک کا حال یہ کہ ہر سیاہ و سپید کا مالک ہے اور ایک کا حال یہ کہ دین کی کوئی ضروری بات معلوم ہو یا نہ ہو معمولی سے اختلاف کی بات ضرور معلوم ہوگی، دین کے دشمن سے مقابلہ ہو یا نہ ہو اختلاف رکھنے والے سے مقابلہ اور مناظرہ ضرور ہوگا، نتائج کے ساتھ ساتھ ان کا نفع و نقصان بھی ہمارے سامنے ہے۔

لہٰذا اگر پھر وہی شان و شوکت اور عظمت رفتہ اگر مسلمان حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہی عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلنا ہوگا جن کی نظر میں پوری ملت ایک جسم کی مانند تھی ، مسلمانوں کی مثال ایک دیوار کی طرح تھی کہ اس کی ہر اینٹ ایک دوسرے کو مضبوط بناتی ہے، جو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اسلام کے دفاع اور اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے تھے، ضرورت اس بات کی ہے اور اب بھی وقت ہے کہ اختلاف کی بجائے اتحاد کے لئے محنتیں کی جائیں اور مسلمانوں اور اسلام کی عظمت رفتہ کو پھر بحال کیا جائے، دشمنوں کی چال اور ان کی تدبیروں کو فراست ایمانی اور نورخداوندی کے ذریعہ سمجھ کر ان کی ہوا اکھاڑ دی جائے، اور اسی میں ساری انسانیت کی بھلائی ہے۔

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید و مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔