نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

ڈاکٹر احمدعلی برقیؔ اعظمی

مرے حالِ زبوں پرمجھ پہ کوئی مہرباں کیوں ہو

’’ نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو‘‘

میں ہوں حَرفِ غلط جس کو مٹانے پر تُلے ہیں سب

کوئی میرے لئے آخر جہاں میں نوحہ خواں کیوں ہو

چیچنیا ہو کہ برما ہو، فلسطیں ہو کہ غزہ ہو

جہاں میں سرخیٔ اخبار میری داستاں کیوں ہو

ااس اندھے ، گونگے اور بہرے جہاں میں بے زباں ہوں میں

مرا سوزِ دروں اقوامِ عالم پر عیاں کیوں ہو

ہوں میں بھی ابن آدم اور مجھے بھی حق ہے جینے کا

ہمیشہ بجلیوں کی زد پہ میرا آشیاں کیوں ہو

میں جن سے پوچھتا ہوں جھانکنے لگتے ہیں وہ بغلیں

مری ہی بستیوں میں ہر جگہ آہ و فغاں کیوں ہو

کرے عرضِ تمنا کیسے برقیؔ اعظمی اُن سے

وہ کہتے ہیں کہ تم میرے لئے بارِ گراں کیوں ہو

تبصرے بند ہیں۔